لاہور (خصوصی رپورٹ) لاہور میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح تشویشناک صورت اختیار کر گئی۔ دن بدن طلاق اور خلع کے مقدمات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں فیملی کورٹس کی جانب سے 43خواتین کو طلاق کی ڈگریاں جاری کی گئی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر طلاق اور خلع کیلئے 50سے زائد درخواستیں دائر ہو رہی ہیں۔ اگر ماہانہ حساب کیا جائے تو 1500درخواستیں بنتی ہیں اور سالانہ حساب کے مطابق طلاق کے حصول کیلئے عدالتوں میں دائر کی جانے والی درخواستوں کی تعداد 18ہزار درخواستیں بنتی ہیں جو کہ بہت زیادہ ہے۔ دن بدن اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر ضلع کیلئے پانچ فیملی کورٹ بنائی گئی ہیں جو اپنے اضلاع کے مقدمات کی سماعت کرتی ہیں مگر صرف لاہور کیلئے 15فیملی کورٹس کام کر رہی ہیں۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق شادی کو ختم کرنے کے تین طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ مرد اپنی مرضی سے عورت کو طلاق دے‘ اس کیلئے اسے کسی عدالت کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مرد اور عورت رضامندی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائیں۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ عورت مرد کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو وہ خلع کا کیس عدالت میں دائر کر دے۔ فیملی ایکٹ میں ترمیم کے بعد اب خاتون نے عدالت میں پیش ہو کر صرف بیان دینا ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہ سکتی‘ عدالت اسے طلاق دلوائے۔ عدالت عورت کو خلع کی ڈگری جاری کر دیتی ہے مگر اس کے باوجود خلع کی ڈگری کی صورت میں طلاق مو¿ثر نہیں ہوتی بلکہ عورت کیلئے ضروی ہے کہ وہ طلاق کی ڈگری کو متعلقہ یونین کونسل میں رجسٹرڈ کروائے جہاں سے فریقین کو ایک ماہ کے وقفہ سے تین نوٹسز بھجوائے جاتے ہیں اور ان کو ایک بار پھر مصالحت کے مواقع دیئے جاتے ہیں۔ اگر اس عرصہ میں بھی رضامندی نہ ہو تو طلاق مو¿ثر ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے نامحرم ہو جاتے ہیں۔
طلاق کی شرح