لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ جنرل (ر) راحیل شریف کے اسلامی فوج کی سربراہی کے حوالے سے خبریں میں 6 بار خبر شائع ہوچکی ہے۔ پہلی بار خبر اس وقت شائع ہوئی جب راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ میں ڈیڑھ ماہ باقی تھا۔ ”خبریں“ واحد اخبار تھا جس نے خبر دی تھی کہ جنرل راحیل شریف اسلامی فوج کی سربراہی کیلئے سعودیہ جارہے ہیں۔ حکومت کبھی تصدیق تو کبھی تردید کرتی رہی۔ وزیر دفاع نے ایک بار کہا کہ ہاں وہ سعودیہ جارہے ہیں۔ دو دن بعد سینٹ اجلاس میں کہہ دیا کہ غلط فہمی ہوئی تھی۔ سینئر مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایسا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔ میرے پاس خبر باوثوق ذرائع سے آئی تھی اس لئے اس خبر پر قائم رہا۔ اسحاق ڈار نے کہہ دیا ہے کہ خبر میں صداقت ہے اور وزیراعظم بھی منظوری دیدیں گے۔ دراصل نئے امریکی صدر ٹرمپ اس اسلامی فوج کے قیام کیخلاف تھے اور انہوں نے صدر بنتے ہی سعودی عرب اور پاکستان کو اس حوالے سے ایک ایک ڈوز دی اور معاملہ ٹھپ ہوگیا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ دنیا بھر میں روایت ہے کہ اسمبلی فلور پر غلط بیانی نہیں کی جاسکتی لیکن پاکستان میں اپوزیشن تک کو توفیق نہ ہوئی کہ حکومتی وزراءسے اس غلط بیانی پر سوال ہی پوچھ لیں۔ اب بھی یہ کہوں گا کہ اگر پھر کہی سے دباﺅ آگیا تو حکومتی وزیر ایک بار پھر تردید کرتے ہی نظر آئیں گے۔ میری خبر ہے کہ اسلامی فوج کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ فوج بن رہی ہے اور جنرل (ر) راحیل شریف کو سربراہی سونپے جانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اگر پھر درمیان میں آگئے اور سعودی عرب پھر پیچھے ہٹ گیا تو اس بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ جاوید لطیف اور مراد سعید کے جھگڑے میں جس طرح کے الفاظ استعمال کئے گئے وہ شرمناک تھے۔ جنہیں کہیں بھی کسی صورت دہرایا نہیں جاسکتا۔ ہماری پارلیمنٹ مادرپدر آزاد ہوچکی ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف نے بالکل ٹھیک کیا اور علماءسے کہاکہ دہشت گردی کیخلاف بیانیہ تیار کرنے میں مدد دیں۔ بارہا کہہ چکا ہوں کہ یہ علماءکی ذمہ داری ہے۔ وفاق المدارس کے سربراہ مولانا حنیف جالندھری ہیں جن کے تحت 13 ہزار مدارس تو دین کی خدمت کررہے ہیں تاہم 200 مدارس ایسے ہیں جن کے بارے میں حساس اداروں نے رپورٹ دی تھی کہ ان کے دہشت گردوں سے روابط ہیں۔ اس بارے وضاحت آنی چاہئے کہ ان مدارس کے حوالے سے کیا اقدام اٹھایا گیا۔ ہمارے علماءکرام کی بڑی تعداد تو وزیرستان میں ہی آپریشن کی قائل نہ تھی جبکہ مذاکرات بھی ناکام ہوچکے تھے۔ پشاور اے پی ایس کے اندوہناک واقعہ نے مذاکرات کا ڈرامہ بند کرایا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ سابق سفیر حسین حقانی کا کردار مشکوک‘ پراسرار اور پاکستان دشمن سمجھتا ہوں۔ وہ قابل اعتماد آدمی نہیں ہیں۔ آئی جی آئی کی میڈیا ٹیم کے سربراہ رہے۔ نوازشریف نے انہیں پنجاب میں مشیر اطلاعات بنا کر وزیر کا سٹیٹس دیا پھر حقانی نے اچانک غوطہ لگایا اور پیپلزپارٹی میں نمودار ہوئے اور بینظیر بھٹو نے انہیں سیکرٹری اطلاعات بنا دیا۔ میموسکینڈل میں ان کا کردار مشکوک رہا۔ نوازشریف ان کیخلاف کالا کوٹ پہن کر عدالت میں حاضر ہوئے۔ حسین حقانی پیپلزپارٹی دور میں بڑی یقین دہانیوں کے بعد پاکستان آئے تو اس وقت کے وزیراعظم گیلانی نے انہیں پی ایم ہاﺅس میں ٹھہرایا اور مکمل سکیورٹی فراہم کی گئی۔ چند دن یہاں گزار کر پھر واپسی کی یقین دہانی کرا کر امریکہ نکل گئے اور حسب روایت میموگیٹ سکینڈل بھی حکومت عدالت اور فوج سب کو بھول گیا۔ آج پھر حسین حقانی ایک نئے مضمون کے ساتھ سامنے آگیا ہے۔ جس میں سارا الزام اس وقت کی پیپلزپارٹی حکومت کے سر تھوپ دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو حسین حقانی کے الزامات کا جواب دینا ہوگا۔معروف عالم دین طاہر اشرفی نے کہا کہ پشاور اے پی ایس حملہ سے قبل علماءکا خیال تھا کہ ان طالبان سے جو مذاکرات کے حامی ہیں سے بات چیت کی جائے تاکہ ان کی طاقت بکھر جائے۔ اس وقت خدشہ تھا کہ اگر وزیرستان میں آپریشن شروع کیا گیا تو یہ لوگ ملک بھر میں حملے شروع کردینگے۔ پشاور حملہ نے صورتحال تبدیل کردی اور سب فوجی آپریشن پر متفق ہوگئے۔ وزیراعظم نے بیانیہ کی جو بات کی ہے اس پر پہلے بھی کافی کام ہوا ہے۔ تاہم ابھی بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس معاملے میں ابہام کا شکار ہیں اور وہ اگر مگر کے ساتھ دہشت گردوں کیلئے راستہ نکالتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذاتی طور پر میں دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ یہ عناصر بھارتی ایجنسی ”را“ اور افغان این ڈی ایس سے مل کر معصوم پاکستانیوں کاخون بہاتے ہیں ان سے مذاکرات کسی صورت نہیں ہونے چاہئیں۔ علماءکی اکثریت دہشت گردوں کی مذمت کرتی ہے اور ان کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کی جانب سے اس علماءسے تعاون دیکھنے میں نہیں آتا جو دہشت گردی کیخلاف میدان میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ریاست ابھی تک طے نہیں کر پارہی کہ کون سے عناصر دہشت گرد ہیں جن کو کالعدم کہا جاتا ہے۔ انہیں کھلی چھوٹ بھی حاصل ہے۔ حکومت پہلے طے کرے کہ جن کو کالعدم قرار دیتی ہے وہ کتنے کالعدم ہیں اورکتنے محب وطن ہیں۔