تازہ تر ین

بے نظیر بھٹو بہادر خاتون،عوامی سیاست بھی ان کے ساتھ ختم ہوگئی، نامور اخبار نویس کی چینل ۵ کے براہ راست پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو عہد جوانی میں سیاست میں آئیں۔ وہ بہت بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔ بینظیر بھٹو جب سیاست میں آئیں انہیں فوری دو مسائل کا سامنا تھا۔ ایک تو ان کے والد کال کوٹھڑی میں تھے دوسرے انہوں نے اپنی والدہ کو سنبھالنا تھا۔ دونوں ماں بیٹیاں سہالہ کیمپ سے آتی تھیں اور جیل میں ملاقات کرتی تھیں۔ کراچی میں جب بی بی شہید ایئرپورٹ سے باہر آئیں تو بلٹ پروف شیشہ چھوڑ کر سامنے آ گئیں۔ مجھے دبئی سے آصف علی زرداری کا فون آیا کہ دیکھیں ضیا صاحب کیا ہو رہا ہے۔ اس وقت ان کے کارواں پر حملہ ہو چکا تھا۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ بی بی کے ساتھ کیوں تشریف نہیں لائے۔ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اجازت نہیں تھی۔ آصف زرداری نے کہا کہ بی بی کا حکم ہے جب تک پاکستان میں الیکشن نہ ہو جائیں آپ یہاں نہیں آئیں گے۔ جب وہ کراچی ایئرپورٹ سے باہر آئیں۔ شیشے کے کیبن کی بجائے اوپن لوگوں کو ہاتھ ہلا کر جواب دے رہی تھیں۔ انہیں پہلے بھی تھریٹ تھے۔ پرویز مشرف حکومت نے انہیں بارہا آگاہ کیا تھا۔ ان کی جان کو خطرہ تھا۔ میں نے کراچی آفس فون کر کے کہا کہ پیپلزپارٹی کا اہم بندہ تلاش کر کے بی بی کو محفوظ جگہ بیٹھنے کا مشورہ دو جب ان پر حملہ ہو چکا تو دو گھنٹے بعد آصف زرداری صاحب نے مجھے فون کیا میں نے پوچھا آپ ساتھ نہیں آئے۔ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اجازت نہیں تھی۔ میں نے کہا کہ آپ بحیثیت شوہر انہیں زبردستی محفوظ جگہ پر بھیج سکتے تھے۔ انہوں نے جواب دیا وہ کسی کی نہیں مانتی۔ اس کے بعد جب راولپنڈی کا واقعہ ہوا۔ مجھے وہ مناظر کبھی نہیں بھول سکتے بی بی پُرجوش انداز میں لوگوں کو ہاتھ ہلا ہلا کر ان کے نعروں کے جواب دے رہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے بیٹوں کی نسبت بینظیر بھٹو کو سیاست کے لئے زیادہ موزوں سمجھتے تھے۔ یقینا ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ ان کی سیاسی وارث بی بی ہی ہو سکتی ہیں۔ بھٹو صاحب انہیں لے کر شملہ معاہدے میں گئے۔ اندراگاندھی کے ساتھ بات چیت میں بھٹو کے ساتھ بی بی شہید موجود تھیں۔ تمام وقت ساتھ ہی رہیں۔ میں نے ان کے تین انٹرویو کئے۔ ان سے اکیلے میں بھی بہت ملاقاتیں ہوئیں۔ بطور وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر انہوں نے اپنے کردار کا لوہا منوایا۔ بی بی شہید ”دختر مشرق“ اور بہترین ”ماں“ بھی تھیں۔ میں نے دبئی میں انہیں ایک اچھی ماں کے روپ میں دیکھا۔ میں پیپلزپارٹی کا سپورٹر نہیں رہا بلکہ ان کے مخالف کی حیثیت سے میں نے اپنے اخبار بھی بند کروائے جیلیں بھی کاٹیں۔ اس کے باوجود بھٹو صاحب کے رول کو میں بہت اہم سمجھتا ہوں۔ کیونکہ وہ عوامی رہنما تھے۔ انہوں نے عام آدمی کو کامیاب کروا کر اسمبلی میں بھیجا۔ دبئی میں جب بی بی اپنے بچوں کے ہمراہ مقیم تھیں۔ میں بھی وہاں تھا۔ (مرحوم) عدنان بھی میرے ساتھ تھے۔ تب بی بی نے پیغام بھیجا کہ ضیا شاہد یہاں آکر میرے ساتھ چائے پئیں۔ ہم ان کے گھر پر گئے۔ تقریباً پونا گھنٹہ ہم ساتھ رہے۔ بی بی نے پاکستان کے حال چال پوچھنے کے بعد ان کی تمام تر توجہ عدنان (مرحوم) کی طرف رہی۔ جنہوں نے واپس آ کر انگریزی اخبار ”دی پوسٹ“ نکالا۔ بی بی بار بار مجھے کہتی رہیں کہ آپ کے بیٹے کو دیکھ کر مجھے اپنا بیٹا یاد آ رہا ہے۔ انہوں نے محبت بھرے انداز میں بلاول بھٹو کا ذکر کیا۔ وہ عدنان سے پوچھتی رہیں کہ کتنی تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے عدنان سے پوچھا! بتاﺅ! ہم لوگوں سے کون سی غلطیاںہوئیں۔ جن سے سبق سیکھ کر ہمیں آئندہ ان سے بچنا چاہئے۔ پھر انہوں نے پلٹ کر مجھ سے کہا۔ میرے ملاقاتی صرف پیپلزپارٹی کے کارکن ہوتے ہیں لیکن میں عدنان سے سچ سننا چاہتی ہوں۔ مجھے نوجوان بچوں کی رائے سے بہت خوشی ملتی ہے۔ اس دن میں نے ایک شفیق اور مہربان ماں کے روپ میں بینظیر بھٹو کو دیکھا بی بی اپنے نوجوان کارکنوں کو بھی اپنی اولاد کی طرح سمجھتی تھیں۔ احتساب سب کا ہونا چاہئے۔ نوازشریف کا احتساب ہو رہا ہے اب عمران خان کا بھی احتساب ہو گا۔ ان کے بہت سے معاملات سامنے آ چکے ہیں اور اب تو سپریم کورٹ میں بھی ان کے خلاف مقدمات پہنچ چکے ہیں۔ جاوید ہاشمی صاحب ہمارے پرانے دوست ہیں۔ ہم نے ان کے پرانے الیکشن بھی دیکھے ہیں۔ لیکن اس وقت وہ ایک متنازعہ شخصیت بن گئے ہیں۔ وہ پہلے ن لیگ میں تھے پھر وہ تحریک انصاف میں چلے گئے۔ پھر وہ تحریک انصاف سے باہر نکل آئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو ایک نازک وقت پر چھوڑا۔ انہوں نے عمران خان کا ساتھ اس وقت چھوڑا جب وہ حکومت سے فائٹ کر رہے تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ وہ فوج کے ساتھ ساز باز کر رہے ہیں۔ لگتا ہے ان کے ہاں صرف یہی ایک مصالحہ رہ گیا ہے کہ تھوڑے دنوں بعد وہ عمران کے خلاف کوئی نعرہ مار دیتے ہیں۔ کبھی وہ تحریک انصاف میں چلے جاتے ہیں آج کل ن لیگ کی طرف جھک رہے ہیں۔ میڈیا کو تو بہانہ چاہئے ہوتا ہے۔ آپ کوریج کے لئے ایسے ایسے طریقے اختیار کرتے رہیں گے۔ جاوید ہاشمی کس کے باغی ہیں۔ آپ نے کونسی بغاوت کی ہے۔ فوج سیاسی طور پر آپ کے خلاف جا رہی ہو تو آپ باغی کہلاتے ہیں۔ مشرف کی فوج اگر ایکشن کرے تو اس کا ایکشن درست نہیں۔ جب آپ کے نظریات کے خلاف جائے تو آپ باغی بن جاتے ہیں۔ ضیا الحق آپ کو بغیر منتخب ہوئے وزیر بنا دیں تو وہ ٹھیک ہے۔ ضیاءالحق نے منتخب وزیراعظم بھٹو کو گرفتار کر لیا تھا۔ وہ کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ آپ اس کے زرخرید غلام تھے۔ آپ اس کے پاس نوکری کرتے تھے۔ آپ کے پاس ٹورازم کی وزارت تھی۔ آپ خوش تھے۔ ضیاءالحق کے ایک فون پر آپ نے تحریک انقلاب چلانے سے معذرت کر لی اور آپ کی ساری بہادری دھری رہ گئی۔ ضیاءالحق کے دس سالہ دور میں آپ نے فوج کے خلاف کوئی جلوس نہیں نکالا۔ پرویز مشرف آپ کی سیاسی پارٹی کے خلاف تھے۔ پہلے آپ نے اس کے خلاف نعرہ مستانہ لگا دیا۔ عمران خان کے خلاف دانیال عزیز اور طلال چودھری نے زیادہ مو¿ثر انداز میں تقریریں کی ہیں۔ عابد شیرعلی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آپ نے ان کے پاسن برابر بھی نہیں ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی ناہید خان نے کہا آج بی بی کی سالگرہ کا دن ہے۔ ہمارے دلوں میں خوشی کے ساتھ ساتھ غم اور دکھ بھی بھرے ہوئے ہیں کیونکہ آج وہ ہم میں نہیں ہیں۔ 27 دسمبر کو بی بی شہید جب راولپنڈی پہنچی تو وہ اس وقت بہت خوش اور پرجوش تھیں۔ اپنے کارکنوں کو سپورٹروں کو ہاتھ ہلا ہلا کر جواب دے رہی تھیں۔ میں اور مخدوم امین فہیم وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ بی بی نے پہلے امین فہیم سے بات کی پھر مجھ سے کہنے لگیں۔ کیا تم ان دو درختوں کے درمیان دیکھ رہی ہو؟ میں نے پوچھا کونسے دو درخت، انہوں نے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے جواب دیا کہ مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ انہوں نے کہا مخدوم امین کو بھی کچھ نظر نہیں آ رہا۔ انہوں نے کہا کہ شاید کراچی جا کر مجھے آنکھیں ٹیسٹ کروانی ہونگی۔ جب پشاور میں جلسے کے دوران بمبار پکڑے گئے تو انہوں نے کہا کہ یہ مجھے بمبوں سے ڈرانا چاہتے ہیں۔ ” شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے“ ۔ راولپنڈی میں تقریر کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ زرداری منع کرنے کے باوجود آنا چاہتے ہیں انہیں روکیں۔ بی بی اتنی خوش تھیں کہ انہوں نے ”کس“ کیا۔ صفدر نے ان کا جوش دیکھ کر کہا کہ بی بی کچھ کریڈٹ مجھے بھی دے دیں۔ میں نے بھی بہت محنت کی ہے۔لیکن انہوں نے کہا کہ ناہید نے جلسے کےلئے بہت محنت کی ہے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میاں صاحب سے فون ملا دوں۔ ان کے کچھ کارکن فائرنگ میں زخمی ہوئے تھے۔ میں نے فون ملایا۔ انہوں نے کہا ٹھہر جاﺅ۔ اندھیرا ہو رہا تھا۔ کارکن گاڑی کے بونٹ پر چڑھ گئے تھے۔ انہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ بی بی خود کھڑی ہوئیں۔ اور ”جئے بھٹو“ ، ”وزیراعظم بینظیر“ کے نعرے لگوائے۔ باہر اندھیرا تھا۔ شیشے سے باہر دکھائی نہی دے رہا تھا کہ اچانک فائرنگ ہوئی میں سمجھی شاید پٹاخے چلے ہیں۔ اچانک فائرنگ بڑھی اور کوئی چیز میری گود میں آ کر گری۔ بی بی خون میں لت پت میری گود میں پڑی تھیں۔ صفدر ان کی نبض دیکھ رہے تھے۔ کہ ا چانک بلاسٹ ہو گیا۔ ڈرائیور نے کہا ایک ٹائر پھٹ گیا ہے۔ ہم نے کہا گاڑی ہسپتال کی طرف دوڑاﺅ۔ تیزی سے ہسپتال کی طرف نکلے۔ گاڑی بند ہوگئی۔ پیچھے شیری رحمان کا ڈرائیور گاڑی لے کر آ گیا ہم نے بی بی کو اس میں بٹھایا۔ اس حالت میں ہم ہسپتال پہنچے۔ بالکل بے یارو مددگار، کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ مجھے یہ سین کبھی نہیں بھولتا، ہم مخدوم امین فہیم کی گاڑی میں بیٹھے تھے بی بی شہید میرے ایک جانب بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہم نے بی بی کو بہت روکنے کی کوشش کی اس مرتبہ بھی انہیں بتایا گیا تھا کہ انہیں لائف تھریٹ ہے۔ انہوں نے کہا میرا جینا مرنا پاکستانی عوام کے لئے ہے۔ اتنے تھریٹ کے باوجود وہ پاکستان آئیں۔ 27 دسمبر کو انہیں کوئی سکیورٹی نہیں دی گئی۔ جیمرز کام نہیں کر رہے تھے۔ سابق وزیراعظم ہونے کے باوجود انہیں سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی تھی۔ بار بار خط لکھنے کے باوجود مشرف حکومت نے بی بی کو کوئی سکیورٹی فراہم نہیں کی۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain