انہوں نے اپنی30 سالہ فلمی زندگی میں پچیس ہزار کے قریب گانے گئے، اتنی مدت میں کسی بھی پلے بیک سنگر نے اتنی بڑی تعداد میں گانے نہیں گائے۔ ان گانوں میں بھجن اور غزلیں بھی اور شبد بھی ہیں اور ہلکی پھلکی غزلیں بھی ہیں اور ٹھوس سیاسی نظمیں بھی ہیں۔ وہ گانے بھی ہیں جو سماجی ناانصافی اور برابری کے احتجاج سے پر ہیں، ایسے نغمے بھی ہیں جو مغربی موسیقی پر ترتیب دیئے گئے ہیں۔ ایسی بندشیں بھی ہیں جن کا آدھا حصہ ہندوستانی سنگیت پر ہے، محمد رفیع صاحب کیلئے اتنے مختلف اور متضاد سٹائل بنانا اور یکساں کامیابی سے نبھانا اس لئے ممکن ہوسکا کہ انہیں سروں پر عبور حاصل تھا۔ اس کے علاوہ وہ اپنی آواز سے ایکٹنگ کرنے کے فن میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ وہ جب کسی انقلابی کردار کیلئے گاتے تھے تو ان کی آواز میں ایک انقلابی کا جوش ہوتا تھا اور جب کسی شرابی کیلئے گاتے تھے تو آواز میں شرابی کی سی لڑکھڑاہٹ ہوتی اور جب کبھی ناکام محبت کیلئے گاتے تھے تو ان کی آواز میں مکمل والہانہ جذبات کا اظہار ہوتا تھا۔ ہمارے بہت سے کلاسیکل اور نیم کلاسیکل سنگر جو فلم میں آئے۔ مگر کامیاب نہ ہوسکے، ان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ ایک ہی سٹائل میں گاتے تھے جس کے سبب فلم میں کامیابی نہ مل سکی جبکہ فلموں میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ گلوکار بیسیوں سٹائل اپنانے کی صلاحیت رکھتا ہو، جس کا بہترین مظہر محمد رفیع صاحب کی ذات تھی، افسوس کہ اس عظیم گلوکار کی آواز میں ہم اب کوئی نغمہ نہیں سن سکیں گے، البتہ ان کے پہلے گائے ہوئے گانوں کے ٹیپ اور گراموفون ریکارڈ اب بھی دن رات ریڈیو سے بج رہے ہیں اور آئندہ بھی بجتے رہیں گے، انکی شکل وصورت اور قدوقامت ان کے اٹھنے بیٹھنے اور گانا گانے کااندازسامعین نے ان کے پروگراموں کو فلما کرآنے والے زمانے کیلئے محفوظ کردیا ہے، اس کے آگے سامعین بے بس ہے اور اس کا دوسرا نام صبر ہے۔
رفیع صاحب جیسا فن کار صدیوں میں پیدا ہوتا ہے، جب تک زندہ رہے اپنے نغموں سے انسانوں کی دل بستگی کا سامان فراہم کرتے رہے۔
پچھلے تیس برسوں میں جب بھی کسی سماجی، تعلیمی یا قومی قسم کا کوئی پروگرام رکھا گیا تو محمد رفیع صاحب نے اپنی مکمل خدمات پیش کیں اور اسے کامیاب بنا کر دکھایا۔
جس طرح ان کا فن بے داغ تھا اسی طرح ان کی زندگی بھی بے داغ تھی۔ فلمی موسیقی سے وابستہ موسیقاروں کومحمد رفیع صاحب کے خلاف کبھی کسی قسم کی کوئی شکایات نہیں ہوئی، ان کی موت سے ملک ایک ایسے بلند پایہ گلوکار اورایک ایسے پاک طنیت انسان سے محروم ہوگیا جس کی تلافی بے حد مشکل ہے۔
محمد رفیع کی وفات پرتاثرات
محمد رفیع نہ صرف ایک مشہور اور عظیم گلوکار تھے بلکہ انسانوں میں ہیرا تھے۔
(دلیپ کمار)محمد رفیع سنگیت کے بادشاہ تھے۔
(راج کپور)
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ محمد رفیع کو ان کی فلمی زندگی میں داخلے کے وقت میں نے ان کی مدد کی تھی وہ مغالطے میں ہیں لیکن سچائی تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنی آواز سے میرے سنگیت کوعزت دی ہے۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے کچھ ایسے گیتوں کو اپنی آواز میں بخوبی نبھایا ہے، جنہیں ان کے علاوہ اور کوئی اتنی خوبی سے نبھا نہیں سکتا تھا۔
(نوشاد علی)محمد رفیع کی آواز کی لوچ بے مثال تھی۔
(مناڈے)محمد رفیع صاحب جیسے گانے والے صدیوں میں کہیں اپنی جھلک دکھاتے ہیں ان کی بے وقت موت پر میں خود کو یتیم محسوس کر رہا ہوں۔ (مہندرکپور)
محمد رفیع نہ صرف ہمیں پیارا تھا بلکہ خدا کو بھی پیارا تھا۔ ان کا رمضان کے مہینے میں سترہویں روزے جمعہ کے دن خدا کی رحمت میں پہنچنا بھی ثابت کرتا ہے۔ (طلعت محمود)ہر گیت کے مزاج کے مطابق محمد رفیع صاحب اپنی آواز کو ڈھال لیتے تھے۔ پردے پر دکھائی دینے والے ایکٹرکا انداز ان کے گیتوں میں ڈھل کر آتا تھا۔ (موسیقارکلیان جی آنندجی)آواز کی دنیا کا بے تاج بادشاہ جس کی مدھر آواز تین دہائیوں سے ہمارے کانوں میں رس گھول رہی تھی اور جو ہزاروں کی تعداد میں پکے اور ہلے کلاسیکل گیت گا کر بھی روز اول کی طرح تروتازہ تھی اور 31 جولائی1950 ءکی رات کو اچانک اپنے کروڑوں پر ستاروں کو اس نعمت سے محروم کر گیا۔
فلمی دنیا میں خوش مزاج ‘خوش اخلاق‘ بامروت اور پاک دامن چند ہی لوگ ہوتے ہوں گے اور اپنی سدا بہار مسکراہٹ کے ساتھ محمد رفیع ان میں سے ایک تھے۔ (گلشن نندہ)
محمد رفیع واقعی بلند اخلاق انسان ہیں
صحافی‘ ہدایت کار شوکت راز
ہمارے جرنلسٹ صحافی دوست شوکت راز1953 ءمیں بمبئی گئے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ گلوکار محمد رفیع سے ملاقات کریں۔ ان سے ملاقات کی روئیدادا اُن کی زبانی سنئے:
میں جب اُن سے ملنے گیا تو اس وقت اُن کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ مجھے دس دن بعد مل سکے۔اُن کی ملاقات سے میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ کیونکہ میری نظر میں وہ گلوکار نہیں ہوسکتا جو اچھے اخلاق کا مالک نہ ہو۔ سو یہی ہوا میری ملاقات پر یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہوگئی کہ واقعی وہ بلند اخلاق انسان ہیں۔ان دنوں انہیں فلم ”بیجوباورا“ کے گانوں پر ایک عدد کار آسٹن کریم کلر اور نقد 20 ہزار روپے ملے تھے۔ کار کے لئے محمد رفیع کے پاس اپنا گیراج بھی نہیں تھا۔کار فٹ پاتھ کے ساتھ نیلے آسمان کے نیچے کھڑی کرنی پڑتی تھی۔ اس وقت محمد رفیع وزیر مینشن کی دوسری منزل کے فلیٹ میں رہائش پزیر تھے۔ ( جاری رہے)