اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران ججز نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے دیئے گئے بیانات کو ضابطہ فوجداری کے تحت دیکھا جائےگا ، قانونی پیرامیٹرز کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے ۔ جے آئی ٹی کی فائنڈنگز سارا پاکستان جان چکا ہے، ہم اس کے پابند نہیں،بتانا ہوگا کہ ہم جے آئی ٹی فائنڈنگز پر عمل کیوں کریں؟ پیر کو جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے پانا ما عملدر آمد بینچ نے سماعت کی ۔سماعت سے قبل شریف خاندان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کرائے۔ شریف خاندان نے اپنے اعتراضات میں موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی کوعدالت نے 13 سوالات کی تحقیقات کاحکم دیا تھا تاہم جے آئی ٹی نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ، جے آئی ٹی جانبدار تھی اور اس نے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیااس لیے عدالت عظمیٰ سے استدعا ہے کہ ہماری درخواست منظور کرتے ہوئے رپورٹ کو مسترد کیا جائے۔ سماعت کے دور ان عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جے آئی ٹی رپورٹ کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاناما کیس کے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دیا جبکہ جسٹس گلزار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ سے اتفاق کیا اور 3 ججز نے مزید تحقیقات کی ہدایت دی۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ نااہلی کا فیصلہ اقلیت کا تھاجبکہ جے آئی ٹی اکثریت نے بنائی۔ نعیم بخاری نے کہاکہ فیصلے کے بعد عمل درآمد بینچ اور جے آئی ٹی بنی ،جے آئی ٹی ہر 15 روز بعد اپنی پیش رفت رپورٹ عمل درآمد بینچ کے سامنے جمع کراتی رہی ،10 جولائی کو جے آئی ٹی نے اپنے حتمی رپورٹ جمع کرائی۔ تحقیقات کا معاملہ عدالت اور جے آئی ٹی کے درمیان ہے، اب جے آئی ٹی رپورٹ پر فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی نے متحدہ عرب امارات سے قانونی معاونت بھی حاصل کی ،گلف اسٹیل مل سے متعلق شریف خاندان اپنا موقف ثابت نہ کرسکا، گلف اسٹیل مل 33 ملین درہم میں فروخت نہیں ہوئی، جے آئی ٹی نے طارق شفیع کے بیان حلفی کوغلط اور 14 اپریل 1980 کے معاہدے کو خود ساختہ قرار دیا، اپنی تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی نے حسین نواز اور طارق شفیع کے بیانات میں تضاد بھی نوٹ کیا۔ جے آئی ٹی نے فہد بن جاسم کو 12 ملین درہم ادا کرنے کو افسانہ قرار دیا۔ قطری خط وزیراعظم کی تقاریر میں شامل نہیں تھا، جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کو طلبی کےلئے چار خط لکھے، جے آئی ٹی نے کہا کہ قطری شہزادہ پاکستانی قانونی حدود ماننے کو تیار نہیں ، اس کے علاوہ قطری شہزادے نے عدالتی دائرہ اختیار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔عمران خان کے وکیل نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کی ایجنسی نے موزیک فونسیکا کے ساتھ خط وکتابت کی ۔ جے آئی ٹی نے اس خط و کتابت تصدیق کی۔ لندن فلیٹ شروع سے شریف خاندان کے پاس ہیں ،تحقیقات کے دوران مریم نواز نے اصل سرٹیفکیٹ پیش نہیں کیے، ٹرسٹی ہونے کےلئے ضروری تھا کہ مریم نواز کے پاس بیریئر سرٹیفکیٹ ہوتے۔ بیریئر سرٹیفکیٹ کی منسوخی کے بعد کسی قسم کی ٹرسٹ ڈیڈ موجود نہیں ، فورنزک ماہرین نے ٹرسٹ ڈیڈ کے فونٹ پر بھی اعتراض کیا۔حدیبیہ پیپر کیس سے متعلق نعیم بخاری نے کہا کہ حدیبیہ کیس کے فیصلے میں قطری خاندان کا کہیں تذکرہ نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ اس میں قطری خاندان کا ذکر ہونا ضروری نہیں تھا ،حدیبیہ پیپر ملز کی سیٹلمنٹ کی اصل دستاویزات سربمہر ہیں، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ شہباز شریف بطور گواہ جے آئی ٹی میں پیش ہوئے ، انہوں نے جے آئی ٹی میں ایسے بیان دیا جیسے پولیس افسر کے سامنے دیتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ بیان تضاد کی نشاندہی کےلئے استعمال ہوسکتا ہے، جے آئی ٹی کے سامنے دیئے گئے بیانات کو ضابطہ فوجداری کے تحت دیکھا جائےگا ، قانونی پیرامیٹرز کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی کے مطابق نوازشریف نے سعودی عرب میں واقع عزیزیہ اسٹیل ملز لگانے کےلئے کوئی سرمایہ موجود نہیں تھا ،عزیزیہ اسٹیل مل کے حسین نواز اکیلے نہیں بلکہ میاں شریف اور رابعہ شہباز بھی حصہ دار تھے اس کی فروخت کی دستاویزات پیش نہیں کیں لیکن جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ عزیزیہ مل 63 نہیں 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی۔نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ ایف زیڈ ای نامی کمپنی نوازشریف کی ہے حسین نواز کے مطابق ایف زیڈ ای کمپنی 2014 میں ختم کردی گئی ،نواز شریف ایف زیڈ ای کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیئرمین تھے۔ عدالت نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا ایف زیڈ ای کی دستاویزات جے آئی ٹی کو قانونی معاونت کے تحت ملیں یا ذرائع سے ،جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ کمپنی کی دستاویزات قانونی معاونت کے تحت آئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ تمام دستاویزات تصدیق شدہ نہیں ہیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ دستاویزات درست ہیں صرف دستخط شدہ نہیں۔ کمپنی نے نوازشریف کا متحدہ عرب امارات کا اقامہ بھی فراہم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے دبئی اور برطانوی حکام کو 7 ،7 خطوط لکھے،اس کے علاوہ سعودی عرب کو بھی ایک خط لکھا لیکن اس کا جواب نہیں آیا۔ یو اے ای حکومت کو لکھے گئے خطوط رپورٹ کی جلد نمبر 10 میں ہوں گے جو ظاہر نہیں کی گئی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ضرورت محسوس ہوئی تو والیم 10 کو بھی کھول کر دیکھیں گے۔پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے بیان میں تضاد ہے ¾حسن نواز نے کہا کہ 2006 سے پہلے انہیں رقم کی برطانیہ منتقلی کا علم نہیں تھا۔نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے کمپنیوں کے درمیان فنڈز ٹرانسفر کا بھی جائزہ لیا اور اپنی رپورٹ میں کہا کہ حسن نواز فنڈز کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔جسٹس اعجاز الااحسن نے استفسار کیا کہ کیا جے آئی ٹی نے بتایا ہے کہ فنڈز کہاں سے آئے؟نعیم بخاری نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی کے مط
