اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی میں جمعہ کو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع دو سالوں کے لئے آئین و قانون میں ترامیم کے دو الگ الگ بلز پیش کردیئے گئے‘ اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور حکومتی اتحادی جمعیت علماءاسلام (ف) نے دونوں بلز کی مخالفت کردی،فوجی عدالتوں کے لئے آئین میں 28ویں ترمیم ہوگی جب کہ آرمی ایکٹ میں ضروری رد بدل ہوگا ، پاکستان تحریک انصاف کے اراکین بھی ایوان سے باہر تھے، نئی ترامیم کے تحت ریاست کے خلاف سنگین کارروائیاں کرنے والوں کے خلاف مقدمات بلا تفریق فوجی عدالتوں کے سپرد کردیئے جائیں گے۔ پارلیمانی جماعتوں میں دوباری بلز پر مشاورت اور تحفظات دور کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ گزشتہ روز ایوان میں وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید دو سالوں کی توسیع کے لئے دستور میں 28 ویں ترمیم کا بل پیش کیا دستور میں ترمیم کا سابقہ بل ہی دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔ بعد ازاں وزیر قانون نے پاکستان آرمی ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل 2017 پیش کیا پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے خاتون رکن شگفتہ جمانی نے دونوں بلز کی مخالفت کی جبکہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے اراکین واک آﺅٹ کے باعث ایوان میں موجود نہیں تھے پاکستان پیپلز پارٹی اور حکومتی اتحادی جمعیت علماءاسلام (ف) نے آئین و قانون میں ان ترامیم کو امتیازی قرار دے دیا ہے۔ اتحادیوں میں مولانا فضل الرحمان نے باقاعدہ طور پر عدم اتفاق کیا ہے ۔ایوان میں پیش آئینی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ہرگاہ کہ غیر معمولی واقعات اور حالات اب بھی موجود ہیں جو اس امر کے متقاضی ہیں کہ بعض جرائم جو دہشت گردی پاکستانکے خلاف جنگ یا بغاوت سے متعلق ہیں کہ فوری سماعت کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں اور ان معرکوں کو روکا جائے جن سے دہشت گرد یا دہشت گرد جماعتیں یا مسلح گروہ‘ جتھے اور جنگجو یا ان کے کے ارکان جو مذہب یا فرقہ کے نام کا غلط استعمال کرتے ہوئے یا ریاست کے خلاف سنگین اور انتہائی شدید دہشت گردی کے فعل کا ارتکاب کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کررہے ہیں اور ہرگاہ کہ پاکستان کی سلامتی اور مقاصد کو جو دستور سازوں کی جانب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے ابتدائیہ میں بیان کئے گئے ہیں بعد ازایں جس کا حوالہ دستور کے طور پر دیا گیا ہے کو دہشت گرد جماعتوں سے جنہوں نے مذہب یا فرقہ کے نام کا غلط استعمال کرتے ہوئے یا ریاست کے خلاف سنگین اور انتہا شدید دہشت رگردی کے فعل کا ارتکاب کرتے ہوئے یا بیرونی اور مقامی غیر ریاستی عناصر کے سبب فراہم کردہ فنڈ سے ہتھیار اٹھانے اور بغاوت کا شدید اور غیر متوقع خطرہ اب بھی موجود ہے ۔ مذکورہ دہشت گرد جماعتیں بشمول کوئی بھی ایسی دہشت گردی کی لڑائی جبکہ وہ مذہب یا فرقہ کے نام کا غلط استعمال کررہی ہوں یا ریاست کے خلاف سنگین اور انتہائی شدید دہشت گردی کے فعل کا ارتکاب کررہی ہوں مسلح افواج یا بصورت دیگر کے ساتھ لڑائی پر گرفتار ہوتا ہے یا گرفتار کیا جاتا ہے تو دفعہ 3 میں بعد ازیں متذکرہ ایکٹس کے تحت قائم کردہ عدالتوں کی جانب سے سماعت کیا جاتا ہے اور ہرگاہ کہ پاکستان کے لوگوں نے اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے اپنے پختہ عزم کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردوں کو پاکستان سے مستقل طور پر پوری طرح سے ختم اور جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا جائے یہ قرین مصلحت ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور سالمیت کے مفاد میں حسب ذیل خصوصی اقدامات لینے کے لئے ان کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے اور فوجی عدالتوں میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت کو ممکن بنایا جائے۔ آئین میں ترمیم کی اغراض و وجود میں کہا گیا ہے کہ غیر معمولی حالات و واقعات جنہوں نے ملک کی سلامتی اور سالمیت پاکستان کو مختلف دہشت گرد جماعتوں‘ مسلح گروہوں‘ ونگز اور مسلح جتھوں اور ان کے ارکان سے پیدا ہونے والے سنگین خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے (دستور اکیسیویں ترمیم) ایکٹ 2015 (نمبر ابابت 2015) (دو سالہ انقضاءکی شق) کے ساتھ منظور کیا گیا تھا جس نے پاکستان بری فوج ایکٹ 1952کے تحت دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی فوری سماعت کے قابل بنایا۔ ان اقدامات نے دہشت گردی کی بیخ کنی میں مثبت نتائج فراہم کئے لہذا اسی لئے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ دستوری ترمیم کے ذریعے ان خصوصی اقدامات کو مزید دو سالہ مدت کے لئے بدستور رکھا جائے۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لئے پیش کئے گئے آئینی ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی مخالفت کردی‘ پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ بل سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے، فوجی عدالتوں میں توسیع کی مدت ایک سال کرنے اور ہائی کورٹ و سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق فراہم کرنے کے لئے ترامیم پیش کریں گے‘ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پیش کیا گیا بل موجودہ حیثیت میں ہمارے لئے قابل قبول نہیں بل میں مذہب اور فرقے کا امتیاز ختم کرکے دہشت گردی کے خلاف عمومی بل بنایا جائے تو ہم حمایت کریں گے۔ دہشت گردی کو مذہب‘ فرقے‘ سیاسی جماعتوں اور مدارس سے جوڑنے کی حمایت نہیں کرسکتے۔ دیگر قوانین کی طرح اس قانون کا بھی پورے ملک اور تمام شہریوں پر یکساں اطلاق ہونا چاہئے۔ جمعہ کو ایوان میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے آئینی ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پیش کئے جانے کے بعد پیپلز پارٹی کی عذرا فضل جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین نے بحث میں حصہ لیا بحث پیر کو بھی جاری رہے گی۔ سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ بل پر تحفظات دور کرنے کے لئے مزید مشاورت کی جائے۔ قبل ازیں بل پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں مزید توسیع کا بل پیش ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک دہشت گردی کی زد میں ہے ہر شہری خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے گلی کوچوں کے مسائل تو رہتے ہیں لیکن ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھایا گیا جب مسئلہ پورے ملک اور پوری قوم کا ہے اور بار بار کہا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب اور قوم نہیں اور اگر کوئی دہشت گرد ریاست کو چیلنج کرے تو اس کے خلاف پوری قوت سے کارروائی ہونی چاہئے لیکن جب بھی دہشت گردی کا لفظ آتا ہے تو اسے مدارس اور مذہب سے جوڑ دیا جاتا ہے یہ تاثر انصاف کے منافی ہے۔ پاکستان میں تمام مکاتب فکر نے دہشت گردی کے خلاف اور آئین کے حق میں قراردادیں منظور کی ہیں ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ملک کے ‘ فوج کے‘ حکومت اور پارلیمنٹ کے ساتھ ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے واقعہ کے بعد آئین میں ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کی فوری ضرورت پیش آئی یہ بھی طے ہوا کہ یہ قانون دو سال تک رہے گا دو سال بعد دہشت گردی میں کمی کا تاثر تو سامنے آیا مگر دہشت گردوں کو سزا دینے کے لئے سول عدالتوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے اس قانون میں توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی۔ دہشت گردی کی نئی لہر کا کیا مطلب لیا جائے ایک مطلب تو فوجی عدالتوں میں توسیع کا لیا گیا دوسرا مطلب تو یہ کہ فوجی عدالتیں بھی ناکام ہوگئی ہیں۔ کیا ہم فوج کی خدمات حاصل کررہے ہیں یا فوج کو دہشت گردی کے نام پر اختیارات فراہم کررہے ہیں کیا ایسا تو نہیں کہ جمہوری عمل میں فوج کے اختیارات بڑھائے جارہے ہیں کوئی بھی قانون امتیازی نہیں ہونا چاہئے اس میں پورا ملک شامل ہونا چاہئے اور تمام شہریوں پر نافذ ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہر قانون یکساں اور عام ہونا چاہئے اسے امتیازی نہیں ہونا چاہئے۔ امتیازی ہونے کی صورت میں اس پر اعتماد کم ہونا چاہئے۔ پہلے دن کہا گیا تھا کہ قانون میں مذہب اور فرقے کا نام لیا گیا ہے یہ مدارس مذہبی تنظیموں اور فرقوں کو فوکس کرتا ہے دہشت گرد تو یونیورسٹیوں سے بھی پکڑے گئے تمام بڑے دہشت گردوں کے حملوں میں پکڑے گئے یا مارے گئے لوگوں کا مدارس سے کوئی تعلق نہ نکلا میں اعلان کرتا ہوں کہ طالبان اسلام کا نمائندہ نام نہیں ہم اسلام کے نمائندے ہیں جو آئین اور قانون کے اندر کام کرتے ہیں۔ پھر مذہب اور فرقے کے نام پر کارروائی مناسب نہیں بلوچستان اور کراچی میں اسلحہ اٹھانے والوں پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو وہ دہشت گرد نہیں۔ ہم نے اس بل کو عمومی بنانے کے لئے ترمیم ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک خاص تاثر ی بو پاکستان کے لئے مناسب نہیں مدارس میں اصلاح کے نام پر مدارس کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔