لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل۵ کے پروگرام ”مرحبا رمضان“ میں گفتگو کرتے ہوئے چیف ایڈیٹر خبریں گروپ، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میری والدہ کی خواہش تھی کہ ان کا کوئی ایک بیٹا عالم دین بنے۔ بدقسمتی سے میں عالم دین تو نہیں بن سکا البتہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ روزانہ شام کو دینی مدرسہ میں ضرور جایا کرتا تھا۔ دسویں جماعت کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ درس نظامی کی تعلیم حاصل کرو۔ یہ دو مختلف نظام تعلیم ہیں اگر شروع سے ہی میں درس نظامی پڑھ رہا ہوتا، کوشش کرتا والدہ کی خواہش کو پورا کرنے کی اور عالم دین بننے کی۔ کراچی، ساہیوال، لاہور، ملتان، بہاولنگر میں مختلف دینی مدارس میں پڑھا، پھر یہ دیکھ کر یہ دو الگ الگ راستے ہیں کامیابی سے چل نہیں سکا۔ والدہ سے کہا کہ آپ مجھے مزید پڑھنے دیں البتہ میں اپنے مضامین عربی زبان، اسلامیات اور تاریخ رکھ لیتا ہوں پھر ان تینوں مضامین میں بی اے کیا، بی اے آنرز بھی کیا، پنجاب یونیورسٹی میں عربی زبان میں فرسٹ بھی آیا گولڈ میڈل بھی حاصل کیا، اس طرح اسلامیات و عربی میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ دین کے دو حصے ہیں پچاس فیصد حقوق اللہ اور پچاس فیصد حقوق العباد ہے۔ اسلام میں حقوق العباد پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اگر حقوق اللہ میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو اللہ معاف کر سکتا ہے لیکن اگر کسی شخص کے ساتھ آپ نے کوئی زیادتی کی ہے تو اس کے معاف کرنے تک اللہ بھی معاف نہیں کرتا۔ حدیث ہے کہ ”سونے سے قبل یقین کر لیں چاروں اطراف 3,3 گھروں میں کون بھوکا، بیمار، کسی گھر میں کنواری بچی تو نہیں جس کا نکاح نہ ہو رہا ہو یا کسی پڑوسی پر قرض تو نہیں۔ اگر حقوق العباد پر پوری طرح عمل کیا جائے تو معاشرہ اس قدر خوبصورت اور سوسائٹی جنت کا نمونہ بن جائے گی۔ اگر حقوق العباد پر زور دینے لگے، پریکٹس و عمل کرنے لگیں تو مسلم معاشرہ سب سے آگے چلے جائے گا۔ دین کی تبلیغ میں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے۔ حضور نے فرمایا کہ ”پھل کھا کر اس کے چھلکے باہر نہ پھینکو تا کہ پڑوسی والوں کے دل میں کہیں یہ دکھ و درد نہ ہو کہ ہمارے پاس یہ نعمت نہیں ہے۔ آپ نے اس بات کا اہتمام کیا کہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں لوگوں کو شریک کرنا ہے۔ حصرت ابوبکر صدیقؓ جب خلیفہ بن گئے تو بھی اپنی گٹھڑی اٹھائی اور کپڑا فروخت کرنے چلے تو لوگوں نے پوچھا آپ کہاں جا رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا اگر کام نہیں کروں گا تو کھاﺅں گا کہاں سے؟ لوگوں نے کہا کہ آپ اب خلیفہ ہیں آپ نے سارا دن اپنے امور مسلمانوں کے حوالے سے انجام دینے ہیں، فیصلے کرنے ہیں اور اہم معاملات میں مشاورت کرنا ہے۔ انہوں نے آپؓ کا وظیفہ مقرر کر دیا۔ آج کے حکمرانوں کے پاس دولت کے انبار دیکھیں، آپ پیسوں کے بغیر اس ملک میں کوئی عہدہ حاصل ہی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ایسے ایسے لوگ ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں اور عمرے کرتے رہتے ہیں۔ ایک جاننے والے شخص ستائیسویں دفعہ عمرے پر جا رہے تھے تو میں نے ان سے کہا کہ جتنا میں نے تھوڑا سا دین پڑھا ہے میرے خیال میں تو آپ عمرے پر جا ہی نہیں سکتے کیونکہ میری معلومات کے مطابق آپ اپنے مرحوم بھائی کے بچوں کو ان کا حق نہیں دیتے، ان کی جائیداد پر قبضہ جما رکھا ہے اور وہ آپ کے خلاف عدالت میں گئے ہوئے ہیں۔ ضیاءالحق کہا کرتے تھے کہ میں اپنی بیٹری چارج کروانے جاتا ہوں انہوں نے کہا کہ میرے عمرے پر جانے سے قبل استادوں نے کہا کہ آپ پر کوئی قرض تو نہیں، میں نے دفتر سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ سب کی تنخواہ بھیج دی ہے۔ اکاﺅنٹنٹ میرے پاس آیا اور بتایا کہ کچھ لوگ اچانک چھوڑ جاتے ہیں، ایک دو دن کی ان کی تنخواہیں رہتی ہیں۔ شرعی طور پر آپ سب کی ادائیگی کر کے عمرے پر جائیں تو پھر ٹھیک ہے۔ لاہور پریس کلب میں شاید پہلا اور آخری موقع تھا کہ 22 لوگوں کی لسٹ لگائی کہ یہ لوگ اپنے پیسے لے جائیں، پھر بھی جو لوگ نہیں آئے ان کے گھروں کے ایڈریس پر ان کے واجبات بھجوا دیئے۔ رات دو بجے میری فلائٹ تھی اور سوا بارہ بجے آخری شخص جس کا گھر صرف مجھے پتہ تھا میں اس کے گھر گیا اور کہا کہ بھائی میں نے عمرہ کرنے جانا ہے آپ کی 3 دن کے تنخواہ میری طرف ہے یہ اپنے پیسے لے لیں۔ ہمارے ہاں یہ تصور بن چکا ہے کہ لوٹ مار کرو، لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرو، قرضے ادا نہ کرو اور بس عمرے کرتے جاﺅ۔ مذہبی بن جاﺅ باقی سب خیر ہے۔ حکمران طبقات سے لے کر بالاتر طبقات تک بہت سارے لوگ ایسے موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک درسگاہ میں وہ پڑھتے تھے، ہمارے ہاں بہت متشددانہ مذہبی نظریات ہوتے ہیں یہی نظریات آگے جا کر طالبان کی شکل اختیار کر گئے۔ استاد بتاتے تھے کہ مخالف نقطہ نظر کا جب جلوس نکلے تو جتنی کنکریاں و پتھر ان پر پھینکو گے تو اتنے سو نفلوں کا ثواب ملتا ہے۔ اس متشددانہ تعلیم نے ہمیں طالبان دیئے۔ انہوں نے کہا کہ جب ایم اے سے فارغ ہو رہے تھے تو ہمارے ایک استاد نے سب لڑکے و لڑکیوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ اگر کوئی شخص آپ سے پوچھے کہ آپ کون سے فرقے سے تعلق رکھتے ہو تو کہو کہ میں ”مسلمان“ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ سابق و موجودہ حکمرانوں سے عام آدمی سوال کرنا ہے کہ ان کے پاس اتنی جائیداد اور پیسہ کہاں سے آ گیا۔ حکومت ہو یا اپوزیشن ہر طرف ایک ہی شور ہے۔ عمران خان نے اتنا بڑا بنی گالہ والا گھر کیوں رکھا ہوا ہے۔ شیخ رشید کی فتح جنگ کی وسیع رقبے پر محیط حویلی میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ لال حویلی کا لاکٹ تو عوام کو دکھانے کیلئے ہے۔ عالم دین علامہ محمد اصغر نے کہا ہے کہ ساری زندگی حقوق اللہ اور حقوق العباد میں تقسیم ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کا حق شروع ہو جاتا ہے۔ اسلام میں کہا گیا کہ ماں دو سال تک اسے اپنا دودھ پلائے۔ باپ اپنی گود میں کھلائے اور جب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے تو والدین اپنی ساری محبتیں و شفقتیں اس پر نچھاور کریں۔ انہوں نے کہا کہ علماءکو جو کام کرنا چاہئے وہ نہیں کر رہے۔ بڑی بدقسمتی ہے کہ امت مسلمہ مختلف فرقوں و گروہوں میں تقسیم ہے۔ اسلام کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ علمائے کرام کو چاہئے کہ لوگوں میں حقوق العباد کے حوالے سے شعور بیدار کریں۔ حقوق العباد میں والدین، بڑوں، تاجر، گاہک وغیرہ بہت سارے حقوق آتے ہیں۔ والدین کے حقوق کے حوالے سے کہا گیا کہ ان پر احسان کرو۔ تحریک انصاف کے رہنما میاں محمود الرشید نے کہا ہے کہ یہ تصور غلط ہے کہ حود غازی پرہیز بن کر معاشرے سے الگ ہو کر بیٹھ جاﺅ۔ حقوق اللہ براہ راست اللہ سے تعلق ہے وہ اللہ معاف بھی کر سکتا ہے، اصل پوچھ گچھ حقوق العباد کے بارے میں ہونی ہے۔ حکومت اگر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا دے، اداروں کو مضبوط کر دے، نظام کو ٹھیک کر دے تا کہ عام آدمی کو بھی ہر جگہ رسائی حاصل ہو یہ بھی حقوق العباد میں آتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی لوگوں کی تربیت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ان میں دینی شعور نہیں ہوتا۔ اگر حکومت جیتے ہوئے لوگوں کی تذلیل کرے اور اس سے شکست کھانے والوں کو فنڈز مہیا کرے تو ایسی حکومت سے کیا امید کی جا سکتی ہے۔ وزیراعلیٰ نے گزشتہ سال بجٹ میں 43 کروڑ روپے اپنے ذاتی اخراجات کے لئے رکھا جبکہ 80 کروڑ روپے خرچ کر لئے گئے۔ یہ خادم اعلیٰ 20 لاکھ روپیہ روزانہ میں پڑ رہا ہے۔ پورا سسٹم عام آدمی کے لئے نہیں ہے۔ مغلیہ دور میں بھی ایسا نہیں تھا کہ ایک گورنر کے پاس ایک ہزار خدام ہوں۔ لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں ایک کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں صرف حکمران خوشحال سے خوشحال تر ہوتے جا رہے ہیں۔ عمران خان کا کوئی لیڈر مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کینسر ہسپتال کوئی نہیں تھا، عمران خان نے بنایا۔مذہبی سکالر احمد چشتی نے کہا ہے کہ حقوق اللہ میں نماز، روزہ، حج، زکوٰة وغیرہ میں جس میں خالق نے خود ہی معافی کا اعلان کر دیا ہے۔ اصل عبادت تو حقوق العباد کا پورا کرنے میں ہے۔ اسلام میں حقوق العباد پر سختی سے زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں اللہ کے حقوق کے علاوہ بندوں کے اور پھر جانوروں کے بھی حقوق ہیں۔ پروگرام میں قرعہ اندازی کے ذریعے اڈا شاہ پور کے محمد ریاض اور راولپنڈی کے محمد عاصم عباسی نے موٹر سائیکل جیت لیا۔ جبکہ گزشتہ قرعہ اندازی میں موٹر سائیکل جیتنے والے محمد ارشد کو ضیا شاہد نے بائیک کی چابی دی۔ تجزیہ کار نے شرکاءسے سوالات و جوابات کا سلسلہ بھی کیا۔