واشنگٹن(نیٹ نیوز)امریکہ نے پاکستان پر ناقابل قبول شرائط عائد کرکے امداد بند کرنے کے بعد پاکستان کے ساتھ دوستی کا نام نہاد رشتہ ختم کرکے نئی سخت حکمت عملی اختیار کرنے کا واضح اشارہ دیدیا ہے۔ امریکی وزیردفاع جیمز میٹس نے افغانستان کے لئے ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئی حکمت عملی کے تحت پاکستان کے ساتھ اب نئے طریقے سے تعلقات استوار ہوں گے۔ اس نئی حکمت عملی کی تیاری سے براہ راست وابستہ ایک امریکی عہدیدار نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے لئے ”گاجر“ (نرمی) پالیسی ختم کرکے ”چھڑی“ (سختی) استعمال کی جائے گی ۔ اس افسر کے مطابق پاکستان کی امداد روکنا اور اس کے پرانے دشمن بھارت کے ساتھ فوجی تعلقات کو بڑھانا اور علاقے میں اہم ذمہ داریاں دینا نئی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس پالیسی کو رواں ماہ کے آخر تک باقاعدہ جاری کر دیا جائے گا۔ امریکی میڈیا کے مطابق اس نئی حکمت عملی کی تیاری میں سینٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے چیئرمین سنیٹرجان مکین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنہوں نے گزشتہ دنوں پاکستان، افغانستان، بھارت کادورہ کیا تھا اور کابل میں بات چیت کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعاون کرے بصورت دیگر نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہوجائے۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ پاکستان اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا تو امریکہ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں غیر انسانی رویہ اور بدترین تشدد کے حوالے سے بدنام ”بلیک واٹر“ کو خطے میں دوبارہ استعمال کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی نائب مشیرسستیان گورکا نے سی این این سے گفتگوکرتے ہوئے کالعدم بلیک واٹر کے سربراہ ایرک پرنس کو استعمال کرنے کا آئیڈیا پیش کیا جو افغانستان میں مختلف غیرعلانیہ مشنز کے لئے کنٹریکٹرز فراہم کرسکتے ہیں۔ بلیک واٹر کے دہشت گرد وہاں سے پاکستان میں کارروائی کرسکتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے پرنس سے رابطہ کی اطلاعات ہیں۔ واضح رہے کہ بلیک واٹر کے کارندوں نے عراق پر امریکی حملے کے دوران عراقی قیدیوں پر بے رحمانہ سفاکانہ اور غیر انسانی تشدد کیا تھا اس شرمناک عمل میں بلیک واٹر کی عورتیں بھی شریک تھیں، علاوہ ازیں لاہور میں دو پاکستانی نوجوانوں کو سرعام گولیاں مار کر قتل کرنے والے ریمنڈ ڈیوس بھی بلیک واٹر کا کرایے کا ٹٹو تھا جو پاکستانی حکام کی مدد سے رہا ہوکر امریکہ چلا گیا تھا۔ امریکی پالیسی اس کے اپنے مفادات کے تابع ہے۔ مگر افسوس ناک صورت حال پاکستانی حکمرانوں، سیاست دانوں، سٹیبلشمنٹ کی ہے جو ملک کو درپیش اس سنگین صورت حال کا جائزہ لینے اور بڑے طوفان کا مل کر مقابلہ کرنے اور امریکی فیصلوں کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے پاکستان کی نئی پالیسی اور حکمت عملی تیار کرنے کی بجائے باہم دست و گریباں ہیں اور کسی کواس مشکل صورت حال کا ادراک نہیں ہے جبکہ روایتی دشمن بھارت اپنی چال چل چکا ہے اور پاکستان کے دوست کو دشمن بناکر اپنا دوست بنا چکا ہے اور امریکہ بھارت فوجی معاہدے کو قانونی شکل دیدی گئی ہے مگر پاکستان میں میڈیا سمیت کسی کو احساس نہیں ہے۔