کوئٹہ(بیورو رپورٹ)وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ اورنیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سینیٹرمیر حاصل خان بزنجو نے کہاہے کہ دنیا میں اگر کوئی اہم جگہ ہے تو وہ گوادر ہے، اس کی اہمیت کو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ ہمیں سٹریٹجی بنانا ہوگی کہ دنیا ہمیں کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے، ان کے مسائل کیا ہیں اور چین کے ساتھ دنیا کے کیسے روابط ہیں۔ان خیالات کااظہارانہوں نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں کیا۔میر حاصل بزنجو کاکہناتھاکہ جن حالات میں پاکستان میں سی پیک کا آغاز ہوا اور جس طرح ہم مالی مشکلات میں پھنسے ہوئے تھے، ان میں سی پیک ایک نعمت ہے جو پاکستان کے حصے میں آئی ہے۔ ہمیں چین کا شکر گزار ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ اندازہ بھی ہونا چاہیے کہ ہم سٹرٹیجک لحاظ سے دنیا کی سب سے اچھی اور سب سے خطرناک جگہ پر ہیں۔کسی دور میں سنگاپور، دبئی، شکاگو دنیا کیلئے اہم تھا لیکن اب کہا جارہا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی اہم جگہ ہے تو وہ گوادر ہے، اس کی اہمیت کو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ ہمیں سٹریٹجی بنانا ہوگی کہ دنیا ہمیں کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے، ان کے مسائل کیا ہیں اور چین کے ساتھ دنیا کے کیسے روابط ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ حکومت اور سیاسی قیادت کو ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھ کر لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ سی پیک پر کسی کو اعتراض نہیں ہے، اگر کسی کو اس کی بعض چیزوں پر کوئی اعتراض ہو تو اس پر بات ہوسکتی ہے لیکن اس منصوبے کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات کی وجہ سے بڑے بڑے منصوبوں کو متنازعہ بنا دیتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ گوادر سے سکھر روڈ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اس وقت ایک بڑی سڑک جو بہت کم لوگوں کے علم میں ہے وہ زاہدان کو گوادر سے ملا رہی ہے، جہاں سے ملک کے مختلف حصوں میں جانا ممکن ہوسکے گا۔ سی پیک خودبخود پھیلتا جارہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ گوادر بننے سے چابہار کو نقصان ہوگا حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ چا بہار بندرگاہ کازیادہ تر انحصار گوادر بندرگاہ پر ہوگا اور اس کے بغیر چابہار چل ہی نہیں سکتا۔میری رائے ہے کہ ہمیں گوادر اور چابہار کے درمیان ایک سڑک بنانی چاہیے اور اس سڑک کا فاصلہ صرف 80سے 85کلومیٹر ہے، اس سے بہتری آئے گی۔ سی پیک کے حوالے سے ایک اہم چیز منرلز ہیں کیونکہ دنیا کے دوسرے بڑے منرل کے ذخائر پاکستان میں ہیں۔اس لحاظ سے گوادر پورٹ بہت اہم ہوجائے گا اور ہمیں گوادر میں دیگر ٹرمینلز کے ساتھ ساتھ منرل ٹرمینل بھی بنانا پڑے گا۔سی پیک کو صرف چین کے تناظر میں نہ دیکھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ وسطی ایشیا کے پاس سی پیک کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے لہذا یہ سب سی پیک کا حصہ بنیں گے۔ ہمیں سی پیک کی سٹرٹیجک اور کمرشل اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ ہمارے پاس بہت اچھا موقع ہے لیکن اہم یہ ہے کہ ہم اس کے ثمرات سمیٹنے کیلئے کیسے پلاننگ کرتے ہیں۔