لاہور (خصوصی رپورٹ) پنجاب کے نواحی علاقے خان گڑھ موضع گجوائین کی رہائشی شہناز بی بی اور اس کے شوہر رشید گوندل کو 22 جنوری کو ان کے گھر میں قریبی رشتہ داروں محمد حسین اور اس کے تین بیٹوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کی دھمکیاں دیں، جس پر انہوں نے تھانہ خان گڑھ پولیس کو تحریری درخواست دی۔ 24 جنوری کو پولیس نے فریقین کو تھانے طلب کیا گیا ‘ اور مدعی کے بیان کے مطابق انہیں مبینہ طور پر ملزمان سے راضی نامے کے لئے دباﺅ ڈالا ۔ انکار پر تفشیشی اہلکاروں نے انتظامی کارروائی کرتے ہوئے فریقین کے خلاف زیر دفعہ 107 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے ملزم فریق کے محمد حسین اور اس کے بیٹے نواب حسین سمیت درخواست کے مدعی شہناز بی بی کے شوہر شیر گوندل اور دیور اور اعظم گوندل کو گرفتار کر لیا گیا۔ شہناز بی بی نے بہت منت سماجت کی لیکن اس کی کچھ سنوائی نہ ہوئی۔ وہ اس صورت حال اور رویوں سے اس قدر دل برداشتہ ہوئی کہ تھانے کے سامنے خود سوزی کر لی۔ اس افسوس ناک واقعے کے بعد اسے طبی امداد کے لئے ہسپتال لے جایا گیا‘ ڈی پی او مظفر گڑھ اویس ملک نے واقعے کی اطلاع پر نشتر ہسپتال پہنچ کر متاثرہ عورت کا بیان ریکارڈ کیا اور متعلقہ اہل کاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا، ساتھ ہی اقدام خودسوزی کرنے والی شہناز مائی کے خلاف بھی مقدمہ درج کر لیا گیا، بعد ازاں اس واقعے کے بعد آٹھ روز زندگی و موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد شہناز مائی زندگی کی بازی ہار گئی۔ بدقسمتی سے بڑے شہروں میں بھی تھانوں کی صورت حال ابھی بھی کوئی بہت حوصلہ افزا نہیں ہے، جب کہ دور دراز اور پس ماندہ علاقوں میں صورت ناک امر یہ ہے کہ یہ تینوں واقعات ضلع مظفر گڑھ میں پیش آئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے تھانوں کی سطح پر ویمن ڈیسک ‘تھانوں میں خواتیں اہلکاروں کی تعیناتی تقینی بنانے کا اعلان کیا گیا ہے، اس ضمن میں جنوبی پنجاب کے پس ماندہ علاقوں میں قائم تھانے فوری توجہ کے منتظر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ”شہناز بی بی کیس“کی تفشیش کے لئے باقاعدہ عدالتی کمیشن مقرر کیاجائے اور ایسے اندوہ ناک واقعات کی روک تھام کی کوششیں کی جائیں۔ہماری خواتین ایک طرف سماج کی جانب سے شدید مسائل کا شکار ہیں، دوسری طرف انہیں قانون تک رسائی کے لئے جب تھانوں کا رخ کرنا پڑتا ہے تو یہاں ان کے ساتھ اس قدر مشکلات پیش آتی ہیں کہ اکثر خواتین سماجی نا انصافیوں اور بدترین مظالم جھیلتے جھیلتے جان دے دیتی ہیں، لیکن کبھی تھانے کا رخ کرنے کی ہمت نہیں پاتیں، کیوں کہ انہیں بتا ہوتا ہے کہ یہ راہ خطرناک اور غیر محفوظ ثابت ہو گی۔ اس راہ سے ان کی زندگی میں کوئی سہولت اور آسانی آنے کے بجائے مزید کٹھنائیاں پیدا ہوجائیں گی۔ ملتان میں حکومت پنجاب کی جانب سے ”خواتین کی دادرسی سینٹر“ قائم کیا گیا ہے، جس کا افتتاح بالآخر 8 مارچ کو متوقع ہے۔ یہ سینٹر جنوبی پنجاب میں ماڈل سینٹر ہو گا۔ اگلے مرحلے میں ہر ضلع میں ایسے مراکز بنائے جائیں گے ، جس میں متاثرہ خاتوں کی ایک کال پر اسے سینٹر لایا جائےگا اور ایک چھت تلے اندراج مقدمہ ، طبی معائنہ ‘ فرانزک لیب ‘ اخلاقی مدد‘ بحالی میں ہر قسم کی امداد کی سہولت میسر ہو گی ، جب کہ فوری انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ اپنی نوعیت کے اس مرکز کا قیام قابل ستائش ہے ، تا ہم اس کے باوجود بھی بنیادی سطح پر تھانے کی اہمیت سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی، پھر یہ امر کہ رحیم یار خان ‘ لیہ‘ راجن پور سمیت جنوبی پنجاب کے ملتان کے علاوہ 10 اضلاع کی متاثرہ و مظلوم عورتوں کو داد رسی مرکز لانا خاصا مشکل نظر آتا ہے، جب کہ بعض واقعات میں فوری شواہد لینا ضروری ہوتاہے، جو مسافت کے بعد کس طرح ممکن رہے گا۔ مرکز کی اہمیت کے باوجود مظلوم و متاثرہ عوام و خواتین کو ان کی دہلیز تک انصاف کی فراہمی کا تقاضہ نہ صرف تھانوں کی اصلاح اور تھانوں کی تعداد میں اضافے ، ان میں خواتین اہل کاروں کی تعیناتی اور ویمن ڈیسک کے یقینی بنانے میں ہے۔ جنوبی پنجاب کے جن اضلاع میں جاگیردارانہ‘ اجارہ دارانہ اور مروانہ تعصب کے اثرات موجود نظر آتے ہیں، وہاں کہیں کہیں پولیس کا جھکاﺅ علاقائی اثرورسوخ کے حامل شخصیات کی جانب زیادہ نظر آتاہے۔ اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ پولیس کی غیر جانب دارانہ کردار کو یقینی بنایا جائے۔