تازہ تر ین

نواز شریف کیلئے بہتر ہے کہ آج ورکرز کو جذباتی ردعمل سے روکیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا کہ جے آئی ٹی میں وزیراعظم کی پیشی کے دوران ویڈیو ریکارڈنگ ہونی چاہئے یا نہیں یہ عدالتی معاملہ ہے۔ عدالت کہے گی تو ہو جائے گی۔ اجازت نہیں دے گی تو نہیں ہو گی لیکن حسن اور حسین نواز کے وکیل ایڈووکیٹ حارث کی بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جے آئی ٹی تفتیش کی ویڈیو ریکارڈنگ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم جے آئی ٹی کے سامنے وہی کچھ کہیں گے جوباتیں وہ بالعموم پہلے بھی کہتے رہے ہیں قومی اسمبلی کے فلور پر قوم سے خطاب کے دوران پھر انہوں نے پریس کانفرنسوں میں کہا ہے۔ ارکان اسمبلی کے ساتھ بات چیت کے دوران کہتے رہے ہیں۔ جے آئی ٹی میں بھی وہی کچھ کہنے جا رہے ہیں یہاں بولنے سے کوئی زلزلہ نہیں آ جائے گا نہ امریکہ، بھارت یا ایران کے متعلق کوئی راز افشا ہونے کا ڈر ہے۔ ساری دنیا اس وقت شفافیت کی طرف آ رہی ہے۔ کلنٹن کے خلاف جب لیونسکی کا کیس ہوا تو میں امریکہ ہی میں تھا۔ کارروائی کے دوران میں اپنے صوفے سے اٹھا ہی نہیں اور تمام وقت وکیل کے سوال جواب سنتا رہا۔ میں نے دو دنوں تک اپنے تمام کام ملتوی کر دیئے اور وہ دلچسپ کارروائی دیکھتا رہا۔ امریکی قانون کے تحت یہ دو افراد کاکیس تھا اور اسے کوئی جرم بھی تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ کارروائی اس لئے تھی کہ امریکی صدر کے کسی عورت سے اس طرح کے تعلق رکھنے سے کوئی قومی راز افشاں تو نہیں ہوا۔ وہاں تمام کارروائی براہ راست دکھائی گئی تھی اور ساری دنیا اسے دیکھ رہی تھی۔ وزیراعظم کے بچے اس وقت تک ملزم ہیں جب تک عدالت انہیں کلیئر نہ کر دے۔ اسحاق ڈار صاحب نے کہا دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اچھی بات ہے عدالت میں پیش ہونے دیں سب سامنے آ جائے گا۔ میرے نظریئے کے مطابق نوازشریف اور ان کی پارٹی کے لئے بہتر ہو گا کہ اوور ری ایکٹ نہ کریں۔ اسلام آباد کی سڑکوں کی مرمت کی جا رہی ہے۔ نئے سرے سے انہیںکارپٹ کیا جا رہا ہے۔ کیا نوازشریف پیدل چل کر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے جا رہے ہیں۔ سڑکوں کی آرائش کرنے کا کیا مطلب ہے یا کوئی جشن ہو رہا ہے یا 14 اگست آ گیا ہے۔ یہ کوئی جشن نو روز نہیں۔ پاکستان کا چیف ایگزیکٹو پہلی مرتبہ کسی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے جا رہا ہے وہاں ان سے سوال جواب ہوں گے۔ اس معاملے پر خاموشی بہتر ہے۔ میں مشورہ دوں گا کہ میاں صاحب خاموشی سے آئیں اور سوال جواب کے بعدکارکنوں سے خطاب سے گریز کریں، میڈیا سے بھی بات چیت نہ کریں اور خاموشی سے واپس چلے جائیں۔رانا ثناءاللہ نے کہا کہ ہم تیاری کر رہے ہیں۔ کس بات کی تیاری، کسی محاذپر جانا ہے؟ حکومت یا اس کے سپورٹرز کی طرف سے کوئی بھی اوور ری ایکٹ کیا گیا تو یہ حکومت کیلئے مددگار نہیں نقصان دہ ثابت ہو گا۔ اس موقع پر بڑھکیں لگانا، نعرے لگانا بے سود ہیں۔ ابھی تو فیصلہ بھی نہیں ہونے جا رہا۔ وزیراعظم کے بعد انہوں نے شہباز شریف کو بلایا ہے۔ اس کے بعد دوسروں کے بھی بیانات ہونے ہیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے کا وقت ابھی کافی دور ہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب کی واحد بڑی اور ملکی سطح پر بھی ایک طاقتور جماعت ہے لیکن اگر انہوں نے کسی ردعمل کا مظاہرہ کیا تو یہ بات نوازشریف اور ان کے خاندان کے خلاف جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ کیا ہو رہا ہے جے آئی ٹی والے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے گھروں کے باہر خفیہ پولیس والے لگا دیئے گئے ہیں۔ چار ادارے ہمارے جواب نہیں دے رہے۔ ہمارے سوشل میڈیا کے اکاﺅنٹ ہیک کر لئے گئے ہیں، حکومتی ٹیم پر پہلے بھی الزامات لگ چکے ہیں۔ رانا ثناءاللہ شہبازشریف کے دست راست ہیں۔ وہ ان کے حق میں بڑھکیں لگاتے رہتے ہیں۔ وہ پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ نوازشریف کی بجائے شہبازشریف کو بلا کر دیکھیں ۔ اب جے آئی ٹی نے دونوں کو ہی بلا لیا ہے۔ شہبازشریف کے قریبی ساتھیوں نے بتایا ہے کہ یہ معاملہ ان کے خاندان کا ہے بلکہ حدیبیہ پیپر ملز میں تو خود شہبازشریف کا بھی نام ہے۔ انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ آپ زیادہ بیان بازی سے پرہیز کریں۔ شہباز شریف کافی ذہین آدمی ہیں۔ سمجھداری سے اتنا ہی جواب دیں جتنا ان سے پوچھا جاتا ہے، نوازشریف بیشک ان کے بڑے بھائی ہیں پارٹی کے بھی سربراہ ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ بینک اکاﺅنٹ اپنا اپنا، بیوی اپنی اپنی اور مال اسباب اپنا اپنا، چار فلیٹوں میں کوئی شہباز شریف کا فلیٹ نہیں نہ حمزہ شہباز کا ہے۔ شہباز شریف پر جو الزامات نہیں ہیں۔ بلاوجہ اس کو اپنے گلے نہ ڈالیں۔ الیکشن کمیشن ہمارا بڑا اہم اور خود مختار ادارہ ہے۔ ہم سب اس کی بڑی عزت کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایاز صادق صاحب سے میری بحث بھی ہوئی تھی، سپیکر ہاﺅس کا کسٹوڈین ہوتا ہے۔ شیخ رشید الزام لگاتے ہیں کہ مجھے بولنے نہیں دیتے میرا مائیک بند کر دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے آپ صرف مسلم لیگ (ن) کے سپیکر اور حامی ہیں۔ آپ کو خود کو غیرجانبدار رکھنا چاہئے۔ ایک بندہ شکایت کرتا ہے کہ اس کا مائیک ہمیشہ بند رہتا ہے اب ہاﺅس کی تمام جماعتیں آپ کی جماعتیں ہیں کیوں دوسروں کو شکایت کا موقع دے رہے ہیں۔ میں نے پی سی ہوٹل میں ایڈیٹروں کی میٹنگ میں یہ سوال ان سے کیا لیکن بعض لوگ طے کر لیتے ہیں کہ ہم نے اسی راستے پر چلنا ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن نے بھی کچھ طے کر رکھا ہے۔ حالانکہ یہ سب کا ادارہ ہے۔ اسے تمام پارٹیوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا چاہئے۔ انصاف کیلئے مشہور جملہ ہے کہ ”انصاف صرف ہونا نہیں چاہئے بلکہ ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے“ لگتا ہے الیکشن کمیشن والے اپوزیشن ارکان کے لئے چھرا لے کر بیٹھے ہوئے ہیں اور گردن اتارنے کو تیار رہتے ہیںجبکہ حکومتی پارٹی کا جو بندہ ان کے پاس جاتا ہے اسے ٹوپی پہنا کے، ہار پہنا کے بھیج دیتے ہیں۔ چلو جی تم کلیئر ہو۔ آج بھی انہوں نے میاں نوازشریف صاحب کو کلین چٹ دے کرایسا ہی کیا ہے۔ یہی فیصلہ چند دنوں بعد دے دیتے تو کوئی حرج نہیں تھا۔ تحریک انصاف کی بات آئی تو کہا کہ ان کی ”ایسی کی تیسی“ ان کا حساب ٹھیک نہیں ہے۔میری چیئرمین الیکشن کمیشن سے درخواست ہے برائے مہربانی ادارے کی غیر جانبداری کا تاثر قائم رہنے دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بدزبان لوگ اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ سوائے چند افراد کے جنہیں میں نے کبھی بدزبانی کرتے نہیں دیکھا۔ جیسے احسن اقبال، اسحاق ڈار، راجہ ظفر الحق وغیرہ۔ مخالفت ضرور کریں لیکن مہذب زبان اختیار کریں۔ دانیال عزیز سے جب میں پہلی مرتبہ ملا تو ان کے والد انور عزیز چودھری میرے پاس لے کر آئے تھے۔ اس وقت وہ خوبصورت نوجوان تھے۔ انور عزیز صاحب نے ایک شادی امریکن خاتون سے کی، دانیال عزیز انہی سے ہیں۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ پہلے پرویز مشرف کے ساتھی بنے اور اب مسلم لیگ ن کے سرگرم کارکن جانے جاتے ہیں۔ انور عزیز صاحب کو ایک دوست کی حیثیت سے میرا مشورہ ہے کہ بیٹے دانیال کوبادام وغیرہ کھلائیں کیونکہ اکثر وہ اپنے آپ سے باہر نکل جاتے ہیں۔ دانیال عزیز صاحب آپ ضرور مخالفت کریں لیکن دلائل کے ساتھ اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر۔آپ صرف دوسروں کا دل دکھانا چاہتے ہیں۔شائستگی کو مدنظر رکھیں۔سینئر تجزیہ کار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے موبائل پر کسی نے پیپلزپارٹی کے ورکرز اجلاس کی ایک ویڈیو بھیجی ہے جس میں جیالے اپنے ساتھی پر تشدد کر رہے ہیں، پھر اس کی قمیض پھاڑ دیتے ہیں یہی نہیں بعد ازاں اس کی شلوار اتار کر اسے الف ننگا کر دیا جاتا ہے اور وہ شخص اپنے ننگے وجود کو چھپانے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔یہ ایک ثبوت ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوں میں بے ہودگی اور لچر پن کی انتہا ہو چکی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی دن خواتین کی بھی بے حرمتی کر دی جائے۔ سیاسی پارٹی کا یہ کلچر درست نہیں ہے۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر سپریم کورٹ بار سید علی ظفر شاہ نے کہا دور جدید میں ویڈیو ریکارڈنگ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے۔ جج صاحب بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ ریکارڈ ”کلیپنگ ٹیکنک“ ہے۔ نوازشریف صاحب کے بیٹے کا لگایا جانے والا اعتراض درست نہیں ہے کہ اگر ویڈیو لیک ہونے کا خدشہ ہے تو کوئی بھی دستاویز جمع نہیں کرائی جا سکتی۔ ویڈیو ریکارڈنگ کو تو اب تفتیش کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔کئی ممالک میں کریمینل کیسز میں اس کا استعمال باقاعدہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ گزشتہ دو چار ہفتوں سے جو کارروائی ہوتی رہی اور عدالت لگتی رہی بلکہ عدالت سے باہر عدالت لگتی رہی اور میڈیا ٹاک ہوتی رہی۔ وہی پرانی باتیں اور بیانات جے آئی ٹی کے سامنے ہوں گے۔ کوئی نئی بات یا کوئی نیا راز نہیں کھولنے جا رہا۔ منی ٹریل یا منی لانڈرنگ کے حوالے سے بات ہو گی یا سوال جواب ہوں گے اس کے علاوہ کچھ بھی نیا نہیں ہونے جا رہا۔اس کے علاوہ ویڈیو ریکارڈنگ کی صورت میں کوئی بھی شخص اپنے بیان سے منحرف نہیں ہو سکے گا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain