تازہ تر ین

تھریسامے کے دوبارہ برطانوی وزیراعظم بننے سے سیاسی نقشہ وہی رہیگا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ برطانوی حکمران جماعت کا خیال تھا کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ان کی سیاسی قوت کم ہو گئی ہے۔ تھریسامے الیکشن میں اس لئے گئیں کہ شاید پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر اور پہلے سے زیادہ نشستیں جیت کر واپس آ سکیں۔ اس سلسلے میں ان کی امیدیں پوری نہیں ہوئیں، ان کی نشستیں پہلے سے بھی کم ہو گئیں لیکن خوش قسمتی سے انہیں ایک چھوٹا گروپ مل گیا جس کے باعث وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی لیکن وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ ثابت یہ ہوا کہ عوام میں ان کی پذیرائی نہیں ہے۔ پاکستان میں کارکردگی پر ووٹ نہیں مانگا جاتا۔ یہاں پر روپیہ پیسہ، سیاسی قوت، اثرورسوخ برادری ازم زیادہ اہم ہے آپ نے کتنی نوکریاں بانٹی وہ دیکھا جاتا ہے۔ کتنے سیاسی پریشرگروپس آپ کے ساتھ ہیں، بلدیاتی ادارے کس کے پاس ہیں۔ یہ سب دیکھا جاتا ہے۔ حکومتیں پچھلے25,20 سال سے ایسے ہی چلی آ رہی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی کارکردگی کی بنیاد پر حکومت میں نہیں آئی۔ شنگھائی کانفرنس میں پہلی مرتبہ پاکستانی وزیراعظم نے افغان صدر کو بھرپور جواب دیا ہے وگرنہ ماضی کا ریکارڈ اس سے بالکل مختلف ہے ہمیشہ ادھر سے دھمکیاں آتی تھیں اور ہم خاموش رہتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے فرنٹ مین تبدیل نہیں کئے۔ خواجہ سعد رفیق، دانیال عزیز، طلال چودھری اور طارق فضل چودھری اپنے بیانات میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے تھے۔ عدالتوں کے بارے بیان دیتے ہوئے ماضی کے فیصلوں پر تنقید بہت بڑھ چکی تھی۔ اسی طرح جے آئی ٹی پر تنقید بھی ضرورت سے زیادہ بڑھ چکی تھی۔اس کے پیش نظر ریٹائرڈ ججوں اور قانونی ماہرین کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کے وزراءکو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ آپ جے آئی ٹی اور عدالتوں کے بارے میں کچھ زیادہ جارحانہ باتیں کرتے ہیں جس کا عدالت عظمیٰ نوٹس لے سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے چند ارکان جو ملتان میں پیپلزپارٹی میں شریک ہوئے ہیں یہ کوئی شہاب ثاقب تو نہیں۔ عمومی قسم کے سیاسی لوگ ہیں شاید انہیں ملتان سے باہر کوئی جانتا بھی نہ ہو۔ راں برادری کی پیپلزپارٹی میں شمولیت سیاسی منظر تبدیل نہیں کر سکتی۔ بلاول بھٹو اگر سمجھتے ہیں کہ ان تینوں کے شامل ہونے سے انہوں نے ملتان فتح کر لیا ہے تو ٹھیک ہے۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ابھی تک کوئی ایسا شخص یا گروپ وفاداری تبدیل کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیا جو یکسر کسی پارٹی کی پوزیشن تبدیل کر دے۔ ایئرمارشل اصغر خان جب سیاست میں آئے تو میں انہیں ایئرپورٹ سے لے کر پی سی ہوٹل لے کر آیا۔ وہاں انہوں نے پہلی سیاسی تقریر کی تھی وہ بھٹو کے خلاف بہت ایکٹو تھے۔ایئرمارشل اصغر خان سے جب پوچھا گیاکہ لوگ آپ کی پارٹی چھوڑتے جا رہے ہیںتو انہوں نے جواب دیا کہ جو بھی لوگ پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں ہماری پارٹی مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ ایاز صادق صاحب نے قومی اسمبلی کی کارروائی میڈیا پر دکھانے پر پابندی لگا دی ہے۔ شاید ایسا پہلی مرتبہ ہونے جا رہاہے۔ یہ جمہوریت کا حسن ہوتا ہے کہ لوگ پارلیمنٹ میں الزام تراشیاں بھی کرتے ہیں لڑتے جھگڑتے بھی ہیں اور میڈیا یہ سب دکھاتاہے۔ نوازشریف، ایاز صادق اور رضا ربانی کو چاہئے کہ اسمبلی کی کارروائیوں کو اوپن کرنے کے احکامات جاری کریں۔ تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ پہلا موقع ہے کہ سپریم کورٹ کے جج نے کہا ہے کہ یہ کریمینل انویسٹی گیشن ہو رہی ہے۔ وزیراعظم کے خلاف اس قسم کی انکوائری پہلی مرتبہ ہو رہی ہے۔ انہیں یقین ہو چلا ہے کہ جے آئی ٹی ہمیں ہمیشہ کے لئے اقتدار سے علیحدہ کر دے گی اس لئے وہ طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ آصف کرمانی جھوٹا شخص ہے۔ پہلے کہتا ہے ایمبولینس منگوائی گئی پھر کہتا ہے ایمبولینس بھیجی گئی۔ ہم نے عمران خان کی ہر چیز عدالت میں جمع کروا دی ہے۔ شاہ محمود قریشی کے بارے لوگوں نے افواہ پھیلائی ہے کہ وہ پی ٹی آئی چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں واپس جا رہے ہیں اس میں کچھ سچائی نہیں، شاید یہ ن لیگ والے افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ لندن سے تجزیہ کار شمع جونیجو نے کہا کہ برطانوی الیکشن میں کوئی خاص سیٹ بیک دیکھنے میں نہیں آیا۔ لوگوں کی توقعات جو تھریسامے یا کنزرویٹو پارٹی سے تھیں وہ تو پوری نہیں ہوئیں ہاں تھریسامے کو کچھ چھوٹی پارٹیوںکی سپورٹ حاصل ہو گئی لیکن الیکشن کے نتیجے میںکنزرویٹو پارٹی کو سیاسی تباہی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اگرچہ وہ 319 نشستیں لے کر آگے تو آ گئی لیکن حکومت نہیں بنا پائے گی اور وہ ایک چھوٹی پارٹی سے اتحاد کر رہے ہیں۔ اب برطانیہ میں مخلوط حکومت بننے جا رہی ہے۔ پہلے یہ آدھی کو چھوڑ کر پوری کے پیچھے پڑ گئے اب ایک معلق حکومت بنانے جا رہے ہیں جو زیادہ دیر چلتی دکھائی نہیں دیتی۔برطانیہ میں نئی حکومت بننے کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔ آنے والے وقت میں پاکستانی اور ہندوستانی طلبہ کا کردار اہم ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں زیادہ تر آئی ٹی میں ہندوستانی طلبہ ہیں اور پاکستانی طالبعلموں کی بھی کمی نہیں ہے۔ لیبر پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ تھریسامے نے اپنے نمائندوں اور ساتھیوں کو نظرانداز کیا۔ اس سے ان کی مخالفت بہت بڑھی۔ لوگوںسے کئے وعدے بھی انہوں نے پورے نہیں کئے۔ نمائندہ لندن وجاہت علی خان نے کہا کہ برطانیہ کے تعلقات پاکستان کے ساتھ ماضی جیسے ہی رہیں گے۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد پاکستان کو برطانیہ کے لئے مختلف اور مربوط پالیسی بنانا ہو گی۔ تھریسامے دوبارہ وزیراعظم بنی ہیں۔اس سے قبل وہ سیکرٹری خارجہ تھیں اس لئے تصور ہو رہا تھا کہ وہ ایک کمزور وزیراعظم ہیں اس لئے الیکشن دوبارہ کروائے گئے ان کا خیال تھا کہ برائے راست الیکشن میں کامیابی سے ان کی طاقت میں اضافہ ہو گا لیکن برطانوی عوام کو ان کی کارکردگی پسند نہیں آئی جس کی وجہ سے انہیں مزید نشستیں گنوانا پڑیں۔ پاکستان سے مفرور باغیوںکے حوالے سے برطانوی قانون میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آنے والی۔ یہ وہ معاملات ہیں جو بہت اوپر کی سطح پر فائنل کئے جاتے ہیں۔ پاکستان مخالف یہاں آتے رہیں گے اور ان کے سایہ میں پناہ لیتے رہیں گے۔ برطانوی لوگ بہت کنزرویٹو مائنڈ کے لوگ ہیں وہ اپنا تسلط قائم رکھنے پر یقین رکھتے ہیں اگر کوئی معاملہ ان کی مرضی کے خلاف جا رہا ہو تو وہ سپریم کورٹ سے فیصلہ لے کر آ جاتے ہیں۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain