لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عمران خان نے یوٹرن نہیں لیا جب جے آئی ٹی بنی تھی تو 99 فیصد عوام کا خیال تھا کہ سرکاری ملازمین وزیراعظم سے کیا تفتیش کر سکتے ہیں۔ پھر یہ خبریں بھی آئیں کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کیلئے فراہم کردہ ناموں کی لسٹ میں سے کچھ نام مسترد بھی کئے اور سوچ سمجھ کر جے آئی ٹی تشکیل دی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف اپنے جوابات سے جے آئی ٹی کو مطمئن نہیں کر سکے۔ حتمی فیصلہ عدالت نے دینا ہے لیکن ججز کے خوفناک ریمارکس ہیں کہ ”نوازشریف منی ٹریل کے سلسلے میں 50 جوابات نہیں دے سکے، آمدنی و اخراجات میں فرق ہے اور جھوٹ پر مبنی جوابات دیئے گئے۔“ اس کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ کے جج حضرات بھی مطمئن نہیں ہیں۔ نوازشریف کو بار بار دامن صاف ہونے کا بیان دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، عملی صورتحال اس سے مختلف ہے۔ اگر میں ان کا مشیر ہوتا تو مشورہ دیتا کہ میاں صاحب جلدی فیصلہ کریں اورجے آئی ٹی کے وجود کو چیلنج کریں۔ انہوں نے کہا کہ چودھری نثار کا کیا چکر ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کے بارے میں متضاد خبریں آ رہی ہیں، کبھی کہا جاتا ہے کہ ناراض ہیں تو کبھی ان کو منا لینے کی خبر آتی ہے۔ چودھری صاحب کو اس آنکھ مچولی کے کھیل پر خود ہی وضاحت کر دینی چاہئے۔ کون سی مصروفیت تھی کہ پارلیمانی پارٹی میں نہیں گئے؟ اگر گئے تھے اورجنگ گروپ کے بارے میں غلط خبریں شائع کرنے کا گلہ کیا تھا تو عدالت میں کیس کیوں نہیں کرتے؟ڈان لیکس کے معاملے پر بھی آج تک ”روزنامہ ڈان“ کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا، فوج نے بھی نہیں کیا۔ ڈان والے میرے دوست ہیں ان کے خلاف نہیں ہوں لیکن یہ ایک ٹیکنیکل بات ہے۔ بندوق کا رُخ کسی طرف اور لڑائی کسی سے کی جاتی ہے، سمجھ میں نہیں ااتا کہ مسئلہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نون لیگ کے موجودہ دور میں چودھری نثار کو کبھی بھی وزیراعظم کے قریب نہیں سمجھا جاتا۔ خواجہ آصف، اسحاق ڈار، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، خرم دستگیر، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال و عابد شیر علی وغیرہ کو وزیراعظم کا قریبی سمجھا جاتا تھا۔ یہ گروپ چودھری نثار کو پسند نہیں کرتا تھا، ان کے مقابلے میں وہ بالکل اکیلے تھے۔ میں خود چودھری نثار سے تصدیق کر چکا ہوں کہ ان کی ساڑھے 4 ماہ پہلے تک وزیراعظم سے بول چال بھی نہیں تھی پھر رائے ونڈ میں مک مکا ہوا تھا۔ ابھی بھی چودھری نثار دوسری طرف ہیں۔ جب نوازشریف جدہ میں جلا وطنی کاٹ رہے تھے یا لندن میں تھے تو اس وقت چودھری نثار نے مشرف و پی پی دور میں بڑی بہادری کے ساتھ نون لیگ کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں لیکن نوازشریف شاید ان کو نہیں چاہتے تھے۔ اس طرح جاوید ہاشمی کو بھی نوازشریف نے کبھی پسند نہیں کیا۔ جب وہ وزیر صحت تھے تو وزیراعظم سے ایک ملاقات کے لئے چکر پر چکر لگاتے رہتے تھے، اب آ کر روئے ہیں کہ نوازشریف مجھے پسند نہیں کرتے تھے اور یہ بھی الزام لگایا کہ 3 وزراءنے ان کی پٹائی کی تھی۔ خواجہ آصف اور رانا تنویر کا نام لیا مگر تیسرے وزیر کا نام نہیں لیا ان کا نام بھی بتانا چاہئے۔ جاوید ہاشمی کے الزام کی وزراءنے تردید بھی نہیں کی۔ جاوید ہاشمی نے اتنی قربانی دی، عین وقت پر عمران خان کو بھی چھوڑا اور اب مایوس ہو کر الزامات لگا دیئے۔ انہوں نے کہا کہ فضل الرحمن پر حکومت میں فٹ ہو جاتے ہیں۔ ایک اینکر پرسن کے مطابق ان کی 4 فائلیں ابھی بھی وزیراعظم کے دستخط کے لئے ان کی میز پر موجود ہیں تا کہ بڑے پراجیکٹس کے لئے بڑی رقم مل جائے پھر دیکھیں گے کہ کدھر جاتا ہے لیکن میرے خیال میں وہ پھر بھی ادھر ہی رہیں گے کیونکہ عمران خان سے ان کو کچھ نہیں ملنا۔ ایوب خان کے زمانے میں فضل الرحمن کی پارٹی کے سربراہ مولانا غلام غوث ہزاروی تھے، یہ پارٹی ایوب خان کے خلاف تھی۔ ایوب خان نے پارٹی کے ہر فرد کو 50 لاکھ روپے دیئے اور غلام غوث ہزاروی کو مدرسے کی دینی امداد کا کہہ کر رقم دی گئی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔ اخبار گواہ ہیں اس کے بعد ہزاروی نے کہا کہ میں ضرور محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کرتا لیکن اسلام میں خاتون کی سربراہی جائز نہیں لہٰذا ایوب خان کی حمایت کریں گے، یہ دینی امداد کا نتیجہ تھا۔ مولانا فضل الرحمان کی ذہانت کا قائل ہوں وہ بڑی لوجیکل بات کرتے ہیں۔ نوازشریف کی مخالفت نہیں کریں گے لیکن اگر کل وہ ان کے خلاف ہو گئے تو بھی ایسی دلیلیں دیں گے کہ سب واہ واہ کریں گے۔ فضل الرحمن نے نوازشریف کو ڈٹے رہنے کا مشورہ اپنے مفاد میں دیا، اسی میں ان کو فائدہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے دائیں بائیں کوئی عقلمند نظر نہیں آتا۔ جب جے آئی ٹی بنی تھی تو اس وقت اسے چیلنج کرنا چاہئے تھا۔ پہلے پیش ہوتے رہے اب کہتے ہیں کہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ وزارت خارجہ کی جانب سے یو اے ای کو وزیراعظم نوازشریف کا فون سننے کے لئے لکھے گئے خط کی خبر پر انہوں نے کہا کہ دوست ممالک سے درخواست ہے کہ مدد کریں یا نہ کریں لیکن ہمارے منتخب وزیراعظم کی بات ضرور سن لیں۔ ماہر قانون دان خالد رانجھا نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کو نہ ماننے والی باتاب نہیں کی جا سکتی۔یہ اس فیصلے کا حصہ ہے جس میں 2 ججز نے نوازشریف کو نااہل قرار دیا۔ وزیراعظم کو اگر جے آئی ٹی رپورٹ میں کوئی چیز ناگوار گزری ہے تو عدالت میں اس پر اعتراض اٹھا سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف پٹیشن دائر نہیں کی جا سکتی۔ تحریک انصاف کے رہنما چودھری سرور نے کہا ہے کہ ملک کا بنیادی مسئلہ کرپشن ہے جو کینسر بن چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی جدوجہد کرپشن کے خلاف ہے۔ وزیراعظم کے احتساب پر بھی بات ختم نہیں ہو گی۔ کرپشن میں ملوث ہر فرد کا احتساب ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جب احتساب شروع ہو جائے گا تو اس کا مطلب ہے کہ کرپشن فری نئے پاکستان کی شروعات ہو گئی۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ جلدی فیصلہ سنا دے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف ملک میں اپنے دوستوں اور اتحادیوں سے اخلاقی و سیاسی مدد مانگ سکتے ہیں لیکن دنیا کا کوئی بھی ملک یا حکمران پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ وزیراعظم و فضل الرحمن اس عمر میں بھی اخلاق نہیں سیکھیں گے تو کب سیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں انتخابی دھاندلی کے خلاف کئے جانے والے احتجاج پر 245 افراد کے خلاف مقدمہ ہے۔ جس میں عمران خان، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور شیخ رشید بھی شامل ہیں۔ ہمارا موقف ہے کہ سیاسی احتجاج کو دہشتگردی کے زمرے میں نہیں لیا جا سکتا۔ جس کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ اگر احتجاج پر دہشتگردوں کی طرح سلوک کرنا چاہتے ہیں تو ہم گرفتاری دینے کو تیار ہیں۔ احتجاج ہمارا حق ہے اس کو دہشتگردی ماننے کو تیار نہیں۔ آئین کے تحت ہر شخص کو احتجاج کرنے کا حق ہے۔
