تازہ تر ین

”تنگ نظرہندوﺅں کی تنہا جیت قائداعظم کا دو قومی نظریہ درست تھا“ نامور تجزیہ کار ضیا شاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کےساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ وزیراعظم کا سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کے حوالے سے نوٹس لینا خوش آئند ہے لیکن قوم نے جتنا عرصہ دکھ و تکلیف برداشت کی اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پہلے بھی اپنے پروگرام میں وزیراعظم سے درخواست کی تھی کہ اس معاملے پر ایکشن لیں، متعدد بار کہا کہ انوشہ رحمان کی وزارت اور پی ٹی اے اپنا کردار ادا کریں۔ مغرب کی یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے کہ پاکستانی عوام میں مذہبی اشتعال پھیلایا جائے تاکہ لڑائی جھگڑے ہوں اور پھر دنیا میں پاکستان کو بدنام کیا جائے۔ مغربی قوتیں میمو گیٹ، ڈان لیکس جیسے ہتھکنڈوں سے پاک فوج کو اپنے قابو میں کرنا چاہتے ہیں۔ میمو گیٹ میں بھی یہی تھا کہ فوج میں امریکہ کی مرضی سے لوگ لائے جائیں گے جو ان کے مقاصد کو پورا کریں۔ سول حکومت تو پہلے ہی امریکہ کے ہاتھ میں تھی۔ امریکہ نے آصف زرداری کے دور میں ایبٹ آباد آپریشن کیا جس پر حکومت کا شرمناک رویہ سامنے آیا۔ زرداری نے ایک جانب تو امریکی سفیر کو بلا کر رسمی احتجاج ریکارڈ کروایا۔ دوسری جانب تیسرے ہی روز واشنگٹن پوسٹ میں آصف زرداری کا ایک آرٹیکل چھپا، جس میں امریکہ کی خدمات کو سراہا گیا اور اس کارنامے پر مبارکباد بھی دی۔ ایک طرف احتجاج تو دوسری طرف مبارکباد یہ فراڈ ہے۔ اس دور میں جنرل(ر) کیانی آرمی چیف تھے، انہوں نے تسلیم کیا کہ آپریشن کے بارے میں رات کو پتہ چل گیا تھا، جہازوں کا تعاقب بھی کر سکتے تھے لیکن اس بہادر جرنیل نے نہیں کیا۔ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے معاملے کا مقابلہ صرف ایک انتظامی حکم کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی و قومی ماہرین قانون اور آئی ٹی کے ماہرین کو مل بیٹھ کر اس کی روک تھام بارے سوچنا پڑے گا۔ بین الاقوامی سطح پر عالمی ادارے حکومتوں کی بات نہیں سنتے۔ آئسو لیٹڈ ایکشن سے کام نہیں ہو سکتا۔ اس کےلئے نیت ہونی چاہیے، قانون، سائنسی و سفارتی سطح پر ایک مربوط پالیسی بنانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے 5میں سے 4 صوبوں میں نریندر مودی کی پارٹی بے اندازہ اکثریت سے جیتی ہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ صرف ایک صوبے میں کانگریس جیت سکی۔ مودی کی پارٹی نے ان صوبوں میں فتح حاصل کی ہے جہاں بڑی تعداد میں مسلمان رہتے ہیں۔ بی جے پی نے اعلانات کیے کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں۔ وسیع ہندوستان کے صوبوں میں سمجھا جاتا تھا کہ مسلم ووٹ بڑی اکثریت میں ہیں، ان کو ساتھ ملانا پڑے گا، مسلمانوں کو سیٹیں دی جاتی تھیں۔ بی جے پی اور کانگریس مسلمانوں کو سیٹیں دیتی تھی لیکن یہ تھیوری اب فیل ہو گئی اور ایک بار پھر قائداعظم کے دوقومی نظریے کی تھیوری اوپر آ گئی کہ ہندو اور مسلمانوں دو الگ الگ قومیں ہیں۔ اب بھارت ایک سیکولر سٹیٹ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا، اب وہ نیپال کی طرح ایک ہندو سٹیٹ ہے۔ بھارت میں مسلمان اپنی پارٹیاں نہیں بنا سکتے وہ مختلف پارٹیوں میں شامل ہیں۔ دیو بند طبقہ یا پھر جامع مسجد دلی کے خطیب ان کو لیڈ کرتے ہیں۔ ان دونوں کو حکمت عملی اپنانا ہوگی کہ اگر کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تو مسلمانوں کی آبادی کی بنیاد پر جداگانہ نشستیں دے دیں، اگر وہ یہ کام کرتے ہیں تو پھر قائداعظم کو سلیوٹ ہے، انہوں نے اس وقت کہہ دیا تھا کہ ایسے نظام نہیں چل سکتا۔ مذہبی سکالر ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ اگر ہم مشترکہ رہیں گے ہمارے ووٹ اور مسلمانوں کی آبادی کی میجورٹی سے حکومت میں نمائندگی دلوا سکے گی اور اس کی بنیاد پر بھارت میں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے گا۔ قائداعظم بھی اسی نظریہ سے متاثر ہو کر کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں آئے تھے۔ مسلم لیگ نوابوں نے بنائی تھی، قائداعظم بہت بعد میں شامل ہوئے، اسے ایک عوامی جماعت بنایا، تحریک کی شکل دی اور آزادی حاصل کی۔ پاکستانی جھنڈے میں سفید رنگ اقلیتوں کا نشان ہے، مسلم لیگ کا جھنڈا پورا سبز رنگ کا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد جماعت کے بجائے ملک کا جھنڈا تشکیل دیا گیا۔ کمیٹی نے طے کیا تھا کہ مسلم لیگ کا جھنڈا پلس اقلیتوں کی سفید پٹی پاکستان کا جھنڈا ہے۔ قائداعظم گورنر جنرل اور لیاقت علی خان وزیراعظم تھے، کراچی دارالحکومت ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنی پہلی مرکزی کابینہ میں ایک ہندو کو وزارت میں شامل کیا تھا۔ انہوں نے سٹیٹ بنک کی ایک تقریب میں بھی کہا تھا کہ اب پاکستان میں کوئی ہندو یا مسلمان نہیں بلکہ سب برابر کے شہری ہیں، ان کا مقصد تھا کہ 1947ءمیں جو خون خرابہ ہوا، ویسی صورتحال دوبارہ پیدا نہ ہو۔ قائداعظم سے بھی ایک غیر ملکی نمائندے نے انٹرویو کے دوران سوال کیا کہ ہجرت کے وقت اتنا خون خرابہ کیوں ہوا، جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ تقسیم ہند کے فارمولے میں نقل مکانی شامل نہیں، سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر لوگ ہجرت کرینگے۔ سوچا تھا کہ دونوں اپنی اپنی اقلیتوں کا تحفظ کرینگے۔ آج کی صورتحال بارے قائداعظم یا گاندھی نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس طرح سے چوڑیاں لیکر ایک دوسرے کو قتل کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں نون لیگ جبکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی نہیں ہے۔ یہ صورتحال وفاق کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ خواہش ہے کہ نون لیگ ان کے سر پر ہاتھ رکھے جو یتیمی کی حالت میں ہیں۔ صوبائی حکومت اگر کچھ نہیں کر رہی تو کراچی کو گندگی سے صاف کرنے کےلئے بحریہ ٹاﺅن کا اچھا قدم ہے۔ ملک ریاض کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جو خدمات انجام دیں کسی نے نہیں دیں حالانکہ ملک میں اور بھی بہت امیر شخصیات موجود ہیں۔ میرے پاس جتنے مسائل پر عوام کے خط، ای میل اور کالز آئیں ان میں حکومت سے زیادہ ملک ریاض کی توجہ دلوانے کےلئے درخواست کی گئی۔ پاکستانی پاسپورٹ کے 196ویں نمبر پر آنے کے حوالے سے تجزیہ کار نے کہا کہ حکمرانوں کو جھوٹے فیکسز اور خود ساختہ اعداد و شمار دینے کے بجائے نظرثانی کرنی چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور پھر اسی بنیاد پر اپنی حکمت عملی بنائیں۔ جھوٹ بولنے سے عزت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف سیاسی پروپیگنڈا کہ سب اچھا ہے، ساری دنیا سرمایہ کاری کےلئے آ رہی ہے۔ یہ انتہائی بُل شِٹ ہے۔ ہم دنیا میں بہت نہیں بلکہ بہت بہت بہت زیادہ پیچھے ہیں۔ چین ہمارا دوست ہے لیکن اس نے سی پیک منصوبہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا۔ ویسے پاکستان میں کوئی نہیں آتا جس کی وجہ یہی ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ 196ویں نمبر پر ہے۔ تجزیہ کار وحید جمال نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں گئی، اس کے جواب میں نون لیگ سندھ میں آ رہی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے دو روزہ دورہ کراچی سے محسوس ہوتا ہے کہ نون لیگ اور پی پی دونوں پارٹیوں میں جو مفاہمتی پالیسی تھی اس میں دراڑ پڑ چکی ہے۔ کراچی میںایم کیو ایم کی تقسیم کے بعد نون لیگ وہاں خود کو سیاسی طور پر بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اسے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ جو بڑے بڑے لیڈران نون لیگ میں شامل ہوئے تھے، اب وہ مایوس ہو کر گھر بیٹھ چکے ہیں۔ سندھ میں مسلم لیگی ورکرز محرومیوں کا شکار ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain