لاہور: سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ اپنے خلاف فیصلے پر عملدرآمد کروانے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا مگر ایسے فیصلے پر عمل درآمد کے باوجود تسلیم نہیں کیا جاسکتا لہذاغلط بنیادوں پر غلط اندازمیں کیا گيا یہ فیصلہ واپس لیا جائےجب کہ وزرائےاعظم سے یہ سلوک جاری رہا تو کوئی بھی حادثہ ہوسکتا ہے۔لاہور میں وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور وکلا کا رشتہ وطن عزیز میں جمہوریت کے استحکام کے حوالے سے خصوصی اہمیت رکھتا ہے، وکلا تحریک سے عوام میں صرف قانون کی حکمرانی کا اعتماد پیدا ہوا، وکلا ہمیشہ قانون کی حکمرانی کے علمبردار رہے ہیں، وکلا پر آج بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے جب کہ میں بھی جمہوریت اور عوام کا مقدمہ بڑی عدالت میں لڑرہا ہوں۔نوازشریف کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلا نے جاندار تحریک چلائی ،سختیاں برداشت کیں اور یہ جدوجہد آئین کی بالا دستی اور انصاف کی حکمرانی کیلیے تھی۔ سب جانتے ہیں کہ میں پاناما پیپرز کے سیکڑوں ناموں میں شامل نہیں اور جب سپریم کورٹ میں پٹیشنز دائرکی گئيں تو عدالت نے انہیں بے معنی قرار دیا، ٹی او آرز کو مسئلہ بنایا گیا تو ہم نے سیاسی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی بنائی، انھوں نے سیاسی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی میں بھی سرد مہری دکھائی کیونکہ انہیں اس معاملے کو گلیوں اور سڑکوں پر لانا تھا۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک فیصلہ 20 اپریل اور دوسرا 28 جولائی کو سامنے آیا، ان فیصلوں کے بارے میں وکلا مجھ سے بہتر جانتے ہیں، 70 برسوں میں کوئی ایک وزیراعظم بھی آئینی مدت پوری نہیں کرسکا اور کہا جاتا ہے میری کسی سے نہیں بنتی۔ تو کیا مجھ سے پہلے سب کی بنتی تھی، کیا 18 کے 18 وزیر اعظم نواز شریف تھے، وزرائےاعظم سے یہ سلوک جاری رہا تو کوئی حادثہ ہوسکتا ہے اس لیے اس مرض کاعلاج اب ضروری ہے۔ اب ملک کو کسی نئے امتحان میں نہ ڈالا جائے۔
نوازشریف کا کہنا تھا کہ طاقت اور عدالت کے اس گٹھ جوڑ نے ملک کو آمریت کے شکنجے میں جکڑے رکھا، عوام کی رائے کو مسترد کرکے منتخب پارلیمنٹ کو گھر بھیجا گیا، ایسے بھی جج دیکھے جنہوں نے آئین سے روگردانی کی، معاملات پر حکمت عملی کا اختیار عوام کی پارلیمنٹ کے پاس ہونا چاہیے مگر فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں ،کیا عوام کو اپنا اختیار استعمال کرنےکا موقع ملا جب کہ جدوجہد اور انقلاب کی خواہش کا مقصد عوام کی تقدیر بدلنا ہے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چند سوال ایسے ہیں جن سے عام شہری بھی پریشان ہورہا ہے، کبھی ایسا ہوا ہے کہ واٹس ایپ کال سے تفتیش کرنے والوں کا انتخاب ہوا ہو؟۔ کیا کبھی ایسے الزامات کی تحقیقات کے لیےسپریم کورٹ نے اس طرح جے آئی ٹی بنائی؟۔ کیا کسی بھی پٹیشنر نے دبئی کی کمپنی اور میری تنخواہ پر درخواست دی تھی؟۔ کیا قومی سلامتی اور دہشتگردی کی تفتیش کے سوا خفیہ ایجنسیوں کو ذمے داری دی گئی ؟۔ کیا ہماری 70 سالہ تاریخ میں کبھی کسی ایک مقدمے میں 4 فیصلے سامنے آئے؟۔ کیا کبھی وہ جج صاحبان دوبارہ حتمی فیصلے والی بنچ میں شامل ہوئے جو پہلے فیصلہ دے چکی ہو؟۔ کیا ان جج صاحبان کو دیکھے بغیر جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر فیصلے کا حق تھا؟ کیا نیب کوقواعد و ضوابط سے ہٹ کر کام کی عدالتی ہدایت دی جاسکتی ہے؟۔ اور کیا یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی کے اصول کے مطابق ہے۔