تازہ تر ین

جعلی ڈگریوں پر بھرتیاں, اہم قومی ادارہ کو کروڑوں کا نقصان

لاہور (خصوصی رپورٹ) نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی ”NADRA“ میں کروڑوں روپے کی بدعنوانیوں کے ایک نئے سکینڈل کا انکشاف ہوا ہے جس پر ایک برس گزر جانے کے باوجود تحقیقات شروع نہیں کی جس کے نتیجے میں نہ صرف ادارے سے جعل سازی کرنے والے افراد صاف بچ کر نکل گئے بلکہ ادارے کے ملوث بدعنوان افسران کا بھی تعین نہیں کیا جاسکا، نادرا میں 2002ءسے 2014ءکے درمیان من پسند افراد کو دل کھول کر ملازمتیں دی گئیں اس اقرباءپر وری کے نتیجے میں ادارے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا، حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ادارے کے بدعنوان افسران نے نادرا میں ملازمین کی بھرتیوں کے لئے آنے والی اسامیوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے درجنوں ایسے افراد کو ادارے کے افسران کی حیثیت سے بھرتی کروایا جن کی ڈگریاں اور تعلیمی سٹیفکیٹ جعلی تھے تا ہم اس کے عوض ان افراد سے لاکھوں روپے رشوت وصول کی گئی، ادارے کے قوانین کے مطابق کسی بھی شخص کو ملازمت پر رکھنے سے قبل اس کی جان سے جمع کروائی گئی ڈگریوں سمیت دیگر کو ائف کیجانچ پرتال کیا جانا ضروری ہوتا ہے تا ہم ان قوانین کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی سے بھرتیاں کی گئیں، اس ضمن میں تیار ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نادرا کے حکام نے رول نمبر 14 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے 49 افراد کو بھرتی کیا جس کے کاغذات جعلی تھے، یہ افراد نادرا کے افسران کی حیثیت سے طویل عرصے تک لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور دیگر مراعات وصول کرتے رہے اور جن ان کی ڈگریاں چیک کرنے پر جعلی ثابت ہوئیں تو انہیں بغیر کسی قانونی کارروائی کے نوکریوں سے خاموشی سے فارغ کر دیا گیا تا کہ ملوث افسران کو قانونی کارروائی سے بچایا جا سکے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایسی بھرتیوں کے نتیجے میں قومی خزانے کو 8 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا اور یہ رقم ان افراد سے واپس لینے کے لئے بھی کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی، رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 2016ءتک نادرا حکام کو اس ضمن میں اگاہ کیا جا رہا کہ جعلسازی کرنے والوں کے بھرمانہ فعل کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور سرکاری رقم واپس حاصل کی جائے اس کے ساتھ ہی گریوں اور سٹیفکیٹ کی جانچ پڑتال میں تاخیر کرنے والے افسران کے خلاف بھی رول نمبر 14 کی خلاف ورزی پر تحقیقات کی جائے تا ہم اب تک اس حوالے سے کسی روعمل کا اظہار نہیں کیا گیا ، ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں جاری تحقیقات میں ایک ہفتہ قبل نادرا عمارت کے حصول میں کرپشن اور غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں چیئرمین نادرا عثمان مبین کوایف آئی اے نے طلب کیا گیا اور تحقیقاتی ادارے کی 2 رسمی ٹیم جس میں ڈپٹی ڈائریکٹر احمد علی افانی اور افتخار عباسی شامل تھے نے 4 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی، ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق چیئرمین نادرا امتیاز تاجور نوٹس کے باوجود تفتیشی ٹیم کے روبروپیش نہیں ہوئے، ذرائع کے مطابق مذکورہ تحقیقات اس شروع ہوئی تھیں جب 2015ءمیں اس وقت کے آئی جی اسلام آباد طاہر عالم کے بیٹے حماد عالم سمیت 37 افراد کی نادرا میں غیرقانونی بھرتیوں کے حوالے سے انکشاف ہوا تھا جس کے بعد ان افسران کو فوری طور پر ملازمتوں سے برطرف کرنے کے ساتھ ہی پروجیکٹ ڈائریکٹر کی معطلی کے احکامات بھی جاری کئے گئے تھے اور ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی تھی ، بعد ازاں تحقیقات میں معلوم ہوا کہ 2002ء کے بعد 2014ء تک کئی بااثر وزیروں، مشیروں اور سینیٹرز کے کہنے پر لوگوں کو نادرا میں ملازمتیں دی گئیں 2016ء میں جب تحقیقات ایف آئی اے کے اسپیشل یونٹ کے سپرد کی گئیں تو نادرا کے سیکشن آفیسر کی مدعیت میں ایک مقدمہ درج کیا گیا جس میں نادرا کے ڈپٹی ڈائریکٹر فیصل حامد کی گرفتاری کے لئے عدالت سے وارنٹ بھی حاصل کیا گیا جس نے ایک وزیر کے کہنے کئی افراد غیر قانونی طور پر بھرتی کروائے اور انھی میں روح اﷲ نامی ایک افغان شہری بھی نادرا میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا جس نے نادرا کے سسٹم میں اپنے پورے خاندان کو شامل کر کے پاکستانی بنا دیا تھا ، تا ہم جعلی ڈگریوں پر ملازمتیں دئے جانے کے حوالے سے تحقیقات کو اب تک تفتیش میں شامل نہیں کیا گیا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain