اسلام آباد (آئی این پی،مانیٹرنگ ڈیسک) پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ نواز شریف سے میری جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی ابھی انکی مدد کر رہا ہوں،پارلیمنٹ کی مضبوطی کیلئے اسمبلی کے اندر ڈائیلا گ کیلئے تیار ہوں۔ آئین کے آرٹیکل 62اور63میں ترمیم کا فیصلہ آئندہ آنے والی اسمبلی کریگی، عدلیہ سے لڑتا نہیں ان کیساتھ بھاگتا ہوں جب تک وہ تھک نہیں جائیں، پیپلز پارٹی نے کبھی بھی انتقامی سیاست نہیں کی ،پیپلز پارٹی کے دور میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا ،میرے اوپر تمام کیسز سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے جن میں مجھ سے مذاق ہوتا رہا،پیپلز پارٹی جب بھی ڈکٹیٹر کیخلاف لڑی ہمیشہ شخصیت اور اداروں کو الگ کیا،پیپلز پارٹی نے کبھی انتقامی کارروائی نہیں کی،پارٹی نے کبھی کرپشن کی اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی،میں چاہتا تو میاں صاحب کو پنجاب کی حکومت نہ دیتا لیکن پھر مشرف کو نہ نکال پاتا۔عدلیہ اور سٹیبلمنٹ کے ساتھ چلنے کا طریقہ ہوتا ہے۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق صد رآصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ تاریخ کا ایک سفر مکمل ہوا ہے ،بی بی شہید کی حکومت کے دوران سفر شروع ہوا اور مجھے لاہور سے گرفتار کیا گیا، کسی بھی مقدمے میں مک مکا کہہ دینا آسان ہوتا ہے حالانکہ ہر کیس کی ایک طویل داستان ہے،مجھ پر سیاسی بنیادوں پر کیس قائم کئے گئے جن کے دوران 4سو سے5سو تک پیشیاں ہوئیں لیکن اس کے باوجود مجھ پر بنائے گئے تمام کیسز ختم کردئیے گئے۔ مرتضیٰ بھٹو کو شہید کر کے بے نظیر کی حکومت کو گرایا گیا ، مجھے ایم پی او کے تحت بند کیا گیا ، دیگر کیسز میں قید رکھا گیا ، غلام اسحاق خان کے دور میں مجھ پر 12کیسز بنائے گئے ، میں نے اپنے سب کیسز جیل میں بیٹھ کر لڑے ، این آر او میں جمہوریت ، الیکشن اور نوازشریف کی واپسی تھی ۔انہوں نے کہ مشرف کے د ور میں مجھ پر دو ریفرنسز مزید بنائے گئے ، میں عدلیہ سے لڑتا نہیں ہوں ، ان کے ساتھ بھاگتا ہوں جب تک وہ تھک نہ جائیں ، میں پنڈی آتا نہیں ہوں اور بی ایم ڈبلیو کیس آجاتا ہے ، میں کہتا ہوں گاڑی ہے ڈیوٹی کم دی ہے تو گاڑی ضبط کرو، بندی کویں بند کیا ہوا۔ مجھ پر تاریخ کا بدترین تشدد کیا گیا میری گردن اور زبان کاٹی گئی اور کہا گیا کہ میں نے خود کشی کی جبکہ بعد ازاں عدالت نے ثابت کیا میں نے خود کشی نہیں کی بلکہ مجھ پر تشدد کیا گیا۔ میرے خلاف گواہی دینے کے لئے جعلی گواہ تیار کئے گئے لیکن کوئی بھی گواہ میرے خلاف بیان دینے پر رضامند نہیں ہوا، میرے کیسز کی سماعت کے لئے اٹارنی جنرل آفس سے ججوں کی تقرریاں کی گئی اور ان ججز نے میرے کیسز کو طویل کیا کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ اگر میرے خلاف کیسز ختم ہوگئے تو ان کے ملازمت بھی ختم ہوجائے گی۔ 7سال کی سزا پر میں نے24سال قید کاٹی جبکہ میرے خلاف ایسے کیسز بنائے گئے جن پر میں اپیل بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن بعدازاں مشرف دور میں ہمارے کیسز سیشن کورٹ میں منتقل ہوئے۔آصف علی زرداری کا مزید کہنا تھا کہ میرے میاں صاحب سے کوئی لڑائی نہیں ہے ،میری اور نواز شریف کی ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی میں ان سے ناراض ہوا ہوں ابھی تک ان کی مدد کر رہا ہوں اور میں نے ان کی حکومت بچائی۔میاں صاحب اپنے دشمن خود ہیں کیوں کہ ہم نے آئین میں ترامیم کرکے جمہوریت کو مستحکم کیا ہے مگر وہ اقتدار میں ہوتے ہوئے اپنے دوستوں سے بھی ہاتھ تک ملانا گوارہ نہیں کرتے تھے اور مغل بادشاہ کی طرح پارلیمنٹ میں نہیں آئے، آئین کے آرٹیکل62اور63میں ترمیم موجودہ اسمبلیاں نہیں بلکہ اگلے الیکشن میں منتخب ہونے والے ممبران پارلیمنٹ ہی اس میں ترمیم کریں گے۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ ایک کلرک بھی اپنے اختیارات کسی کو نہیں دیتا لیکن میں نے آئینی ترامیم کے ذریعے اختیارات نچلی سطح تک منتقل کئے۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے کبھی سیاسی انتقام نہیں لیے ، ہمارے دور میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ میرے کچھ لوگوں نے کہا کہ پنجاب میںآپ حکومت بنا لیں لیکن میں نے میاں صاحب کو حکومت بنانے دی کیوں کہ اگر میاں صاحب کو پنجاب کی حکومت نہ دیتا تو ہم مشرف کو نہیں نکال سکتے تھے،مجھ سے پوچھا کہ مشرف کیا کریں گے تو میں نے کہا وہ گالف کھیلیں گے، اگر میں ایسا نہیں کرتا تو وہ آرمی سے مارشل لاءلگاوا دیتے۔ مفاہمت کی سیاست ہی کی وجہ سے جمہوریت پروان چڑھتی ہے اور ہمیں ذاتی مفادات کی بجائے جمہوریت کی بحالی کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں سابق صدر کا کہنا تھاکہ اب کرپشن کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے کیونکہ میڈیا اور سوشل میڈیا بہت تیز ہوگیا ہے جب آپ گھر پہنچتے ہیں تو آپ کی کرپشن کی داستان آپ سے پہلے آپ کے بچوں کے علم میں آجاتی ہے اور وہ گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی پوچھتے ہیں کہ پاپا! آپ نے کرپشن کیوں کی؟ آصف زرداری نے کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو کو بھی 2باروزیر اعظم ہاﺅس سے نکالا گیا مگر ہم نے تو جی ٹی روڈ پر مارچ نہیں کیا ، کیا ہمارے پاس سیاسی ورکر نہیں تھے؟ اپنے دور میں ایسا کوئی کام نہیں کیا کہ تاریخ مجھے بھول جائے ، ہم نے تو 1973کا آئین بحال کردیا تھا ، یہ دوستوں کےساتھ جو کرتے ہیں وہ جسٹس کھوسہ نے بھی کہہ دیا ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے ، میرا خیال ہے اس بار آزاد امیدوار زیادہ کامیاب ہوں گے ۔زرداری ہمیشہ اپنی باری میں ہی آتا ہے اور اپنی ہی بات کرتا ہے ، ہم نے کبھی انتقامی کارروائی نہیں کی ، ہماری جنگ ہمیشہ جمہوریت کےلئے ہوتی ہے ، میڈیا سے صرف سیاستدان ہی نہیں سب ڈرتے ہیں ۔ آصف زرداری نے کہا کہ لاہور سے گرفتار کے بعد میرا سفر شروع ہوا تھا ، تاریخ کا ایک سفر مکمل کر لیا ہے ۔ پارلیمنٹ کی مضبوطی کےلئے (ن) لیگ سے مذاکرات ہوسکتے ہیں ، این آر او سے پرویز مشرف کی وردی اتروائی ، جمہوریت واپس آئی ۔سندھ میں لوگوں کو اٹھا کر بلیک میل کرتے ہیں اور پھر بارگین کرتے ہیں ، راجہ پرویز اشرف آج بھی 10ریفرنسز کا سامنا کررہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے مارشل لاءسے لڑائی میں اداروں اور افراد کو الگ رکھا ، سیشن عدالت نے میری زبان کاٹنے کے مقدمے میں پولیس کا مو¿قف مسترد کیا، ہمیں پتا تھا کہ ہم پر سیاسی کیسز بنائے گئے ہیں ، بے نظیر بھٹو نے این آر اواس لئے کیا کہ اس میں انتخابی اصلاحات بھی تھیں ، بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم ہاﺅس میں نظر بند کردیا گیا تھا ۔ لغاری دور میں گرفتار کرنے والوں نے میری حکومت کے ساتھ لنچ کیا ، تفتیش کا ایکسپرٹ ہوں اپنی حکومت میں سب کچھ کرسکتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ سی ای سی میٹنگ میں فیصلہ ہوتا ہے ، بلاول کی بات کو پارٹی میں کوئی رد نہیں کرسکتا ، پانچ سال صدر رہا اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے۔
