لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں، تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ قطری شہزادہ پاکستان کا شہری نہیں وہ آئیں یا نہ آئیں۔ جے آئی ٹی اگر وہاں جا کر کوئی سوال جواب کرنا چاہے تو ضرور کرے۔ اصلسوال ابھی بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ حسین اور حسن نواز پاکستان میں نہیں رہتے۔ قطری شہزادے نے پیسے دئیے یا نہیں دئیے۔ نواز شریف نے جے آئی ٹی میں کیا جواب دئیے ہیں یہ وہی جانتے ہیں۔ شہباز شریف سے وہ کیا پوچھتے ہیں اور وہ کیا جواب دینگے؟ یہ انہیں معلوم ہوگا۔ جے آئی ٹی کا اصل سوال یہ ہے کہ اگر دبئی سٹیل ملز نقصان میں جا رہی تھی اور اس نے بینکوں کے پیسے بھی ادا کرنے تھے۔ اس میں سے اتنے پیسے کس طرح نکل آئے۔ پھر یہ پیسہ قطر چلا گیا اور وہاں سے لندن چلا گیا۔ جس کے عوض ان کو فلیٹ مل گئے۔ اب عدالت کے ذمہ ہے کہ اس پر فیصلہ دے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ ڈان لیکس کا معاملہ اتنا مشکل نہیں تھا اگر اس معاملے میں حکومت ملزم تھی یا فوج ایک پارٹی تھی جو کہتی کہ ہمارے خلاف ایک خبر چھپی جسے انڈیا نے استعمال کیا۔ فوج کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے ایسے معاملات کو بذریعہ وزارت دفاع، کسی پر بھی کیس کر سکتی ہے فوج نے ڈان اخبار پر کیوں کیس نہیں کیا۔ جبکہ ڈان والے کہتے ہیں ہماری خبر بالکل صحیح ہے اور سرل المیڈا کہتا ہے کہ جو خبر دی اس پر قائم ہوں۔ اب تک کسی نے فیصلہ ہی نہیںکیا اب کہتے ہیں کہ اے پی این ایس فیصلہ کرے گی جبکہ اے پی این ایس ایک ٹریڈ یونین ہے اس میں دو بڑے گروپس ہیں۔ جن کی اکثریت ہو گی وہ اس کے حق میں فیصلہ دے دے گا۔ اے پی این ایس عدالت نہیں ہے۔ پرویز رشید، میاںنواز شریف کے قابل اعتماد ساتھی ہیں۔ وہ ان کے میڈیا سیل کے انچارج ہیں۔ اگر انہوں نے خبر لیک میں کوئی کردار ادا بھی کیا تھا تو وہ آج بھی وزیراعظم کے پہلو میں بیٹھے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان پر الزام درست نہیں ہے۔ میں نے چودھری نثار علی خان سے اے پی این ایس اور سی پی این ای کے نمائندوں کے سامنے دوسری بڑی لیکس کا معاملہ اٹھایا اور پوچھا کہ رپورٹ کی ایک کاپی آپ کے پاس تھی۔ دوسری کاپی وزیراعظم ہاﺅس کے پاس تھی، تیسری کاپی کس کے پاس تھی۔ چار روز پہلے گیارہ میں سے سات ٹی وی چینلز پر تمام رپورٹ کے مندرجات سنا دئیے گئے تھے۔ تین دن پہلے تمام اخبارات میں اس کی تفصیل آ گئی تھی۔ رپورٹ منظر عام پر آئے بغیر تمام اخباروں میں آ گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ کمپوزر نے دو کاپیاں رکھ کر ٹائپ کی۔ ایک وزارت خارجہ کو دے دی دوسری نشریاتی اداروں کو دے دی۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا دو فریقین میں لڑائی ہو رہی ہو تو عقل ماری جاتی ہے۔ یہ لڑائی اب اوپن ہو چکی ہے سیاسی جنگ جو اب قانون جنگ بن چکی ہے، اسے ذاتی جنگ نہ بنایا جائے اور جھگڑے کا فیصلہ عدالت پر چھوڑ دیں تو بہتر ہے ورنہ لڑائی مار کٹائی سے تو خانہ جنگی کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ میں نے دانیال عزیز کے والد انور عزیز سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا سیاسی دور گزر چکا۔ ہمارے دور میں ایسی محاذ آرائی میں بھی اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا جاتا تھا لیکن اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ آج کی سیاست میں ایک کا جواب دو سے دو کا جواب تین سے دیا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں صبر ہی بہتر ہے۔ تاہم میں نے انہیں کہا کہ اپنے بیٹے سے کہیں کہ اپنی زبان پر کچھ کنٹرول رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ خورشید شاہ بھی بادشاہ ہیں، نواز شریف شیر ہیں تو وہ چیتا ہیں۔ وہ جو چاہیں کہہ سکتے ہیں۔ خورشید شاہ صاحب نے یوسف رضا گیلانی کے زمانے کی بات کی ہے جب میاں نواز شریف نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ آپ کے خلاف الزامات ہیں لہٰذا استعفیٰ دے کر عدالت میں پیش ہوں۔ جے آئی ٹی پر الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ وہاں سے باتیں لیک ہو رہی ہیں۔ ایک ٹی وی چینل نے نواز شریف کے سارے سوال جواب نشر کر دئیے ہیں۔ یہ جھوٹ ہے یا سچ اس کی تردید ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بغیر کوئی چینل کس طرح یہ کارروائی اوپن کر سکتا ہے؟ مسلم لیگ ن کے زعیم قادری نے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ میاں فیملی کی خاصیت ہے کہ وہ آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ اسی لئے میاںنواز شریف جے آئی ٹی میں پیش ہوئے اور اب میاں شہباز شریف پیش ہونے جا رہے ہیں۔ وہ ان کے تمام سوالوں کے جواب بھی دیں گے اور دیگر ضروری دستاویز بھی فراہم کریں گے۔ شہباز شریف نے اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کو منع کیا ہے کہ وہ اسلام آباد نہ آئیں تاکہ ایسا پیغام نہ جائے کہ جے آئی ٹی کو پریشرائز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اس بات کی پابند ہے کہ وہ اندر ہونے والی کارروائی کو خفیہ رکھے۔ ہمارے پہلے دن سے عدالت کے ساتھ یہی تحفظات ہیں۔ سربمہر لفافے عدالت میں پہنچنے سے پہلے تحریک انصاف کے ہاتھ کیسے لگ جاتے ہیں جبکہ فواد چودھری ٹی وی چینلز پر جو دستاویز دکھاتے ہیں اس پر جے آئی ٹی کے دستخط بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہی بات ہم سپریم کورٹ سے کہہ رہے ہیں کہ جے آئی ٹی نے اگر یہ روش تبدیل نہ کی تو وہ اپنے آپ کو متنازعہ بنا لے گی۔ ہم نے سپریم کورٹ کو یہی کہا کہ جے آئی ٹی کے بارے میں تحفظات ہیں ہم نے نہ اس کا بائیکاٹ کیا اور نہ اسے ماننے سے انکار کیا۔ تحریک انصاف کے رہنما نذر محمد گوندل نے کہا کہ میاں نواز شریف نے یوسف رضا گیلانی کو کہا تھا کہ ان کا اخلاقی جواز ختم ہو گیا ہے لہٰذا وہ استعفیٰ دیکر مقدمے کا سامنا کریں۔ اب یہ افسوس کی بات ہے کہ ملک کا چیف ایگزیکٹو گریڈ 19 اور 18 کے افسروں کے سامنے پیش ہو رہا ہے۔ انہیں چاہیے یہ تھا کہ استعفیٰ دے کر عام شہری کی حیثیت سے پیش ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کو اپنی سیاست کےلئے پلیٹ فارم کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی سیاست کر سکے۔ سب سے اچھا احتساب اور امتحان الیکشن ہوتا ہے اور جب تک الیکشن شفاف نہیں ہونگے، لوگوں کی رائے کا احترام نہیں کیا جائے گا، حالات بہتر نہیں ہونگے۔ لوگوں کی رائے کا احترام کرنا ضروری ہے۔