کراچی (خصوصی رپورٹ) عام انتخابات جوں جوں قریب آ رہے ہیں، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان سیاسی فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ جس کا واضح مظاہرہ سندھ اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ہوا۔ یہ سیاسی کشیدگی آنے والے دنوں میں کم ہونے کے بجائے بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ کشیدگی کا اصل سبب حکومت سندھ اور کراچی کے بلدیاتی اداروں کے درمیان اختیارات کی جنگ ہے۔ حکومت سندھ عام انتخابات سے قبل کراچی کے منتخب میئر کو ایسے اختیارات نہیں دینا چاہتی جس کے باعث ایم کیو ایم کو آئندہ عام انتخابات میں سیاسی فائدہ پہنچے۔ وزیراعلیٰ سندھ اور میئر کراچی کے درمیان اختیارات کی جنگ بدستور جاری ہے جس کے نتیجے میں شہر کی صفائی ستھرائی اور دوسری بلدیاتی خدمات متاثر ہو رہی ہیں اور لوگوں کے بنیادی شہری مسائل جوں کے توں موجودہیں۔ حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ کراچی کے منتخبمیئر وسیم اختر اور دوسرے بلدیاتی نمائندوں کو سندھ اسمبلی کی جانب سے منظور کیے جانے والے بلدیاتی قانون کے مطابق تمام اختیارات حاصل ہیں، تاہم ایم کیو ایم کی قیادت کی یہ خواہش ہے کہ اسے ایسے بلدیاتی اختیارات تفویض کردیئے جائیں جو جنرل پرویز مشرف کے دور صدارت میں کراچی کے ناظم کو حاصل ہوا کرتے تھے جواب ممکن نہیں۔ اس وقت کراچی میں کم از کم 22 مختلف مقامات پر بڑے ترقیاتی کام جاری ہیں جن میں سے زیادہ تر کاموں کی نگرانی خود وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وزیر بلدیات جام خان شورو کر رہے ہیں اور میئر کو ان تمام معاملات سے دور رکھاگیا ہے۔ ماضی میں اس نوعیت کے تمام بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے اس وقت کے سٹی ناظم سید مصطفی کمال نے جن کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا خود مکمل کرائے تھے۔ تبدیل شدہ سیاسی ماحول میں ایم کیوایم اس وقت اپوزیشنمیں ہے اور سندھ حکومت کبھی یہ نہیں چاہے گی کہ ایک اپوزیشن جماعت کو سیاسی فائدہ پہنچے اور وہ شہری سطح پر جہاں اس کی بلدیاتی حکومت ہے وہ سیاسی طور پر پوائنٹ اسکورنگ کر سکے۔ ماضی میں پیپلزپارٹی جب ایم کیو ایم کے ہاتھوں سیاسی طور پر بلیک میل ہوا کرتی تھی۔