لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پاناما کیس کے فیصلے پر عوام کے سامنے 12اہم سوالات رکھ دیئے ،ان کا کہنا تھا کہ پہلے سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق پٹیشن کو فضول قرار دے دیا لیکن پھر ایک جماعت کی جانب سے اسلام آبادکے گھیراﺅ کے اعلان پر سپریم کورٹ نے سماعت شروع کردی اور پھر جو کچھ ہوا آپ کے سامنے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف نہیں بنتی ،ممکن ہے مجھ میں کمزوری ہو لیکن لیاقت علی خان سے لے کر آج تک کسی ایک کی تو بنتی ،کیا 18کے 18وزیراعظم نواز شریف تھے ؟۔نواز شریف نے کہا کہ ایک طرف منتخب وزیر اعظموں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا ،دوسری جانب آئین کو پامال کرنے والے کئی دہائیاں حکومتیں کرتے رہے۔ ڈکٹیٹروں کے اقدامات کو شرف قبولیت بلکہ آئین میں من پسند ترمیم کرنے حلیہ بگاڑنے کی کھلی چھٹی دی۔ نواز شریف نے سوال کیے کہ کیا آج تک ایسا ہوا ہے کہ وٹس ایپ کالز پر پراثرار طریقے سے تفتیش کرنے والوں کا انتخاب کیا گیا ہو؟،کیا آج تک اس قسم کے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ نے اس طرح کی جے آئی ٹی تشکیل دی ؟،کیا اس سے پہلے قومی سلامتی اور دہشت گردی سے ہٹ کر کسی معاملے کی تحقیق کے لیے خفیہ ایجنسیوں کے ارکان کو ذمہ داری سونپی گئی ؟،کیا آ تک سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ایسی جے آئی ٹی کی ہمہ وقت نگرانی کی ہے ؟کیا کسی درخواست میں دبئی کی کمپنی اور تنخواہ لینے کی بنیاد پر نا اہلی کی استدعا کی گئی ؟کیا کوئی بھی عدالت واضح ملکی قانون کو نظر انداز کر کے مطلب کے معنی تلاش کرنے کے لیے ڈکشنری کا سہارا لے سکتی ہے ؟کیا ہماری 70سالہ تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک مقدمے میں 4فیصلے سامنے آئے ہوں ؟،کیا کبھی وہ جج صاحبان بھی پھر سے حتمی فیصلے والے بنچ میں شامل ہوئے جو پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہوں ؟،کیا ان جج صاحبان کو بھی رپورٹ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دینے کا حق تھا جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ دیکھی تک نہیں اور نہ اس پر بحث سنی ،نہ سماعت کے مرحلے میں شریک ہوئے ؟کیا پوری عدالت تاریخ میں کبھی ایسا ہوا کہ نہ صرف نیب کی کارروائی بلکہ ٹرائل کورٹ کی مانیٹرنگ کے لیے بھی سپریم کورٹ کے ایسے جج کا تقرر کردیا جائے جو پہلے ہی خلاف فیصلہ دے چکا ہو ؟کیا سپریم کورٹ کے جج کی مانیٹرنگ کے نیچے ٹرائل کورٹ آزادانہ کام کر سکتا ہے ؟کیا نیب کو اپنے قواعد سے ہٹ کر کام کرنے کے لیے کوئی عدالتی ہدایت دی جا سکتی ہے ؟۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سوالات ہم نے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست میں بھی اٹھائے ہیںتا کہ غلط انداز میں کیا گیا یہ فیصلہ واپس لیاجائے۔