لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومتی ٹیم بالکل درست سمت میں جا رہی ہے۔ مقدمہ بازی میں سب سے بڑا اصول یہی ہوتا ہے کہ آپ وقت کس طرح حاصل کرتے ہیں کیونکہ 90 فیصد معاملات وقت گزرنے کے ساتھ خود بہ خود ہی اہمیت کھوجاتے ہیں، گواہ بھاگ جاتے ہیں، ثبوت ضائع ہو جاتے ہیں یا غیر ضروری ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کی دلچسپی آہستہ آہستہ کم ہو جاتی ہے۔ حسین نواز کی تصویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکیورٹی لیک ہوئی ہے۔ اس پر اعتزاز احسن کے الفاظ بہت اہم سمجھتا ہوں۔ سیاسی لحاظ سے ان سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن قانونی نقطہ نظر سے وہ بالکل درست بات کہتے ہیں۔ انہوں نے اس معاملے پراعتراضات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اِس مقام پر نصب کیمروں سے تصویر نکالنا عام آدمی کا کام نہیں،یہ ایک ٹیکنیکل معاملہ ہے۔ بہت ماہر اور اہم شخص ہی اس سے تصویر حاصل کر سکتا ہے۔ دوسرا پوائنٹ یہ ہے کہ وزارت داخلہ کی مرضی کے بغیر یہ تصویر باہر نہیں آ سکتی۔ خورشید شاہ، اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے آج کل حکومت پر بہت زبردست گولہ باری کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حج سکینڈل میں ان کے قریبی ساتھی جنہیں انہوں نے سفارش کر کے لگوایا تھا وہ ن لیگ کی حکومت میں بھی کام کر رہے ہیں۔ یقینا ان کے اہل خانہ بھی اہم عہدوں پر کام جاری رکھے ہوئے ہوں گے۔ رانا ثناءاللہ تھوڑے تھوڑے دنوں بعد کوئی نہ کوئی شگوفہ ضرور چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے بیانات کو سرخی بنایا جا سکتا ہے اور اخبارات میں مزاح نگاری کی کمی پوری ہو سکتی ہے۔ آج کل ہر طرف جے آئی ٹی کا چرچا ہے۔ سپریم کورٹ کی کارروائی کدھر جا رہی ہے میاں نوازشریف کو صادق و امین کا سرٹیفکیٹ مل جائے گا؟ اس وقت موجودہ حکومت کے پاس 4 یا 5 آپشن موجود ہیں ایک تو یہ کہ عدالت انہیں کلین چٹ دے دے اور وہ حکومت چلائیں اور 2018ءتک اپنا ٹینور مکمل کریں اور اگلے الیکشن ہو جائیں اگر وہ 2018ءکے الیکشن میں دوبارہ کامیاب ہوتے ہیں تو اگلی ٹرم لے لیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ عدالت انہیں صادق اور امین ماننے سے انکار کر دے اور انہیں حکومت چھوڑنی پڑے۔ اس سلسلے میں قانون دان انہیں مشورے دے رہے ہیں کہ وہ ہر قسم کی صورتحال کے لئے تیار رہیں۔ عدالت کی کارروائی شروع ہوتے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کیس کس سمت جائے گا۔ لہٰذا انہیں مشورہ دیا جا رہا ہے کہ آپ پہلے ہی استعفیٰ دے دیں۔ تیسرا آپشن یہ ہے کہ وہ عوام کے پاس جانے کی تیاری کر لیں۔ نوازشریف اور شہبازشریف نے بہت عرصہ بعد لاہور کا دورہ کیا۔ حمزہ بھی ساتھ تھے۔ یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ہر ہفتے ایک قومی اسمبلی کے حلقے کا دورہ کیا جائے گا۔ ایک بہت اہم مگر گہرا پتا جو یہ اکثر کھیلتے ہیں اس مرتبہ بھی کھیلا ہے کہ ”ہم عوام کے پاس جائیں گے۔“ اس کا مطلب یہ دکھائی دیتا ہے کہ ہم عدالت کے فیصلے کو نہیں مانیں گے اور عوام کے پاس جائیں گے۔ ان کے وزراءپہلے کم اور اب کھل کر بیان دینا شروع ہو گئے ہیں وہ عدلیہ پر آوازے کسنے لگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں عدالت پر کون سا اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ بھٹو کا کیس بھی دیکھ لیا تھا گویا ایک فضا قائم کی جا رہی ہے کہ اگر عدالت کا فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے تو عوام کے دروازے پر دستک دی جائے۔ پنجاب میں میاں شہباز شریف کے ذریعے ابھی بھی میاں نوازشریف کو بہت ہولڈ حاصل ہے۔ اپوزیشن والے موجودہ صورتحال کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ شاید مسلم لیگ ن عدلیہ کے فیصلوں کو چیلنج کرے گی۔ یعنی عوامی چیلنج، عدالت کے باہر عوام کے پاس جانے کا چیلنج۔ طلال چودھری کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید یہ جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کر کے کارروائی سے باہر نکل جائیں گے۔ طلال چودھری نے کہا کہ جے آئی ٹی پر ایک اور جے آئی ٹی بٹھائی جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں جے آئی ٹی پر اعتماد نہیں رہا۔ رضا ربانی کی جانب سے نہال ہاشمی کا استعفیٰ قبول نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں اندر خانے باہمی مفاہمت موجود ہے اور یہ ایک دوسرے کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں۔ نہال ہاشمی نے سب کے سامنے کہا کہ میں اللہ اور عدالت سے معافی مانگتا ہوں اب وہ اپنی زبان سے مکر گئے اور کہتے ہیں مجھ پر دباﺅ تھا۔ پیپلزپارٹی سیاسی حکمت کے طور پر بالکل صحیح جا رہی ہے۔ ان کے افراد بڑے ذہین لوگ ہیں وہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود اپوزیشن میں نہیں ہیں۔ وہ فائدے سارے حاصل کرتے ہیں اور خسارہ بالکل نہیں اٹھاتے، نہ ان کے خلاف مقدمے ہیں نہ ان پر چڑھائی ہے،نہ ان کے خلاف وزراءدھواں دار تقریرکرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے کیا کمال رویہ اختیار کیا ہے تمام پارٹی ایک طرف ہوتی ہے اور اعتزاز احسن اکیلے دوسری جانب، وہ اپنی بندوقیں حکومت پر تان دیتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ وہی اپوزیشن ہیں اور اس مقصد میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے، اس کا مطلب ہے پیپلزپارٹی کو اپوزیشن ثابت کرنے میں اعتزاز احسن کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ زرداری کا کہنا ہے کہ 11 سال احتساب کے باوجود میرے خلاف کچھ نہیں نکلا۔ ہمارے سسٹم میں غریب کو انصاف نہیں ملتا اور اربوں پتی لوگوں کے خلاف کچھ بھی نہیں نکلتا۔ایرانی پارلیمنٹ اور خمینی کے مزار پر حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار نے کہا کہ حملہ کہیں بھی ہو اس کی مذمت ہونی چاہئے۔ آج ایرانی پارلیمنٹ میں حملہ ہوا ہے اتنے جدید دور میں بھی ایسے واقعات ہو جاتے ہیں۔ چند روز قبل برطانیہ اور افغانستان میں واقعات ہوئے اب ایران میں یہ واقعہ ہو گیا ہے۔ لگتا ہے آنے والی نسل بہت غیر محفوظ ہو جائے گی۔ داعش کسی صورت بھی تربیت، سامان حرب و دیگر آلات کے حساب سے اتنے آگے نہیں کہ انہوں نے جدید دنیا کو آگے لگایا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف کا موقف بالکل واضح ہے۔ آج یہ دکھائی دیتا ہے کہ حکومتی پارٹی اب بھاگنے کیلئے تیارہے۔ حسین نواز کی تصویرمیں ایسا کوئی ٹارچر ہوتا دکھائی نہیں دیتا جیسا پنجاب کے ہر تھانے میں ہوتا ہے۔ میاں نوازشریف کا خاندان 40 سال سے اقتدار میں ہے انہی کا احتساب ہوتا ہے۔ عمران خان تو ایک دن بھی وزیراعلیٰ نہیں رہا۔ اس کا احتساب کیا ہو گا۔ ہمارے ملک میں پولیٹیکل سسٹم ٹھیک نہیں۔ یہاں ڈیل بتاتی ہے کہ کیا ہونا ہے۔ مشرف دور میں دیکھ لیں۔ تمام معاملات ہو گئے۔ اسحاق ڈار کا بیان ہو گیا تو شاہ عبداللہ درمیان میں آ گئے۔ مشرف کی مجال نہیں تھی کہ انہیں انکار کرتے۔