اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) وفاقی حکومت کے زیرانتظام ادارے واپڈا نے مجموعی طور پر 16 ہزار 650 میگاواٹ صلاحیت کے 21 پن بجلی کے گمنام منصوبوں کے نام پر قومی خزانے کے ساڑھے 9 ارب روپے سے زائد خرچ ڈالے۔ ان میں سے بیشتر منصوبے صرف اور صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہیں جبکہ وزارت پانی و بجلی کے شعبہ آبی وسائل و بجلی نے بھی متعدد منصوبوں سے لاعلمی کا اظہار کردیا ہے۔ پن بجلی اور آبی وسائل کی تعمیر و منصوبہ بندی کے ادارے واپڈا نے 16 ہزار 650 میگاواٹ مجموعی پیداواری صلاحیت کے جن 21 منصوبوں کے نام پر تحقیق اور ترقی کی مد میں وزارت پانی و بجلی کی آشیرباد سے قومی دولت کے 9543 ارب خرچ کئے ان میں سے متعدد منصوبوں سے نہ صرف متعلقہ وزارت نے لاعلمی کا اظہار کردیا ہے بلکہ ان منصوبوں کے کرہ ارض پر کسی بھی قسم کا عملی وجود نہ ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق واپڈا نے اربوں روپے کی یہ خطیر رقم ان گمنام منصوبوں کی تعمیر کے حوالے سے تحقیق اور منصوبہ بندی کی رپورٹس کی تیاری کیلئے ملکی اور غیرملکی فرموں کی خدمات کے عوض وصول کی گئیں۔ اتنے بھاری اخراجات کے باوجود یا تو کسی منصوبے کی ابتدائی لاگت کے تخمینہ کے متعلقہ وزارت سے منظوری ہی نہ ملی یا پھر صوبہ بلوچستان خیبرپختوانخوا‘ فاٹا اور گلگت بلتستان میں سکیورٹی کی تشویشناک صورتحال کے نام پر ان میں سے اکثر منصوبوں پر آج تک کام ہی شروع نہیں کیا گیا۔ دستاویزات کے مطابق گلگت بلتستان ریجن میں دریائے شیوک پر بننے والے 640 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے پن بجلی منصوبے شیوک ایم کی فزیبلٹی سٹڈی اور ٹینڈرنگ کے نام پر واپڈا اب تک 10 کروڑ 70 لاکھ روپے کے قریب خرچ کرنے کے باوجود یہ منصوبہ شروع نہیں کرسکا۔ گلگت چترال روڈ پر دریائے غذر پر 80 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کے پھندار ہائیڈرو پاور منصوبے کی تیاری کے بغیر ہی 170 کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائن بچھانے کیلئے واپڈا نے 11 کروڑ 90 لاکھ روپے خرچ کئے جبکہ نہ تو مذکورہ منصوبہ آج تک شروع ہوسکا اور نہ ہی ٹرانسمیشن لائن بچھائی جاسکی۔ گلگت بلتستان میں ہی دریائے سندھ کی ذیلی شاخ نالہ لنگما پر 40 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے پن بجلی منصوبے باشو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر واپڈنا نے تحقیق اور منصوبہ بندی کی رپورٹس کی تیاری کے نام پر سات کروڑ روپے خرچ کئے لیکن کاغذات کے مطابق کارکردگی صفر ہی رہی۔
