ڈیرہ مراد جمالی(سیاسی رپورٹر) پاکستان کے سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد کو فون کر کے ان کی نئی کتاب زبان اور نسل کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف سازش کی اشاعت پر مبارکباد دی اور کہا ہے کہ میں نے کتاب پڑھی اور بے اختیار جی چاہا کہ آپ کو فون کر کے اپنے جذبات کا اظہار کروں۔ انہوں نے کہا کتاب میں ولی خان سے الطاف حسین تک یوں تو میں سبھی پاکستان مخالف کرداروں سے براہ راست واقف ہوں لیکن رقبے میں سب سے بڑے آبادی میں سب سے چھوٹے مگر نہایت حساس اور بین الاقوامی اہمیت کے حامل صوبے بلوچستان کے معاملات سے شاید سب سے زیادہ واقف ہوں کیونکہ میرا تعلق نہ صرف اس سرزمین سے ہے بلکہ بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کے لئے میرے بزرگوں نے بے انتہا کوشش کی ہے اور میرے چچا میر جعفر خان جمالی اس قافلے کی قیادت کر رہے تھے جس نے کوئٹہ میونسپلٹی میں رائے شماری کے وقت پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کروا ئی تھی جس کے نتیجے میں بلوچستان پاکستان میں شامل ہوا۔ میر ظفر اللہ جمالی نے کہا ضیا صاحب آپ کی کتاب میں تفصیل سے میر جعفر خان جمالی کی جدوجہد کا ذکر ہے اور آپ نے اس باب کا عنوان بلوچستان پاکستان میں کیسے شامل ہوا، رکھا ہے۔ یہ مضمون آپ نے معروف صحافی اور ناول نگار نسیم حجازی کی تحریروں سے لیا ہے جنہیں اُردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر الطاف حسن قریشی نے چھاپا۔ انہوں نے کہا کہ نسیم حجازی اعلیٰ پائے کے صحافی، قلم کار اور تحریک پاکستان کے انتہائی جذباتی کارکن تھے وہ ان دنوں کوئٹہ میں اپنا ہفتہ وار رسالہ نکالتے تھے اور میرے چچا میر جعفر خان جمالی کے سیکرٹری کے طور پر کام کر رہے تھے۔ جمالی خاندان نے ہمیشہ قائداعظم کے ہر اشارے پر لبیک کہا اور پاکستان کے ساتھ شمولیت کے راستے میں جو رکاوٹیں تھیں ان کو مہینوں تک دن رات ایک کر کے دور کیا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں نے جوانی ہی کے زمانے سے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور اپنے خاندان کی روایت کے مطابق مسلم لیگ سے آغاز کیا ،میں بلوچستان کا وزیراعلیٰ بھی رہا اور پاکستان کا وزیراعظم بھی۔ سرحدی گاندھی عبدالغفار خان ہوں، عبدالصمد اچکزئی ہوں یاعطاءاللہ مینگل، خیر بخش مری ہویا غوث بخش بزنجو ان کے سیاسی کردار اور دو قومی نطریے کی مسلسل مخالفت ، زبان اور نسل کی بنیاد پر پہلے صوبائی اختیارات اور پھر سابق صوبہ سرحد میں پختونستان اور بلوچستان میں پختون آبادی کے نام پر افغانیہ کا مطالبہ کیا، میں ان سازشوں سے بخوبی واقف ہوں۔ میر ظفر اللہ جمالی نے کہا کہ ستم یہ ہے کہ آج کے پی کے میں یہ دعوے کئے جاتے ہیں کہ ہم ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے یعنی افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد کو تسلیم نہیں کرتے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم پاکستانی نہیں افغانی ہیں۔ انہوں نے کہا یہ وہی لوگ ہیں جن کے دادا نے مرنے کے بعد بھی افغانستان میں دفن کرنے کی خواہش کی اور جن کے لوگ دو قومی نظریے کی کسی نہ کسی شکل میں آج تک مخالفت کرتے ہیں۔ انہوں نے ضیا شاہد کو ان تمام کرداروں کے چہرہ سے نقاب اٹھانے پر خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ آج کے پی کے ہو یا بلوچستان، پاکستان کے ان مخالفین کی اولادیں۔ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں کہ قائداعظم کے نظریے کے خلاف مقامی عصبیت کو پیدا کر کے اس انتہا تک جا پہنچی ہے کہ بھارت اور اسرائیل کی مدد سے رنگ اور نسل کی بنیاد پر پاکستان سے الگ ریاستوں کے مطالبے ہو رہے ہیں۔ میر ظفر اللہ جمالی نے کہا جو باغی ہو کر پاکستان سے باہر چلے گئے ان کی بات چھوڑیں جو یہاں رہ کر یہ دعوے کرتے ہیں کہ افغانستان سے آنے والے مہاجرین کو واپس بھیجنے کی بات غلط ہے خیبر پختونخوا ہو یا بلوچستان یہ افغان بھائیوں کا اپنا وطن ہے۔ اس مقصد کے لئے بلوچستان میں نئی ریاست افغانیہ کا مطالبہ بھی ہو رہا ہے۔ بعض لوگ جو حکومتوں میں شامل ہیں ان عناصر کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ میر ظفر اللہ جمالی نے کہا کہ میری صحت ٹھیک نہیں رہتی، کمر کی تکلیف کی وجہ سے میں چلتے وقت لاٹھی کا سہارا لیتا ہوں میں قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا مگر میرا قومی اسمبلی میں جانے کو دل نہیں چاہتا کیونکہ اسمبلی کا حال دیکھ کر مجھے رنج ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا لگتا ہے اسمبلی میں کھیل بچوں کے ہاتھ لگ گیا ہے اور میرے جیسے شخص کے لئے جس کے بزرگوں نے پاکستان بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہو پاکستان کو تباہ ہوتے دیکھنا بہت تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے کہا میں زیادہ تر گھر پر رہتا ہوں اور جس طرح کی سیاست ہو رہی ہے وہ میرے لئے ناقابل برداشت ہے۔ اللہ پاکستان کے حال پر رحم کرے کیونکہ ہم قائداعظم کی تعلیمات اور اس عہد سے بہت دور جا چکے ہیں جو ہم نے آزادی کے وقت اپنے لوگوں سے کیا تھا۔ انہوں نے کہا ضیا شاہد صاحب کتاب کے ٹائٹل پر جو تصویریں چھاپی گئی ہیں اور جن کو مخالفین پاکستان قرار دیا گیا ہے ان میں سے ایک تصویر کے انتخاب میں متفق نہیں ہوں اور وہ اکبر خان بگٹی کی تصویر ہے میری خواہش ہے کہ آپ کے پاس لاہور آﺅں اور اکبر بگٹی کے بارے میں تفصیل سے بات کروں کہ ان کی تصویر یہاں چھپنی چاہئے تھی یا نہیں۔ میر ظفر اللہ جمالی نے کہا میں صحت کی خرابی کے باوجود گورنمنٹ کالج لاہور کی تقریب میں آیا تھا اور جہاں میری طرح بہت سے پرانے اور اچھے تعلیمی ریکارڈ کے حامل نمایاں افراد کو بلایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا میں نے 1964ءمیں رول آف آنر حاصل کیا تھا اور اس شہر کے ساتھ میری دلی وابستگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے میری وزارت عظمیٰ کے دوران میرے ساتھ بیرون ملک بھی متعدد سفر کئے اور ہر جگہ آپ سے تبادلہ خیال کا موقع ملا اور آپ کی مشاورت ہمیشہ قابل فخر رہی۔ نسیم حجازی کا ذکر میں نے جس محبت سے کیا میرے دل میں آپ کے لئے بھی ویسی ہی محبت اور خلوص موجود ہے۔ انہوں نے کہا اس کتاب کا ہر باب میرے لئے بہت اہم ہے کیونکہ میں بھی آپ ہی کی طرح پاکستان سے محبت رکھتا ہوں اور دو قومی نظریہ سے عشق میرے خون میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا بچے بڑھے ہو گئے ہیں اور جو انہیں بہتر نظر آتا ہے وہی کرتے ہیں۔ لہٰذا میں اپنی مرضی کسی پر مسلط نہیں کرتا، صرف دو باتیں کہتا ہوں اول یہ بات ذہن میں رکھنا کہ تمہارے بزرگوں اور بڑوں نے قیام پاکستان کے لئے قائداعظم کے سچے اور جانثار سپاہی بن کرجو کیا تھا اس کی لاج رکھنا اور دوسرے آج سیاست میں جو لوٹ کھسوٹ آ گئی ہے اس گندگی سے بچنا کیونکہ تمہارے بزرگوں نے کبھی حرام کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا، پیسے کے لالچ میں کبھی غلط کام نہ کرنا ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان جو اللہ کی رحمت سے مسلمانوں کے لئے آزاد ریاست کی شکل میں قائم ہوا تھا موجودہ بحرانوں سے نکلنے میں کامیاب ہو گا اور عوام کو معاشی و سماجی انصاف اور عدل مل سکے گا۔