لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کا انٹرا پارٹی الیکشن کا نتیجہ سب کو پہلے سے معلوم ہی تھا۔ عمران خان چیئرمین، شاہ محمود قریشی وائس چیئرمین اور دیگر تمام لوگ بھی پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ہی کامیاب ہوئے ہیں۔ تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں میں الیکشن اسی طرح ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی بادشاہت ہی سیاسی جمہوریت ہے۔ ہم اسے آزاد جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔ جمہوریت صرف اتنی ہی رہ گئی ہے کہ آزاد امیدوار کو الیکشن میں کھڑا کرو اور اسے کامیاب کروا کر اسمبلی میں پھینکو۔ 15 ویں ترمیم کے بعد ہم نے پارٹی کارکن سے رائے کا حق چھین لیا ہے۔ وہ صرف پارٹی کے مرکز میں ہی رائے دے سکتا ہے۔ عمران خان کا الیکٹرول ووٹ کہاں سے آیا۔ کہاں اس کی لسٹیں لگیں۔ کس اہلیت کی بنیادپر ووٹ ڈلوائے گئے۔ مسلم لیگ (ن) ہو، مسلم لیگ (ق) ہو پیپلزپارٹی ہو یاجے یو آئی، سب کا طریقہ کار ایک جیسا ہی ہے۔ جمہوریت کے پیرائے میں ہم بدترین بادشاہت لے آئے ہیں۔ 15 ویں ترمیم کے بعد تو جمہوریت کا بوریابستر ہی گول ہو گیا ہے۔ اس ترمیم کے تحت اگر پارٹی چیئرمین کے خلاف کوئی کارکن ووٹ دیتا ہے یا رائے کا اظہار کرتا ہے تو فارغ ہو جاتا ہے۔ شاید کوئی بھی جمہوریت پر یقین نہیں رکھتا۔ پارٹیاں صرف الیکشن کمیشن کے ڈنڈے کی وجہ سے انٹرا پارٹی الیکشن کرواتی ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن اس کی پارٹی کو خارج کرسکتی ہے۔ عمران خان کو کئی مرتبہ الیکشن کمیشن ہی کی طرف سے کہا گیا کہ پارٹی الیکشن کروائیں۔ ماضی میں مسلم لیگ ن میں تو الیکٹرول کالج کیلئے بڑی لڑائی بھی ہوئی۔ اسلام آباد میں ایک طرف نوازشریف کا گروپ تھا دوسری طرف جونیجو گروپ تھا۔ آپس میں دنگا فساد ہوا۔ اگر الیکشن فری ہوں بھی تو کیسے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اس کی بیٹی بینظیر بھٹو سربراہ بنی اس کے بعد بلاول بھٹو پارٹی سربراہ بنے۔ تقریباً تمام پارٹیوں میں ایسا ہی ہے۔ آصف زرداری نے اب اعلان کیا ہے کہ شاید وہ بلاول کی کارکردگی سے خوش نہیں اس لئے وہ آصفہ کو آگے لائیں گے۔ دلچسپ بات ہے جب ایئرمارشل (ر) اصغر خان سے انٹرویو کیا تو انہوں نے کہا کہ میں بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دوں گا لیکن بعد میں وہ خود پی ڈی اے کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کو تقسیم کرنے کی تھیوری بہت پرانی ہے۔پنجاب میں ملک کی کل آبادی کے 62 فیصد لوگ بستے ہیں۔ 38 فیصد آبادی باقی تینوں صوبوں کی ملا کر بنتی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ صوبائی تقسیم برابر نہیں ہے۔ یوسف رضا گیلانی سے میری گفتگو ہوئی تو میں نے انہیں کہا کہ صوبوں کی تقسیم کو ازسرنو تشکیل دیا جانا چاہئے کیونکہ آئین بھی اس کی اجازت دیتا ہے۔ سندھ تکنیکی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے ایک شہری سندھ دوسرا دیہی سندھ۔ شہری سندھ کی سیٹیں اوراس کا بجٹ الگ ہے جبکہ اندرون سندھ یعنی دیہی سندھ کی نوکریوں کی تعداد، مرکزی کوٹہ میں حصہ الگ ہے۔ اس کی تقسیم کو صوبائی اسمبلی سے پاس کروائیں اور قومی اسمبلی میں لے جائیں۔ پنجاب میں آ جائیں یہاں مسلم لیگ ن نے بہاولپور سے الیکشن کے وقت وعدہ کیا کہ اسے تقسیم کر دیا جائے گا۔ عوام نے بھرپور ان کا ساتھ دیا اور ان کے دونوں نمائندے بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے پنجاب اسمبلی میں قرارداد منظور کر لی کہ جنوبی پنجاب کی ملتان کی حد تک علیحدہ صوبے کی حمایت کرتے ہیں۔ قرارداد پنجاب اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود ہے اس کے بعد یہ پھر بھول گئے۔ پیپلزپارٹی نے آ کر پھر معاملہ اٹھا دیا۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم نے شمالی پنجاب اور جنوبی پنجاب کے دو علیحدہ صدر بنا دیئے ہیں۔ اعلان کیا کہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے جا رہے ہیں۔ جس کے بعد بہاولپور اور ملتان کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا۔ اب تحریک انصاف سب سے آگے نکل گئی اس نے صوبے کے دو کی بجائے چار حصے کر دیئے۔ لگتا یہ ہے کہ مستقبل میں پنجاب کو ایک صوبے کے طور پر نہیں رکھا جا سکتا۔ رجحان اس طرف جا رہا ہے کہ اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جائے اور اس کے لئے آئین کے مطابق پہلے صوبائی اسمبلی پھر قومی اسمبلی اور پھر سینٹ سے منظوری لینا ضروری ہے۔تحریک انصاف کے مخالفین ان پر آوازیں کس رہے ہیں کہ یہ دوسرے کے حسابات کی بات کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی پارٹی فنڈنگ کی تفصیل سپریم کورٹ میں جمع نہیں کروائی۔ سینئر تجزیہ کار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ تمام پاکستان کی خواہش ہے کہ سعودی عرب اور قطر میں پیدا ہونے والی نئی ٹینشن جلد ختم ہونی چاہئے۔ پہلے یہی ٹینشن سعودی عرب اور ایران کے درمیان تھی۔ اس کو ٹرمپ نے مزید ہوا دی۔ ٹرمپ کے بیان پر ہر پاکستانی کو تشویش ہوئی تھی۔ قطر کا سعودی اتحاد سے فوجیں واپس بلا لینا پھر دیگر اسلامی ملکوں کا قطر سے اعلان لا تعلقی اور قطریوں کو اپنے علاقوں سے نکال دینے سے بڑی خطرناک صورت حال سامنے آئی۔ نواز شریف نے بڑا بروقت فیصلہ کیا کہ سعودی عرب کا خصوصی دورہ کیا جائے۔ مشاورت تو پہلے بھی جاری تھی۔ ان کی اپنی حکمت عملی ہے ضروری نہیں کہ وہ ہر بات، ہر کسی کو بتائیں، تاہم ان کی کوشش جاری ہے۔ خدا کرے کہ ان کی کوششیں کامیاب ہوں لیکن ابھی تک کوئی تبدیلی سامنے نہیں آئی۔ عرب ممالک میں بادشاہتیں قائم ہیں۔ بادشاہت میں آرمی چیف کی بڑی اہمیت سمجھی جاتی ہے۔ بادشاہوں کے پاس ہم سے کئی گنا زیادہ پیسہ ہے لہٰذا نہ وہ ہمارے وزیرخزانہ سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ مشیر خارجہ سے ۔ سربراہ مملکت کے بعد اگر وہ کسی کو اہم سمجھتے ہیں تو وہ ہے آرمی چیف۔ ان کے نزدیک پہلے نمبر پر وزیراعظم ہیں اور دوسرے نمبر پر آرمی چیف ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کسی اور وزیر کو کچھ نہیں سمجھتے۔ وزیراعظم پاکستان کی جے آئی ٹی میں پیشی، ہمارے سیاسی، جمہوری اور عدالتی نظام کا بہت بڑا امتحان ہے۔ نوازشریف نے انکار نہیں کیا وہ کہتے ہیں میں پیش ہوں گا۔ وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں لہٰذا معذرت کے ساتھ ہمارے ادارے اس قابل نہیں ہیں کہ اتنا زیادہ بوجھ برداشت کر سکیں۔ پاکستان میں تو ایک عام رکن اسمبلی کو بھی نہیں پکڑا جا سکتا اس کے لئے بھی پہلے سپیکر اسمبلی سے اجازت لینا پڑتی ہے یہ تو ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ وزیراعظم کو استحقاق حاصل ہے یا نہیں لیکن انہوں نے بڑے حوصلے کا مظاہرہ کیا۔تیاریوں سے لگتا ہے کہ وزیراعظم صاحب پیشی سے قبل یا پیشی کے بعد دھواں دار تقریر بھی کریں گے اور جلسے کی کیفیت ہو گی۔ ان کے ساتھ جلوس بھی نکلے گا۔ مسلم لیگ (ن) اسے پاور شو کے طور پر استعمال کرے گی۔ وزیراعظم صاحب جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے آ رہے ہیں اس لئے اسلام آباد کو صاف کیا جا رہا ہے۔ ہر طرف جھنڈے اور بینر لگائے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) والے مہربانی کریں اور اسی طرح کے وزیراعظم کے دورے مختلف علاقوں میں کرواتے رہیں تا کہ وہ تمام علاقے ڈویلپ ہو جائیں اور مفت میں صفائی بھی ہو جائے۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کے انتظام میں ہمیں دقت پیش آ رہی تھی۔ ہم اسے ریجن کے مطابق تقسیم کرنا چاہتے تھے یہ ایک پارٹی ضرورت تھی۔ پنجاب کو چار حصوں میں تقسیم کرنا مقصود نہیں بلکہ اپنی پارٹی کے انتظامات کیلئے ایسا کرنا ضروری سمجھا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے صرف اپنی سیاست چمکانے کے لئے پنجاب کی تقسیم کا نعرہ لگایا تھا لیکن انہوں نے اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ ان کی سیاست ووٹوں کے لئے تھی ہم نے اسے انتظامی معاملے درست رکھنے کے لئے تقسیم کیا ہے۔ تحریک انصاف اپنے حسابات کا ہر سال آڈٹ کراتی ہے اور اس کی تفصیل اداروں کو جمع بھی کرواتی ہے۔نواز شریف کی پیشی ، عدلیہ اور انتظامیہ کا امتحان