لاہور (نادر چوہدری سے)خوبصورت لڑکیاں یا دہشتگردوں کا جال ،پاکستان کی نئی نسل تباہی کی جانب رواں ،صوبائی دارالحکومت سمیت ملک بھر میں سوشل میڈیا پر جسم فروشی کا دھندہ عروج پرپہنچ گیا ، لڑکیوں کی قابل اعتراض تصاویر بمعہ ریٹ اور دیگر شرمناک تفصیلات کے پوسٹ کی جانے لگیں ، ویب سائیٹس پر لڑکیوں کی کیٹگریز سکول گرلز، کالج گرلز ، یونیورسٹی گرلز اور ہاﺅس وائف کے نام سے متعارف ،دلالوں کے موبائل نمبرز اور مساج سینٹر کے نام بھی ویب سائیٹس پر موجود،تخریب کاروں کی جانب سے حکومتی یا سکیورٹی اداروں کی اولاد کو بلیک میل کر کے من پسند کے نام نکلوانے کا بھی انکشاف ہوا، سب کچھ کھلے عام ہونے کے باوجود ایف آئی اے ابھی تک کاروائی کرنے میں بری طرح ناکام ۔ذرائع کے مطابق پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن جسم فروشی کا گھناﺅنا کاروبار کر نے والے اور ملک دشمن عناصر تعلیمی اداروں میں حصول تعلیم کیلئے آنے والی بچیوں کے نام پر جسم فروشی کا دھندہ کرنے والا بااثر مافیاءسوشل میڈیا پر مختلف ویب سائیٹس بنا کر انھیں اور ملک کو بدنام کر رہے ہےں ۔ سوشل میڈیا پر آن لائن ویب سائٹس پر کھلے عام لڑکیوں کی فراہمی ان کے ریٹ ، عمریں ، رنگت ، خصوصیات اور ان کی مصروفیات وغیرہ صاف طور پر لکھی ہوتی ہیں جبکہ لڑکیوں کی قابل اعتراض حالت میں تصاویر بھی لگائی جاتی ہیں تاکہ ان ویب سائٹس پر وزٹ کر نے والا ضرورت مند رابطہ کر نے پر مجبور ہو جائے ۔ ان ویب سائٹس کو صر ف لاہور یا پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک سے پاکستان کاروباری یا عیاشی کے دورے پر آنے والے غیر ملکی بھی کرتے ہیں جو کہ آن لائن ہی فائیو سٹار ہوٹلوں کے ساتھ ہی لڑکیوں کی بکنگ کرواتے ہیں اور پھر جتنے روز چاہیں انجوائے کرتے اور پھر اپنے ممالک واپس چلے جاتے ہیں ۔ لاہور میں ڈیفنس ، گلبرگ ، اقبال ٹاﺅن ، جوہر ٹاﺅن اور سبزازار سمیت دیگر پوش علاقوں میں مساج سینٹرز قائم ہیں جبکہ انہی علاقوں کے عمررسیدہ اور نوجوان امراءاپنی ہوس پوری کرنے کیلئے ان مساج سینٹروں اور ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں جہاں جسم فروش مافیا کی جانب سے جدید ترین نظر نہ آنے والے کیمروں کی مدد سے ان کی ویڈیو بنائی جاتی ہیں تاکہ ان کو بلیک میل کیا جاسکے ۔ آن لائن ویب سائٹس چلانے والے پیسے کے پجاری اپنے بینک بیلنس بناتے ہوئے تمام اخلاقیات اور اپنی موت تک کو بھول چکے ہیں ، ان ویب سائٹس پر موجود لڑکیوں کی تعارفی تفصیلات جن میں ان کی کیٹگری میں(سکول ، کالج اور یونیورسٹیز )کی لڑکیاں بھی فراہم کر نے کا لکھا ہوتا ہے جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں حصول تعلیم کیلئے گھروں سے نکلنے والی بچیوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔سڑکوں پر کوئی ا ن کو کہتا دکھائی دیتا ہے کہ میرے ساتھ بیٹھ جاﺅ ، تو کوئی ریٹ کنفرم کررہا ہوتا ہے ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اب تو آئے روز ایسے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ راہ چلتی ہوئی بچیوں کا ہاتھ تک پکڑ کرانھیں اپنے ساتھ بیٹھنے کا کہا جاتا ہے جس سے بچیوں میں شدید خوف ہراس پایا جاتا ہے ۔دوسری جانب ایف آئی اے سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے خواب خرگوش کے مزے لینے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ آئے روز لڑکیوں کا کاروبار کر نے والی ویب سائٹس اور ان پر دستیاب لڑکیوں کے اشتہارات میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے لیکن سوشل میڈیا پر جرائم کی روکتھام کیلئے بنایا گیا ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ اس شرمناک عمل سے مکمل طور پر لاعلم ہے جس سے پورے ملک کی پوری دنیابھر میں بدنامی ہو رہی ہے۔
