لاہور (خصوصی رپورٹ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورئہ سعودی عرب کے دوران ایران مخالف جذباتی تقریر کے بعد عرب خطہ میں کشیدگی بڑھنے اور خونریزی میں اضافہ کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے جس کا براہ راست فائدہ امریکہ اور نقصان صرف عربوں کو ہوگا کہ امریکہ اور ایران دونوں ہی میدان سے خود کو دور رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی صدر کے دورہ کے دوران ایران کے حوالہ سے سخت لب و لہجہ کے بعد دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور عملی طور پر جنگ میں شدت پیدا ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کہا یہ جا رہا ہے کہ سعودی حکومت کو امریکی اسلحہ کی فراہمی سے پہلے ہی یمن کی جنگ جیتنے کی خاطر ایران نے اسلحہ کی سپلائی میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایک عرب ٹی وی کے مطابق ایران کیمیائی اسلحہ استعمال کرتے ہوئے پالز فلیگ آپریشن کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ سفارتی حلقوں میں وثوق سے کہا جا رہا ہے کہ تہران نے خطرناک ہتھیاروں کی ایک کھیپ جس کو بین الاقوامی طور پر ممکنہ کیمیائی اسلحہ قرار دیا گیا ہے یمن میں حوثی ملیشیاﺅں اور معزول صدر صالح کے محافظین کو سمگل کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان ہتھیاروں کو آکسیجن سلنڈروں کے اندر چھپایا گیا تھا اور طبی امداد کے نام پر باغیوں کے حوالے کیا گیا۔ ذرائع نے واضح کیا کہ مذکورہ ہتھیار یمنی شہریوں کے خلاف بالخصوص الحدیدہ میں حوثیوں کے زیرانتظام ایک عسکری مرکز پر بمباری کے دوران استعمال کئے جا سکتے ہیں تاکہ اس کے بعد باغیوں کی جانب سے عرب اتحاد پر ان ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کیا جائے تاکہ عالمی برادری کے سامنے اتحاد کو شرمندگی سے دوچار کیا جا سکے۔ عرب ٹی وی کے مطابق یہ کھیپ ایرانی پاسداران انقلاب کے حکام کی جانب سے جبوتی سے یمن کی بندرگاہ الحدیدہ پہنچائی گئی۔ یہ بندرگاہ حوثیوں کے زیرقبضہ ہے جبکہ کیمیائی اسلحہ بھی حوثیوں کے زیرقبضہ بین الاقوامی تجارتی ترسیل کے ایک جہاز پر موجود تھا۔ ذرائع کے مطابق حوثی ملیشیاﺅں نے اس اسلحے کو ایک اپنے ایک عسکری کمانڈر کی زیرقیادت انتہائی سخت پہرے میں الحدیدہ‘ صنعا اور تعز بھجوایا تاکہ اسے حملوں میں استعمال کیا جا سکے۔ سفارتی ذرائع انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر دعویٰ کررہے ہیں کہ حوثی ان کیمیائی ہتھیاروں کو فانس فلیگ آپریشنز میں استعمال کریں گے۔ بتایا گیا ہے کہ اسلحہ کی یہ ترسیل ایسے موقع پر سامنے آئی ہے کہ جب عرب اتحاد اور یمنی آئینی حکومت کی افواج کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ الحدیدہ کی بندرگاہ کو باغیوں کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لئے مناسب عسکری لوازمات پورے کرلئے گئے ہیں۔ دوسری جانب ایرانی کیمپ سے بھی اسی طرح کے الزامات سامنے آئے ہیں اور خود ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے انتخاب کے بعد پاسداران پر تنقید کے بجائے ان کی حمایت کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور کہا ہے کہ سعودی عرب میں ہونے والے اجلاس کی کسی بھی قسم کی کوئی عملی اور سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ روحانی کے مطابق اس وقت امریکہ اور ایران کے تعلقات ایک مشکل راستے پر ہیں۔ ایران نے الزام لگایا ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں خطرناک دہشت گردوں کو اسلحہ فراہم کررہا ہے تہران کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ عرب ممالک کو اسلحہ بیچنے کے لئے ایران فوبیا میں مبتلا ہوگیا ہے۔ اس سے قبل سعودی عرب کے دورے کے دوران امریکی صدر نے ایران پر مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پھیلانے اور دہشت گردوں کی معاونت کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ عالمی مبصرین ایران میں الیکشن کے دوران آنے والی فکری تبدیلی اور سعودی اتحاد میں پاکستان کی موجودگی سے یہ نتیجہ اخذ کررہے تھے کہ مسلم دنیا کی کشیدگی میں کمی آنے کا امکان ہے لیکن ٹرمپ کی سعودی عرب میں بحث بازی نے ایک پار پھر جنگ کے شعلوں کو ہوا دے دی ہے اور دونوں ممالک کو قریب لانے کی کوشش کرنے والے ممالک کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے اور اب اس سلسلہ میں ازسرنو کوششیں کرنا پڑیں گی۔
