سرگودھا(خصوصی رپورٹ)نواحی چک 95 میں 20افراد کے قتل کی لزرہ خیز واردات والے دربار کا متولی الیکشن کمیشن میں ڈپٹی ڈائریکٹر جبکہ اس کے مریدوں میں سرکاری افسر بھی شامل تھے، این اے 67 سے منتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر ذوالفقار علی بھٹی نے بتایا کہ اسلام آباد میں گجر فیملی کے ایک شخص بابواحمدخان نے تین برس قبل چک 95 میں آکر پیری مریدی کا نظام بنایا وہ فوت ہوا تو علی محمد گجر جس نے یہ زمین عطیہ کی اس نے دربار بنالیا، اس کے فوت ہونے کے بعد الیکشن کمیشن میں ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالوحید متولی بن گیا، اس کے مریدین میں پڑھے لکھے اور سرکاری افسر بھی شامل تھے وہ مریدین کو ڈنڈے اور تھپڑ مارتا تھا کہ اس طرح تمہارے گناہ چھڑتے ہیں، پیر کے کہنے پر مریدین نے جنت میں جانے کیلئے ایک دوسر ے کو ڈنڈے اور خنجر مار کر ہلاک کرنا شروع کردیا، جو قتل ہوتا تو اسے ایک مقام پر لٹاکر مارنے والا اس کی جگہ لے لیتا کہ جنت میں جانے کی اب میری باری ہے ، خودکش حملے کرنے والوں کی طرح ان کی بھی برین واشنگ ہوئی تھی، پکے مریدین کو فون کرکے باری باری بلایا جارہا تھا ، آج بھی متعدد لوگوں کی باری تھی،کچھ فیملیز اسلام آباد سے آرہی تھیں، انہوں نے صحن میں موجود ایک جگہ کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں مریدین کو ننگا کرکے مارا جاتا ۔ جبکہ ان کے کپڑے پلید قرار دیکر جلادئیے جاتے، ذوالفقار بھٹی نے بتایا کہ علاقے میں خواندگی کا تناسب سب سے زیادہ ہے تاہم یہاں درباروں کا سلسلہ ضعیف الاعتقادی کے سبب جاری ہے، آر پی او ذوالفقار حمید نے بتایا 4ملزموں نے 20افراد قتل کئے 3ملزم گرفتار کرلئے جن سے دھینگا مشتی ہوئی، انہوں نے ایس ایچ او کی وردی پھاڑ دی، جائے وقوعہ سے ملنے والا نشہ آور مواد اور خون کے نمونے فرانزک ٹیسٹ کیلئے بھجوادئیے ہیں، کچھ ملزموں کے مطابق عبدالوحید کو خدشہ تھا یہاں دفن شخصیت کا بیٹا آصف اسے مار کر گدی حاصل کرنا چاہتا ہے، ساری ذمہ داری پولیس کی نہیں، یہاں کچھ غلط ہورہا تھا تو شہریوں کو اطلاع دینا چاہیے تھی ۔مقامی ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر پرویز نے بتایا کہ چارزخمیوں کی عمریں 30سے 40برس ہیں، انہیں ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا، زخمی توقیر نے بتایا خلیفہ عبدالوحید جلالی طبیعت کے ہیں، واقعہ کی رات زیادہ جلالی ہوگئے، انہوں نے مریدوں کو ڈنڈے مارے ، میں بے ہوش ہوا تو مجھے باہر پھینک دیاگیا، ہوش آنے کے بعد میں بھاگ گیا۔ میں نے انہیں مارا ہے اور میں ہی انہیں زندہ کروں گا، گرفتاری کے وقت عبد الوحید کا جھوٹا دعویٰ۔لاہور، سرگودھا(خصوصی رپورٹ) چک 95 شمالی کے واقہ کی اطلاع ملتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد رات گئے ہی ہسپتال اور جائے وقوعہ پر جمع ہونا شروع ہو گئی۔ سرگودھا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی آستانے یا دربار پر 20 افراد کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہو ، شہریوں نے اس المناک واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوے ملوث افراد کو سرعام پھانسی دینے کامطالبہ کیا ہے۔ پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق جمعہ اور ہفتہ کی رات 7 افراد کو قتل کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب قتل کیا گیا، سجادہ نشین نے مریدوں کو گناہ جھاڑنے کیلئے ڈنڈے سے مارنے اور انہیں چپ رہنے کا کہا، مرید سجادہ نشین سے عقیدت میں ڈنڈے کھاتے رہے، سجادہ نشین نے مریدوں سے کہا کہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دوں تو صبح صحیح حالت میں لے آﺅں گا، ایک ٹی وی کے مطابق سجادہ نشین عبدالوحید مریدوں کو ایک دوسرے سے ڈنڈوں سے وار کراتا، ہار اس دوران مریدوں کی موت بھی واقع ہوتی رہی، اندھے اعتقادمیں مرید ایک دوسرے کو ڈنڈوں، خنجروں اور تیزدھار آلات سے ایک دوسرے کو مارتے رہے ڈنڈے کھانے کے بعد ایک زخمی مرید وہاں سے نکلا مگر قریبی آبادی میں پہنچنے کے باوجود کسی کو اس واقعہ کے بارے میں نہیں بتایا اور نہ ہی پولیس کو اطلاع کی ایک زخمی خاتون نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ عبدالوحید کے ساتھ اندھی عقیدت رکھتی تھی، عبدالوحید جو کہتا رہا وہ چپ چاپ اسے برداشت کرتی رہی اور اس نے ڈنڈے کھائے ایک گرفتار شریک ملزم نے بتایا کے قاتل عبدالوحیدکے مریدوں میں پڑھے لکھے لوگ شامل تھے جو اس کیلئے درگاہ پر شراب بھی پہنچایا کرتے تھے، ہفتے میںتیسرے چوتھے دن شراب کی محفل جمتی تھی، وریں اثنا سائحہ سرگودھا کا مرکزی ملزم سابق ڈپٹی الیکشن کمشنر عبدالوحید قبل رات ریٹائرمنٹ کی وجہ سے ذہنی دباﺅ کا شکار تھا ملازمت پر بحالی کیلئے چند روز قبل دیکرٹری الیکشن کمیشن سے ملاقات بھی کی تھی، ایف آئی اے میں بھیخدمات سرانجام دیں، عبدالوحید لاءگرایجویٹ تھا اور بطور لیگل اسٹنٹ الیکشن کمیشن میں بھرتی ہوا 2000ءمیں ڈیپوٹیشن پر ایف آئی اے میں آگیا اور پانچ سال تک بطور انسپکٹر تعینات رہا، 2005ءمیں پرموشن کیلئے دوبارہ الیکشن کمیشن میں واپس آگیا، اس کی گریڈ 17 میں ترقی ہو گئی اور بطور اسٹنٹ الیکشن کمشمر کوئٹہ تعیناتی کر دی گئی اور پھر اسے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر لاہور بنادیا گیا، 2015ء کے بلدیاتی انتخابات کے عمل کے دوران اپنی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ الیکشنز رانا محمد اسلم کو عہدے سے ہٹا کر عبدالوحید کو لوکل گورنمنٹ الیکشن کمیشن کا انچارج بنا دیاگیا، اس طرح عبدالوحید کی زیر نگرانی حلقہ بندیاں ہوئیں، پولنگ سکیم بنائی گئی اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوئے، جسٹس(ر) ریاض کیانی کی بطور ممبر معیار ختم ہوئی تو نئی انتظامیہ نے فروری 2016ء میں اس کا تبادلہ سجاول سندھ میں کردیا، اس پر اس نے بڑا شور مچایا لیکن اس کی کوئی شنوائی نہ ہوئیجس پر اس نے قبل اذوقت ریٹائرمنٹ کی درخواست دیدی اور ریٹائر ہو گیا، وہ جمعہ ، ہفتہ اور اتوار کو سرگودھا جاتا تھا جبکہ باقی دن لاہور میں اپنے گھر محفل کرتا تھا، ادھر الیکشن کمیشن نے سرگودھاس واقعہ کے مرکزی ملزم عبدالوحید سے لا تعلق کا اظہار کر دیا، ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ملزم اس وقت الیکشن کمیشن کا ملازم نہیں، عبدالوحید نے الیکشن کمیشن سے ڈیڑھ سال قبل ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ لرزہ خیز واردات گدی نشینی کا شاخسانہ نکلی۔ تفصیلات کے مطابق ملزم عبدالوحید اور پیر علی محمد گجر کے بیٹے آصف کے درمیان گدی پر قبضہ کیلئے تنازعہ چل رہا تھا۔ علی محمدگجر اسلام آباد میں رہتا تھا اور سرگودھا منتقل ہوگیا جہاں ایک تھڑے پر بیٹھ کر دم درود کیا کرتا تھا۔ علی محمد گجر کی دو سال قبل وفات ہوئی تو اس کے بیٹے آصف نے ای جگہ پر بیٹھ کر دم درود کرنے کا کام شروع کردیااور اس طرح دونوں کے درمیان گدی نشینی کا تنازعہ چل نکلا۔ آصف اور ملزم عبدالوحید‘ دونوں کی گدی کے خواہشمند تھے اور اس پر تنازعہ کے حل کیلئے جرگہ بلایا اور قتل ہونے والے بیشتر افراد کا تعلق ایک ہی برادری کے ساتھ ہے جو صلح صفائی کے لئے بلائے گئے جرگے میں شرتک کیلئے آئے تھے۔ ذرائع کے مطابق جیسے جیسے لوگ آگے میں شرکت کیلئے آتے رہے تو انہیں دربارکے ساتھ متصل مکان میں لے جاکر نشہ آور غذا کھلائی گئی اور پھر قتل کیا جاتا رہاہے۔ ملزم عبدالوحید مریدوں کو برہنہ کرکے دھمال ڈلواتا تھا۔ اس کا کہنا تھا اس طرح کرنے سے ان کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ملزم اپنے مریدوں پر پہلے بھی تشدد کرکے ان کا تزکیہ نفس کرتا رہتا تھا لیکن اس بار انہوں نے انسانیت کی تذلیل کرکے ایک تاریخ رقم کردی ہے۔
