تازہ تر ین

شوخ چنچل گلوکاراحمد رشدی نے پاکستان فلم انڈسٹری کو گیتوں کی مالا سے سجا دیا

(شوبز ڈیسک)پاکستانی میوزک شروع ہی سے ایک سے بڑھ کر ایک ہیرے سے مالا مال رہا ہے۔ لیکن، کچھ گلوکار ایسے ہیں جو آندھی طوفان کی طرح آئے اور اپنی کامیابی کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ سب کو پیچھے چھوڑ گئے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی ’گولڈن وائس‘ احمد رشدی ایسی ہی ایک روشن مثال ہیں۔احمد رشدی پاکستان کی فلمی تاریخ کا اتنا بڑا نام ہے کہ جس کے ذکر کے بغیر فلمی گائیکی کی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہوسکتی۔
حیدر آباد دکن کے سید گھرانے سے تعلق رکھنے والے احمد رشدی کی پیدائش24اپریل 1934 ء میں ہوئی تھی اور بچپن ہی سے گائیکی کا شوق رکھتے تھے۔ کلاسیکل موسیقی سے عدم واقفیت کے باوجود اتنے خوش گلو تھے کہ ان کی آواز کو موسیقار ہر رنگ میں ڈھال لیتے تھے اور وہ مشکل سے مشکل ترین گیت بھی بڑی آسانی سے گالیتے تھے۔ 1954ءمیں ریڈیو پاکستان کراچی سے منسلک ہوئے اور خاص طور پر بچوں کے پروگرام میں ان کے گیت بڑے مقبول ہوئے۔اپنے پہلے مشہور زمانہ ریڈیو گیت ”بند روڈ سے کیماڑی، میری چلی ری گھوڑا گاڑی ، بابو ہوجانافٹ پر “ سے بے پناہ شہرت حاصل کی جو انھیں فلموں میں بھی لے آئی۔ فلم ”کارنامہ“ میں پہلی بار گایا لیکن فلم ”انوکھی“ پہلے ریلیز ہوگئی تھی جس میں ایک کامیڈی گیت ”ماری لیلی نے ایسی کٹار“ جو لہری پر فلمایا گیا تھا۔احمد رشدی صرف پوپ یا ہلا گلا والے گانے ہی مہارت سے نہیں گاتے تھے۔ جب جب انہوں نے ٹریجڈی گانے گائے، سننے والوں کی آنکھوں میں نمی ضرور آئی۔ سال 1966میں فلم ارمان کا گانا ’اکیلے نہ جانا، ہمیں چھوڑ کر تم، تمارے بنا ہم بھلا کیا جئیں گے‘ ہو یا فلم دوراہا کا نغمہ ’بھولی ہوئی ہوں داستاں‘ رشدی کی آواز کی گھمبیرتا اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔بارش کا موسم ہو اور فضاﺅں میں س±ر نہ بکھریں، ایسا ہو نہیں سکتا۔ فلم ’نصیب اپنا اپنا‘ کا گانا ’اے ابر کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں‘ اچھی موسیقی سننے والوں کے لئے برسات کے موسم میں پہلی چوائس ہوتا ہے۔اس کے علاوہ، شوخی کا انگ لئے ’کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے‘ میں رشدی کی آواز ایک نئے انگ میں سنائی دیتی ہے۔احمد رشدی نے نورجہاں سمیت پاکستان کی صف اول کی تمام گلوکاراﺅں کے ساتھ ڈوئٹ گائے۔ احمد رشدی کو فلمی گلوکار بننے کے لیے خاصی جدوجہد کرنا پڑی جس کی ایک وجہ ابتدائی دور میں کراچی کی فلموں میں گانا تھا، لیکن جب 1961ءمیں لاہور کی فلم ”سپیرن“ میں منظور اشرف کی دھن پر ”چاند سا مکھڑا گورا بدن “ ان کی ملک گیر پہچان بن گیا تو اگلے سال فلم ”مہتاب“ کا سدابہار شوخ وچنچل گیت ”گول گپے والا آیا ، گول گپے والا “ نے انھیں صف اول کا گلوکار بنادیا۔ پھر انھوں نے اگلے سولہ سال تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
60ء کے عشرے میں ہر دوسری یا تیسری فلم میں ان کے گیت لازمی ہوتے تھے۔اس دور میں وہ نوجوان فلم بینوں کے سب سے مقبول ترین گلوکار تھے اور تقریبا ہر قسم کے گیت گانے میں ماہر تھے ، لیکن شوخ وچنچل، چھیڑ چھار کرنیوالے کامیڈی اور پیروڈی گیت گانے میں لاثانی تھے۔ آج بھی شادی بیاہ ہو یا کوئی اور خوشی کا تہوار، ایک فاسٹ ٹریک ’کوکورینا‘ لازمی گایا، بجایا جاتا ہے اور یہ گانا جسے پاکستان فلم انڈسٹری کا پہلا ’پوپ سانگ‘ کہا جاتا ہے ساﺅتھ ایشیا کے پہلے پوپ سنگر احمد رشدی نے گایا تھا۔ایک ایسے وقت میں جب گلوکار سیدھے کھڑے ہوکر سپاٹ تاثرات کے ساتھ گانا ریکارڈ کرواتے تھے، احمد رشدی ہلکے پھلکے، ہپ ہوپ قسم کے گانے اتنے مزے لے لے کر گاتے تھے کہ دیکھنے اورسننے والے بھی جھوم جھوم اٹھتے تھے۔ انھیں اردو فلموں میں سب سے زیادہ گیت گانے کااعزاز بھی حاصل ہے، احمد رشدی کی آواز سب سے زیادہ جس ہیرو پر سوٹ کرتی تھی وہ تھے وحید مراد اور شاید یہی وجہ ہے کہ رشدی وحید مراد کے گانے زیادہ ڈوب کر گایا کرتے۔احمد رشدی نے 583 فلموں میں 5 ہزار سے زائد گانے گائے، جن میں ا±ردو کے علاوہ انگریزی، پنجابی، بنگالی، سندھی اور گجراتی زبانوں کے گانے بھی شامل ہیں۔رشدی کے گائے 150گانے وحید مراد پر پکچرائز کئے گئے جو ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ ایک کیلنڈر ائیر میں سب سے زیادہ گیت گانے، موسیقار ایم اشرف کی دھنوں میں سو سے زائد گیت گانے اور گلوکارہ مالا کے ساتھ سینچری پارٹنر شپ کے اعزازات بھی رکھتے ہیں۔احمد رشدی نے پہلی ہی بار کسی پاکستانی فلم کے لیے ایک انگریزی گیت بھی گایا تھا۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ پاکستان کے قومی ترانہ گانے والے دس گلوکاروں میں ایک نام احمد رشدی کا بھی تھا جو ان دنوں نئے نئے پاکستان ہجرت کرکے آئے تھے۔ ان کی آخری فلم 1985ء میں ”ہیرو“ تھی۔ احمد رشدی کے طویل اور تابناک فلمی کیرئیر میں ایک کمزور پہلو پنجابی فلموں میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ احمد رشدی کو اداکاری کا بھی شوق تھا اور انھوں نے ایک درجن کے قریب فلموں میں ثانوی کرداروں میں بھی کام کیا مگر اس میں انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔پاکستانی فلمی گائیکی پرانمٹ نقوش چھوڑنے والے احمد رشدی اپنی آخری عمر میں خرابی صحت کی بناءپر گانا نہیں گاسکتے تھے لیکن گزر اوقات کے لیے میوزک کمپوز کرنے لگے اور11پریل 1983ءکو کسمپرسی کی حالت میں انتقال گرگئے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain