لاہور (سیاسی رپورٹر) پاکستان کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ نہ کوئی ن ہے نہ ق نہ کوئی پے اور نہ کوئی دوسرا دھڑا۔ پاکستان مسلم لیگ جو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے اس کا صدر ہوں۔ وہ عید سے اگلے روز ٹرو کے دن ٹی وی چینل۵ کے پروگرام ضیاشاہد کے ساتھ میں گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کے خلاف فیصلہ آیا تو ن لیگ ایک آندھی میں اڑنے والے پتوں کی طرح بکھر جائے گی اور ان کے خاندان کے چند ذاتی بہی خواہوں کے ساتھ اکثر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میری صدارت میں بننے والی مسلم لیگ میں واپس آ جائینگے۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کی کارکردگی کے حوالے سے چند سوالوں کے جواب میں چودھری شجاعت نے کہا کہ کیا مثبت کام کیا ہے شہباز صاحب نے صحت کے میدان میں پنجاب کے عوام سخت پریشان ہیں تعلمی اداروں میں بالخصوص ستیاناس ہوچکا ہے کسان سب سے بڑے صوبے پنجاب کے آبادی 70% فیصد بدحال ہے۔ زراعت کھوہ کھاتے میں چلی گئی لٰہذا فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں پنجاب میں مظاہروں کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان سے پوچھا گیا دھرنوں کے دوران آپ عمران خان اور طاہرالقادری سے بہت ملاقاتیں کرتے رہے۔ آپ بتائیں جب عمران اور قادری نے پارلیمنٹ ہاﺅس میں قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ وزیراعظم ہاﺅس میں گھیراﺅ کیا اور پی ٹی وی پر قبضہ کر لیا ہے تو عمران خان کا یہ کہنا کہ امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے کا کیا مطلب تھا جبکہ تحریک انصاف کے صدر نے یہ الزام لگا کر کہ دھرنے کے ذریعے مارشل لاءلگانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کی سیاستدان اجازت نہیں دے سکتے۔ چودھری شجاعت نے کہا یہ بہت لمبی بحث ہے پھر کسی وقت جواب دونگا۔ بھارتی جاسوس کے بارے میں بھی انہوں نے کہا کہ نیپال میں اغوا کئے جانے والے پاکستانی کرنل سے کلبھوشن کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے تو ق کے صدر نے کہا مجھے اس مسئلے پر عبور نہیں اس لئے جواب نہیں دونگا۔ انہوں نے کہا کہ 2008ءکے الیکشن میں پہلے ہی فیصلہ ہو گیا تھا کہ بینظیر بھٹو وزیراعظم بنے گی اور پرویز مشرف صدر چودھری صاحب نے کہا کہ ہم بھی انہیں صدر رکھنے کو تیار تھے۔ یہ فیصلہ امریکہ میں ہواتھا اور این آر ا و کے ذریعے پیپلز پارٹی کے عہدیداروں کو ورکروں کے علاوہ بڑی تعداد میں مجرموں کو رہائی مل گئی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ مجھے ایوان صدر سے فون آیا کہ آپ کی سیٹیں کم آ رہی ہیں صبر و تحمل سے برداشت کرنا میں نے کچھ پوچھنا چاہا تو صدر نے رسیور بریگیڈئر اعجاز شاہ کو دے دیا۔ جو وفاقی بیورو کے چیف تھے) جنہوں نے مجھے یہ پیغام دیا کہ آپ اپنی ہار تسلیم کریں اور مسائل نہ پیدا کریں ورنہ آپ کے لئے اچھا نہ ہوگا۔ چودھری شجاعت سوال پوچھنے کی ا س رائے سے اتفاق کیا کہ جنرل مشرف کی سب سے بڑی غلطی تھی اور اس غلطی کا خمیازہ ہمیں ہی نہیں خود جنرل پرویز مشرف کو بھگتنا پڑا۔ جب چودھری شجاعت سے یہ پوچھا گیا کہ آخر پرویز مشرف آپ سے ناراض کیوں ہوئے آپ بھی انہیں صدر رکھنا چاہتے تھے تو انہوں نے کہا امریکن دباﺅ تھا اور بے نظیر بھٹو کے حق میں فیصلہ ہو چکا تھا۔ پانامہ لیکس کے بارے میں موجود عدالتی کاروائی کے بارے میں جب چودھری شجاعت سے پوچھا گیا کہ آپ ن لیگ کے پنجاب کے صدر تھے اور برسوں جناب نواز شریف دست راس رہے۔ انہوں نے کہا بارہ سال تک ان کے ساتھ کام کیا لیکن اقتدار سے علیحدگی اور ہائی جیکنگ کیس کے بعد وہ وہ سعودی عرب چلے گئے اور دس سال سیاست نہ کرنے کا معاہدہ کر لیا تو ہمارے خیال میں پاکستان مسلم لیگ کو بچانا ضروری تھا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آخری فیصلہ تو سپریم کورٹ ہی دے گی۔ لیکن بظاہر لگتا ہے میاں صاحب اور اہل خانہ ججوں کے سامنے کوئی صفائی نہیں دے سکے دو جج پہلے ہی ان کے خلاف فیصلہ دے چکے تین نے کہا مزید تحقیق کے لئے جے آئی ٹی قائم کی جائے۔ سپریم کورٹ کے پاس میاں صاحب کو صاف بری کرنا مشکل ہوگا۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا میاں صاحب کے کبوتر اڑ جائیں گے تو انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ہمارے درخت کی شاخوں میں پناہ لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ میں پہلی دفعہ منتخب وزیراعظم کی مبینہ کرپشن پر فیصلہ دینا ہے۔ کرپشن کے خلاف 80 فیصد کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے۔ 5 فیصد شیخ رشید کو 5 فیصد جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کو باقی 10 فیصد آزاد میڈیا نے تحریک یہاں تک پہنچائی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ ہو یا پگاڑہ صاحب کی مسلم لیگ ہم سب اندر سے ایک ہیں اور موجودہ حکمرانوں کے خلاف صف آراءہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ آپ کو تین سال تک وزیراعظم رہنے کا موقع ملا آپ نے کونسا ایسا کام کیا جسے آپ اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا صرف 90 دن میں میں نے دو کام کئے جن پر آج تک اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اول کوئی پاکستانی بیرون ملک فوت ہو جاتا تھا تو ائیر لائنز واپس وطن نہیں پہنچاتی تھیں۔ ہم نے سختی سے قانون منظور کروایا کہ جہاں کہیں دنیا میں پاکستانی فوت ہو گا تو پی آئی اے کی ذمہ داری ہو گی کہ اس میت فری وطن تک پہنچائی جائے۔ دوسرا سڑک پر ٹریفک حادثہ ہو جاتا تھا تو زخمیوں کو ہسپتال میں داخلہ نہیں ملتا تھا چونکہ قانون یہ تھا کہ پہلے پولیس میں پرچہ درج کراﺅ اس طرح کئی جانیں ضائع ہو جاتی تھیں۔ میں نے یہ پابندی ختم کروا دی جو آج تک موجود ہے اور زخمیوں کو بغیر پولیس رپورٹ کے فوراً آپریشن تھیٹر پہنچایا جاتا تھا۔