لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ آج کا میڈیا آزاد ہے لیکن ملکی معاملات کے اہم کیسز میں اس کا اپنے جانب سے فیصلہ دے دینا مناسب نہیں۔ آج سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب نے یہ ریمارکس دیئے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہم جے آئی ٹی کی رپورٹ کو من و عن قبول کریں۔ شاید ان کا کہنا یہ تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کوئی فیصلہ نہیں ہے۔ کورٹ حق رکھتا ہے کہ اس کی رپورٹ کو من و عن قبول کرلے یا جزیات کو مسترد کردے یا تمام کو مسترد کردے۔ محترم جج صاحبان آزاد ہیں جو چاہیں فیصلہ دے سکتے ہیں۔ نوازشریف صاحب کی طرف سے یہ اعتراز اٹھایا ہے کہ ہمارے خلاف یہ سازشیں چار سالوں سے ہورہی ہیں۔ جے آئی ٹی نے تو صرف ترتیب دے کر اسے پیش کیا ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ اتنی مختصر مدت میں جتنی تیزی سے آئی ہے وہ واقعی حیران کن ہے کیونکہ اتنی مختصر مدت میں تمام چیزوں کو جمع کرنا اور اس طرح تیار کرنا اور وقت مقررہ پر جمع کروانا سمجھ نہیں آتا۔ رپورٹ جس طرح بھی آئی اتنے زیادہ ثبوتوں کی موجودگی میں میاں نوازشریف کو کلین چٹ ملنا اب مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی ٹیکنیکل پوائنٹ اس میں موجود ہو لیکن دکھائی نہیں دیتا ہمارے ججز بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور حالات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل غفور صاحب نے پریس کانفرنس کے دوران جے آئی ٹی ارکان کو کلین چٹ دے دی ہے۔ فوج ہمارے ملک کا سب سے اہم اور منظم ادارہ ہے اور اس کا ترجمان کوئی عام فوجی بھی نہیں وہ کسی سیاسی جماعت کا ترجمان بھی نہیں پاک فوج کے اہم ترین شعبے یعنی شعبہ اطلاعات کے ترجمان کا بیان کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس منظم ادارے کا فیصلہ کن مو¿قف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ”انڈوز “ کردیا ہے۔ آئین اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوںنے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن رپورٹ بالکل مکمل اور بہت اچھی ہے۔ جے آئی ٹی کے چھ ارکان ہی سے دو کا تعلق فوجی اداروں سے تھا۔ ایک میڈیا ہاﺅس نے ترجمان کے بیان کا یہ مطلب اخذ کیا کہ ہمارے دونوں ارکان کی رپورٹ سب سے اچھی ہے۔ اس وقت پورے ملک میں ”پولرائزیشن“ موجود ہے۔ پورا ملک دو حصوں میں تقسیم دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف پرو نوازشریف گروپ اور دوسری جانب اینٹی نوازشریف گروپ۔ انہوںنے کہا ہے کہ میں سی پی این ای کے اس اجلاس میں موجود تھا جو وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے بلایا تھا۔ اس کے دوران چودھری صاحب نے ڈان لیکس پر با ت کرتے ہوئے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ اس کی رپورٹ شائع کرنا وزیراعظم ہاﺅس کا کام نہیں تھا۔یہ تو وزارت داخلہ کا استحقاق تھا۔ جبکہ ڈان لیکس پر وزیراعظم کے چہیتے فواد حسن فواد نے اپنے دستخطوں سے لیٹر جاری کردیا۔ اس پر وزیراعظم ہاﺅس اور وزارت داخلہ کے مابین اختلافات کھل کر سامنے آچکے تھے۔ اب یہ دراڑ اور بڑھتی نظر آرہی ہے۔ آن لائن کی ایک خبر کے مطابق چودھری نثار علی خان استعفیٰ دینے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) عملاً دو حصوں میں تقسیم نہ بھی ہوئی ہو تو اس میں دو دھڑے واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں کچھ وزراءجماعت کے حق میں ہراول دستہ بنے ہوئے ہیں کچھ وزراءاسلام آباد آنا تک گوارہ نہیں کررہے۔ شاید خورشید شاہ نے انہیں کی طرف اشارہ کیا تھا کہ آستین کے سانپوں کو دودھ پلا رہے ہیں۔ نوازشریف صاحب اپنی غلطیوں کی وجہ سے آج اس دوراہے پر پہنچے ہیں۔ان کی یہ مشکلات ان کے وزرائ، ان کے مشیر، ان کے وکلاءاور ان کے قریبی ساتھیوں کی وجہ سے ہے، اب وہ بُری طرح اس میں پھنس چکے ہیں۔ پاکستانی میڈیا نے نوازشریف کے خلاف جتنا بھی پروپیگنڈا کیا ہے۔ اس کی پچاس فیصد ذمہ داری حود ان پر آئی ہے۔ نوازشریف کچھ کہتے ہیں۔ کلثوم نواز کا بیان کچھ ہوتا ہے۔ حسن کچھ بیان دیتے ہیں حسین کچھ بیان دیتے ہیں مریم نواز کا بیان کچھ اور ہوتا ہے۔ ایسے نازک وقت پر تمام لوگ اکٹھے ہو کر ایک جگہ بیٹھ تو جائیں اور فیصلہ کر لیں کہ کہنا کیا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے یہ اب بری طرح پھنس چکے ہیں۔ مدعی اور استغاثہ کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا حق حاصل ہے۔ تا کہ وہ اپنے دعویٰ کو کورٹ میں ثابت کر سکے۔ کیا وجہ ہے کہ اتنے ہائی پروفائل کیس میں بھی دونوں جانب سے ملک کے قابل ترین وکلاءسامنے نہیں آ رہے۔ ماہر قانون دان احمد رصا قصوری نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ تفتیش ہے کوئی فیصلہ نہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس کے مخصوص حصوں کو پہلے پڑھ لیا جاتا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ مکمل ہے۔ یہ دس جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کیس کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ شاید نیب کو ریفر کرنا پڑے گا۔ انکوائری جے آئی ٹی نے کر دی ہے۔ اب نیب کورٹ اس کا فیصلہ دے گا۔ دوسرا حصہ نااہلی کے بارے ہے۔ اس میں دو ججز پہلے ہی فیصلہ دکے چکے ہیں باقی تین ججز نے بھی ان کے فیصلے کو رد نہیں کیا بلکہ یہ کہا ہے کہ اس کیس میں جو تشنگی رہ گئی ہے اسے دور کر لیا جائے اور انہوں نے جے آئی ٹی بنا دی۔ جے آئی ٹی بڑی طاقتور تھی۔ اب ان کی رپورٹ آ رہی ہے۔ میاں نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ بہت جلد آ جائے گا۔ کیونکہ اس میں اب ثبوتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ دو جج کہہ چکے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے اور وہ خائن ہیں۔ پاکستان کی ریاست کا پہیہ جام ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اتنے بڑے فیصلے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ آج شیئر مارکیٹ کریش کر چکی ہے۔ جج بھی اس ملک کے شہری ہیں اور وہ ملکی حالات دیکھ رہی ہے۔ اس لئے وہ بھی تیزی سے اس معاملے کو سلجھانے کے لئے جلد فیصلے دے دیں گے۔ مریم نواز کے ایک بیان کا فونٹ متنازع ہے۔ اس کا فونٹ 2007ءمیں ایجاد ہوا ہے۔ اسی طرح ظفر حجازی نے آرڈر کر کے پچھلی تاریخ میں کروا دیا۔ دو ججوں کے فیصلوں کے وقت یہ چیزیں اور حقائق موجود نہیں تھے۔ پھر پاکستان کا وزیراعظم دبئی جیسے ملک میں نوکری کرتا رہا۔ پی ٹی آئی کا وکیل کوئی اتنا قابل وکیل نہیں ہے وہ نچلے درجے کا وکیل ہے۔ رپورٹ کا جائزہ جو میں نے لیا ہے اس کے مطابق وہ وکیل حقائق کو کورٹ کے سامنے لانے سے قاصر رہا۔ وکیل اگر نچلے درجے کا بھی ہو تو عدالت کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی۔ عدالت جب گہرائی سے اسے دیکھے گی تو پتا چلے گا کہ نوازشریف آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت صادق اور امین نہیں رہے۔ بنیادی حقوق کے مطابق ہر پارٹی اپنی مرضی کا وکیل مقرر کر سکتی ہے۔ نوازشریف اارٹیکل 62 اور 63 کے تحت ہٹ ہوتے ہیں۔ آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ کے پاس بے انتہا پاور موجود ہیں۔ اسی طرح 199 کے تحت ہائیکورٹ کے پاس بے پناہ پاور موجود ہے۔ یہ کیس ”کو وارنٹو“ کا کیس ہے جس کے تحت بار ثبوت مدعا علیہ پر ہوتا ہے جس کے تحت اس نے بتانا ہے کہ کس قانون کے تحت اس نے پبلک آفس ہولڈ کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے کورٹ میں قبول کیا ہے کہ جے آئی ٹی کی ساری کی ساری رپورٹ قابل قبول نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے جے آئی ٹی ارکان کی حفاظت کا ذمہ بھی لیا۔ اس کا وکیل رپورٹ کے بارے یہ کہہ رہا ہےکہ اس رپورٹ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید نے کہا ہے کہ میں نے سپریم کورٹ سے کہا کہ آپ نے 22 ممبران کو نااہل کیا ہے۔ انہیں بھی نااہل کریں۔ جبکہ ان ممبران کے جرم بھی چھوٹے تھے۔ لیکن نوازشریف کے جرائم توان سے کہیں گنا بڑے ہیں۔ ایک طرف وہ ملک کا وزیراعظم دوسری طرف دبئی میں ملازمت میں نے کورٹ میں کہا ہے کہ وہ 62، اور 63 کے تحت صادق اور امین ہی نہیں رہے۔ انہیں نااہل کر کے انہیں ”اندر“ کریں۔ انڈیا میں جس طرح سپریم کورٹ ان معاملات پر نظر رکھتی ہے۔ ہماری کورٹ بھی اسی پر نظر رکھے۔ میں پی ٹی آئی کے وکیل پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ اپنی بات کرنا چاہوں ہوں۔ وکلاءجس طرح چاہیں کیس لڑ لیں۔ تاہم شریف فیملی کے ہر رکن کا جرم ثابت ہو چکا ہے۔ خود نوازشریف 88 فیصد اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں۔ کوئی وکیل پیش ہو یا نہ ہو۔ کیس کا کام تمام ہو چکا ہے۔ اب 4ہفتے لگیں گیا 6 ہفتے، گیم اوور ہو چکی ہے۔
