مدھوبالا
فلمی دنیا کو رنگ و نور کی محفل سمجھا جاتا ہے، ایک جادو نگری جہاں کے باسی انسانی جذبات و احساسات سے ماورا فرشتے ہیں، جہاں دکھوں ، ناکامیوں ، تلخیوں اور مایوسیوں کا کوئی گزر نہیں غالباً اسی لیے منوج کمار نے فلم ”شبنم“ میں دلیپ کمار کی اداکاری دیکھ کر کہا تھا کہ بڑا ہوکر میں بھی ان کی طرح”فرشتہ“بنوں گا۔
فلمی دنیا کی یہ رنگینی محض ایک سراب ہے بقول شاعر”دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا۔۔۔“ور اسٹائل اداکار دیوآنند نے ایک بار اپنے پرستاروں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ”دیویو اور سجنو،ہماری فلمیں دیکھیں، ہماری زندگی میں تانک جھانک نہ کریں آپ کے خواب حقیقت کی چٹانوں سے ٹکرا کر ٹوٹ جائیں گے۔“
اس بے رحم دنیا میں جسے فلم نگری کہتے ہیں کبھی ایک لڑکی ہوا کرتی تھی ، کوہ قاف کی پریوں جیسی ، پھولوں سا بدن ، نشہ آور ہواو¿ں جیسی ۔۔۔ مسکراہٹ دلآویز ، ادائیں قاتلانہ ، انداز دلربانہ اور رقص ساحرانہ ، نہ وہ میر کی غزل تھی نہ خیام کی رباعی وہ تو بس ایک عورت تھی۔ایک فنکار عورت ، عشقِ ناتمام کی مورت۔
اس لڑکینے ممتاز جہاں سے مدھوبالا بن کر عرصے تک فن کی عبادت کی۔ کروڑوں پرستاروں کے دلوں پر راج کیا بلکہ کرتی ہے۔۔۔ فن کو وقت کی قید میں بھلا کون رکھ پایا ہے۔۔ گئے وقتوں کے بزرگوں سے لے کر کترینہ کیف کی لچکتی کمر پر عش عش کرتے آج کے نوجوانوں تک ان کے چاہنے والے بے شمار رہے اور ہیں۔۔۔ ان کا جادو آج بھی قائم ہے ، انہی کے نقش قدم پر چل کر مادھوری ڈکشت ہندی سینما کی ملکہ کہلائیں اور دیپکا پڈکون ان کے نقش پا پر چل رہی ہیں۔
ملکوتی حسن کی مالکہ ، 14 جنوری 1932 کو خان عطا اللہ خان کے گھر دہلی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد پشاور کے پختون تھے البتہ بعض فلمی تاریخ دان ان کا آبائی علاقہ صوابی کو قرار دیتے ہیں۔ ایک تو غربت اوپر سے کام چور باپ ، وہ حصول علم کیلئے کبھی سکول نہ جاسکی۔ رسم دنیا نبھانے کیلئے اسے مسجد میں قائم مدرسے کے حوالے کردیا گیا جہاں اسے قرآن پڑھنا سکھایا گیا۔ قرآن کی تلاوت سیکھنے کے بعد وہ نو سال کی عمر میں ریڈیو سٹیشن سے منسلک ہوگئی تاکہ گھر چلانے میں ہاتھ بٹاسکے۔
ریڈیو کی زندگی گوکہ مختصر رہی کیونکہ اس کے والد جلد ہی بہتر مستقبل کی تلاش میں ممبئی ہجرت کرگئے مگر اس مختصر سی ملازمت نے ان کے اندر فنکار بننے کی ناقابل شکست خواہش پیدا کردی۔۔۔ عطااللہ خان کی گھاگ نظروں نے کمسن ممتاز کے دل کے چور کو پکڑلیا ، وہ جان گئے کہ بیٹی کی خواہش دولت کا مڑدہ ہے۔۔۔ عطااللہ خان نے ہمیشہ بیٹی کے دل کے راستے پر پہرے بٹھائے رکھے۔ انہوں نے سونے کی اس چڑیا کو کبھی آزاد فضاو¿ں میں اڑنے نہ دیا اور یہی بندش ایک دن جان لیوا ثابت ہوئی۔
ممبئی پہنچ کر عطااللہ سٹوڈیوز کی خاک چھاننے نکلے۔ آدمی سمجھدار اور بولنے کے فن میں یکتا تھے سو تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد وہ رنجیت سٹوڈیو میں ممتاز کو نوکری دلوانے میں کامیاب ہوگئے۔ نوکری تو مل گئی مگر کوئی فلم نہ ملی۔ گھر کا چولہا کبھی جلتا کبھی بجھتا اور بالآخر ایک دن بھڑک کر بجھ گیا۔والد پھر چکر چلانے میں جت گئے۔ ادھر ادھر سرپٹول کرنے کے بعد ایک بھلے مانس نے انہیں بمبئے ٹاکیز تک پہنچا دیا۔1942ءکو بمبئے ٹاکیز کے بینر تلے امیہ چکروتی کی ہدایت میں فلم”بسنت“ریلیز کی گئی۔یہ دس سالہ ممتاز کی پہلی فلم تھی جس میں اس نے بطور چائلڈ آرٹسٹ معصومانہ اداکاری کا پہلا جلوہ دکھایا۔اس جلوے نے سب سے زیادہ فلم انڈسٹری کے جوہر شناس ہدایت کار کیدار شرما کو گھائل کیا۔کیدار شرما نے آناًفاناً انہیں اپنی فلم”ممتاز محل“میں کاسٹ کرلیا۔ممتاز کو ہندی سینما کی سپر سٹار مدھو بالا بنانے میں جہاں ان کی دلآویز و متاثر کن اداکاری کا عمل دخل ہے وہاں کیدار شرما کی قدر شناسی بھی اہمیت رکھتی ہے۔
ممتاز محل کے بعد وہ ایک مصروف چائلڈ اداکارہ بن گئیں اس دوران انہوں نے ”بیماری، پھلواری، راجپوتانیاور دیگر فلموں میں بطور چائلڈ اداکارہ اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ معصوم چہرہ ، دل میں اترتی مسکراہٹ ،بے ساختگی جیسے اوصاف نے ان میں چھپی ہیروئن کوتراش خراش کر نکھار دیا البتہ اس ہیروئن کو بھی صرف کیدار شرما ہی دیکھ پائے۔
1947ءکو جہاں ہندوستان تقسیم ، مہاجرت اور تاریخ کے بدترین فسادات کے باعث لہورنگ تھا وہاں 15 سالہ ممتاز کا لڑکپن بھی نوجوانی سے آمادہ جنگ تھا۔کیدار شرما نے نوخیز جوانی کو ہیروئن کے روپ میں پیش کرنے کا ارادہ باندھا۔ وہ فلم”نیل کمل“ کاسکرپٹ لے کر رنجیت سٹوڈیو پہنچے۔ سٹوڈیو نے معصوم چہرے کو بچّی قرار دے کر سرمایہ لگانے سے انکار کردیا۔ باہمت شرما اورینٹ پکچرز کو قائل کرنے دوڑے۔اورینٹ کو کمسن ممتاز سے زیادہ کیدار شرما پر یقین تھا سو انہوں نے ہامی بھرلی۔
(جاری ہے)
ہندی سینما کے باصلاحیت ترین ہدایت کاروں میں شمار ہونے والے اور کپور خاندان کی عظمت کو اوج ثریا تک پہنچانے والے”رنبیر راج کپور“اس زمانے میں کیدار شرما کے شاگرد تھے ، جن سے وہ ہدایت کاری کے رموز سیکھ رہے تھے۔ شرما نے اپنے ہونہار شاگرد کو ممتاز کے مقابل ہیرو کا رول دے دیا۔یہ ایک رسک تھا ، بلاشبہ رسک تھا مگر کیدار شرما پر عزم تھے۔انہوں نے 1947ءکو فلم”نیل کمل“کے ذریعے ممتاز جہاں کو”مدھو بالا“کے نام سے پیش کردیا۔
(جاری ہے)