لاہور (خصوصی رپورٹ) سی پیک والے حساس علاقوں میں امریکی اداروں کی جگہ برطانوی این جی اوز سرگرم عمل ہیں۔ سیودی چلڈرن کو حساس علاقوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سنگی اور ایس آر ایس پی کا ایبٹ آباد میں این او سی معطل کردیا گیا ہے جبکہ کئی این جی اوز کو اپنے پراجیکٹ مکمل کرنے کے بعد این او سی جاری نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے برطانوی این جی اوز کو حکمت عملی کے تحت آگے لایا گیا۔ کئی این جی اوز کو سکیورٹی اداروں سے کلیئرنس حاصل کیے بغیر این او سی جاری کئے گئے۔ گیم چینجر منصوبہ سی پیک پر بڑی تیزی سے کام جاری ہے۔ انتہائی محدود پیمانے پر کاروباری مال کی گوادر رپورٹ پر ترسیل بھی شروع ہوگئی ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سی پیک منصوبے کے بڑی حصے اس سال کے آخر تک مکمل کرلیے جائیں گے۔ واضح رہے بھارت سی پیک منصوبے کی کھل کر مخالفت کر چکا ہے، جبکہ امریکہ کو بھی اس پر خدشات ہیں، جس کی بڑی وہ امریکہ کا بھارت کے ساتھ اتحاد اور مشترکہ مفادات ہیں۔ سی پیک والے علاقوں کو حساس قراردیا جا رہا ہے اور یہاں پر سکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان میں مشکوک کردار والی بین الاقوامی غیر سرکاری این جی اوز/ اداروں پر بھی خصوصی نظر رکھی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کئی امریکی این جی اوز کو نہ صرف یہ کہ این او سی جاری نہیں کیا گیا، بلکہ اناین جی اوز کو فی الفور علاقہ چھوڑے کے احکامات بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔ سیو دی چلڈرن کو سی پیک والے علاقوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسی طرح ایس آر ایس پی اور سنگی کے ایبٹ آباد میں این او سی معطل کر دیئے گئے ہیں۔ حساس اداروں کی جانب سے امریکی این جی اوز کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے پر سی پیک کے علاقوں میں حکمت عملی کے تحت امریکی این جی اوز کی جگہ برطانوی این جی اوز کو فعال کردیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبہ خیبر پختون میںبرطانیہ کا سرکاری خیراتی ادارہ ڈیپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (ڈی ایف آئی ڈی) انتہائی سرگرم عمل ہےے۔ یہ ڈونر ادارہ ہے اور یہ اس وقت آکسفورڈ پالیسی مینجمنٹ (او پی ایم)، ایڈم اسمتھ انٹرنیشنل (اے ایس آئی) اور انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) کو مختلف پراجیکٹ کے لیے فنڈنگ کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ او پی ایم اور اے ایس آئی تعلیم کے میدان میں کام کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان دونوں اداروں نے حکومت پاکستان کی جانب سے اکتوبر 2013ءکے نوٹیفکیشن کے مطابق قانونی تقاضے پورے نہیں کیے سب سے اہم یہ کہ ان اداروںکو اکنامک افیئر وزارت خارجہ میں رجسٹریشن کروانا ہوتی ہے ، مگر ان تینوں نے یہ رجسٹریشن نہیں کروائی۔ صوبائی حکومت کی اس جانب توجہ بھی نہیں دلائی گئی مگر اس نے نہ صرف ان تینوں کو صوبہ بھر میں کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے، بلکہ پورا تعاون بھی کیا جا رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً سکیورٹی اداروں کے اٹھائے جانےوالے اعتراضات کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ سکیورٹی سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ تعلیم کے فروغ کے نام پر ان برطانوی اداروں نے اساتذہ اور دیگر شعبوں میں ٹیبلٹ کمپیوٹر تقسیم کیے ہیں، حالانکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایسی کوئی ڈیوائس جو وائرلیس ہو، تقسیم کرنے پر پابندی ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے توجہ دلائی گئی تو پہلے تو یہ تقسیم وقتی طور پر روک دی گئی تھی مگر بعد میں دوبارہ صوبائی حکومت کی ایما پر تقسیم کر دیئے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر ٹیبلٹ لاکھوں کی تعدد میں تقسیم ہوئے ہیں۔ تحقیقاتی اداروں سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت متعدد این جی اوز سرگرم ہیں، جن میں سپارک کے علاوہ رائٹ ٹو پلے، آئی آر سی، جی آئی، ایس آر ایس پی اور دیگر شامل ہیں۔ یہ سب بغیر این او سی او مقامی انتظامیہ کے علم میں لائے بنا اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان این جی اوز کو تعلیم کے نام پر جرمن حکومت، یو ایس ایڈ، برطانوی اداہ ڈی ایف آئی ڈی، برٹش کونسل فنڈنگ کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق آئی آر سی نے خیبر پختون کے مختلف علاقوں میں جن میں ایبٹ آباد، ہری پور، مانسہرہ اور دیگر شامل ہیں، میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران 44 سیمینار اور میٹنگز منعقد کی ہیں جبکہ سیو دی چلڈرن نے 55 سیمینار اور میٹنگز منعقدکی تھیں۔یہ سیمینار اور میٹنگز پانچ پانچ روز تک بھی جاری رہیں، جن میں پرائمری سکول کے مرد و خواتین اساتذہ موجود ہوتے تھے، اس کے بعد ہی سیودی چلڈرن کو اپنی سرگرمیاں روکنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی آر سی کا حالیہ پراجیکٹ جو جرمن حکومت کی جانب سے دیا گیا ہے ، کم از کم سو کروڑ روپے پر مشتمل ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد پہلی اور دوسری جماعت کے بچوں کو اردو پڑھنا اور لکھنا اور سکھانا ہے مگر اس وقت مذکورہ این جی اوز کا زیادہ فوکس مردو خواتین اساتذہ کی تربیتی ورکشاپ منعقد کروانا ہے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ این جی اوز کا ہدف ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے اور مختلف حساس علاقوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا بھی رہی ہوتی ہے۔ اس میں حدود اربعہ بھی شامل ہے جبکہ ایک این جی او کے اہلکاروں کو سمارٹ فون فراہم کیے گئے ہیں جس کا مقصد وہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایک اور این جی او نے اساتذہ میں موبائل فون ، سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ جس کے بارے میں مقامی انتظامیہ کو آگاہ نہیں کیا جا رہا۔ ذرائع کا کہناہے کہ ان این جی اوز کی سرگرمیوں کا مرکز پیک والا علاقہ ہے اور اس علاقے ہی میں یہ اپنی زیادہ سرگرمیاں کر رہی ہیں۔ ان علاقوں میں این این جی اوز نے کئی ایک سروے اور ڈیٹا کولیکشن کی ہے، حالانکہ کوئی بھی سروے اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح ڈیجیٹل میپنگ بھی کی گئی ہے۔ ذرائع کے بقول مذکورہ سروے، ڈیٹاکولیکشن اور ڈیجیٹل میپنگ کا ڈیٹا سکیورٹی اداروں کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا اور اس کے لیے صرف صوبائی حکومت ہی کے ساتھ رابطے کیے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل میپنگ،بالخصوص سی پیک والے علاقوںمیں کسی بھی صورت قابل قبول نہیں اور نہ ہی اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ ڈیجیٹل میپنگ کی اطلاعات ملنے کے بعد صوبائی حکومت سے رابطہ قائم کیا گیا ہے اور اس پر وضاحت طلب کی گئی ہے مگر ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا جا رہا ہے۔ او پی ایم سے رابطہ قائم کیا اور پوچھا کہ آپ نے وفاقی حکومت سے مناسب طریقے سے این او سی حاصل نہیں کیا ہے؟ تو اس پر ان کا موقف تھا کہ او پی ایم کو ڈی ایف آئی ڈی فنڈنگ کر رہی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی ایک کمیٹی جس کی صدارت چیف سیکرٹری کرتے ہیں، نے او پی ایم کو سرگرمیوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ وزارت خارجہ کے اکنامک افیئر سے رجسٹریشن پر ان کا کہنا تھا کہ او پی ایم پرائیویٹ کنسلٹنٹ ادارہ ہے اور یہ سکیورٹی ایکسچینج آف پاکستان سے رجسٹرڈ ہے جبکہ ڈی ایف آئی ڈی کا اکنامک افیئر ڈویژن کے ساتھ ایم او یو دستخط ہو چکے ہیں۔ اس سوال پر کہ او پی ایم ڈیجیٹل میپنگ میں مصروف ہے، کہنا تھا کہ او پی ایم ڈیجیٹل میپنگ نہیں کر رہی، بلکہ جی آئی ایس ہو رہی ہے۔ یعنی صوبہ خیبر پختون کی جیوگرافیکل معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں اور او پی ایم ازخود یہ سارا کام نہیں کر رہا، بلکہ اس کے لیے صوبائی اور ضلعی حکومتوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ او پی ایم یہ کام ڈی ایف آئیڈی اور صوبائی حکومت کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے تحت کر رہا ہے اور یہ سب معلومات متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے دفاتر اور ضلعی حکومتوںکے پاس ہیں۔ اس سوال پر کہ بغیر اجازت کے ڈیٹا اور سروے کیا جا رہا ہے اور یہ ڈیٹا حکومتی اداروں کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا؟ ان کا موقف تھا کہ ہم مقامی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر سروے اورڈیٹا اکٹھا نہیں کرتے، سروے کا سوال نامہ حکومتی اداروں کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا؟ ان کا موقف تھاکہ ہم مقامی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر سروے اور ڈیٹا اکٹھا نہیں کرتے۔ سروے کا سوال نامہ حکومتی اداروں کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے اور جس ادارے کے لیے سروے ہوتا ہے، اسے بھی دیاجاتا ہے اور اگر سکیورٹی ادارے گزارش کریں تو ان ک بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ سارے عمل میں مقامی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ اس حوالے سے صوبائی حکومت کے ترجمان مشتاق احمدغنی نےرابطہ کرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔