لاہور (خصوصی رپورٹ) پنجاب حکومت کا لاہور میں جاری اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ کافی تاخیر کا شکار ہو گیا اور اپریل 2018ءسے قبل میٹرو ٹرین چلنے کے امکانات دم توڑنے لگے۔ ذرائع کے مطابق سول ورکس کے ٹھیکیداروں نے طے شدہ ڈیڈلائن پر کام کی تکمیل سے انکار کرتے ہوئے اضافی وقت مانگ لیا جبکہ چوبرجی سے علی ٹا?ن تک 13.4کلومیٹر طویل پیکیج ٹو کے سول ورکس میں مقبول کالسن کمپنی کا فراڈ پکڑے جانے کے بعدنئی کمپنی زیڈ کے بی ریلائی ایبل کو 27فیصد مہنگے ریٹ پر ٹھیکہ دے دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے منصوبہ مکمل کرنے کی نئی ڈیڈلائن دسمبر 2017ءمقرر کردی ہے۔ دستیاب دستاویزات میں انکشاف ہوا کہ پیکیج ٹو کے تعمیراتی ڈھانچے کا ٹھیکہ مقبول کالسن کو 20ارب 27کروڑ روپے کی اصل لاگت کے مقابلہ میں 12.20فیصد ری بیٹ کے ساتھ 18ارب 6کروڑ روپے میں دیا گیا۔ اس کمپنی نے ستون نمبر 258اور 259کی زیرزمین 22شاخوں کی لمبائی کم کر کے فراڈ کیا جس کو نیسپاک نے ساﺅنڈ انٹیگریٹڈ ٹیسٹ یا کنکریٹ الٹراساﺅنڈ کے ذریعے پکڑ لیا۔ اس وقت یہ کمپنی تقریباً 10ارب وپے کا کام مکمل کر چکی تھی جبکہ 8ارب روپے کا کام باقی تھا۔ فراڈ پکڑے جانے پر صوبائی حکومت نے ٹھیکہ منسوخ کر دیا اور ایک بڈنگ کے ذریعے باقی ماندہ کام کا ٹھیکہ میٹرو بس ملتان کا منصوبہ تعمیر کرنے والی کمپنی زیڈ کے بی ریلائی ایبل کو 12ارب 89کروڑ روپے میں دے دیا۔ اس طرح چوبرجی سے علی ٹاﺅن تک سول ورکس کا ڈھانچہ جس کی لاگت 18ارب 6کروڑ روپے تھی اب یہ 22ارب 89کروڑ میں مکمل ہوگا۔ منصوبہ کے انچارج خواجہ احمد حسان لاگت بڑھنے کی وجہ مارکیٹ میں کم مقابلے بازی کی فضا اور وقت کی قلت کو قرار دیتے ہیں لیکن آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے حکام نے ایک ہی منصوبے کا ٹھیکہ پہلے سے زیادہ قیمت پر دینے کے اقدام کو خلاف قانون قرار دیا اور مستقبل میں بڑے آڈٹ اعتراض کی شکل میں سامنے آنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ منصوبہ کی قریبی مانیٹرنگ کرنے والے ذرائع نے مدت تکمیل کے حوالے سے بتایا کہ میٹرو ٹرین کا ڈھانچہ کھڑا کرنے کی اولین ڈیڈلائن 30اگست 2016ءمقرر کی گئی تھی لیکن لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے تحت تاریخی عمارتوں کے قریب واقع تقریباً 24فیصد زمین پر شالامار باغ‘ چوبرجی سمیت مختلف حصوں میں کام روک دیا گیا۔