تازہ تر ین

ملک سے باہر جاکر اپنے گھر کو بُرا نہ کہیں، دشمنوں کو تقویت ملے گی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو پاکستان سے باہر جا کر ایسے بیان نہیں دینے چاہئیں کہ ”اپنے گھر کی صفائی کرنی چاہئے“ انہوں نے اپنے اس بیان سے امریکہ و بھارت کے پاکستان میں دہشتگردی کے حوالے سے الزامات کو مزید تقویت دی۔ حکومتی پارٹی کے بقول جج و جرنیل ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے وزیراعظم ملک سے باہر جا کر دشمنوں کے الزامات کو تقویت دیں۔ شاہد خاقان عباسی کو خیال رکھنا چاہئے کہ اب وہ گیس کے وزیر نہیں بلکہ وزیراعظم ہیں۔ این اے 120 کے ضمنی لیکشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہارنے والے تو دھاندلی کا الزام لگاتے ہی ہیں لیکن جیتنے والے کہہ رہے ہیں کہ آج ہماری سپریم کورٹ نے فیصلہ دیدیا۔ یہ کہنا مناسب نہیں کہ ہم جیت گئے ہیں لہٰذا عوام نے فیصلہ دیدیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط تھا۔ عدلیہ و فوج کو چلنے دیا جائے۔ اپنے سسٹم میں موجود خامیوں کو دور کرنا چاہئے۔ دل کی بات فوج پر منطبق نہیں کرنی چاہئے۔ آرمی چیف نے خود کہا کہ ہمارا پانامہ سے کوئی تعلق نہیں، چاہتے ہیں کہ جمہوریت چلتی رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب ایک بارڈر ایریا ہے۔ سیالکوٹ سے لے کر صادق آباد تک بارڈر بیلٹ ہے۔ جہاں زیادہ تر آبادی ہے۔ اگر نون لیگ نے فوج کے خلاف ایسا ہی طرز عمل جاری رکھا تو پارٹی میں مضبوط فارورڈ بلاک بنے گا۔ شاید الیکشن سے پہلے ہی ان کے لئے حکومت چلانی مشکل ہو جائے۔ ممکن ہے شریف خاندان میں بھی اختلاف رائے پیدا ہو جائے، باتیں تو پہلے ہی کی جا رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بھائی بھائی کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اورنگزیب عالمگیر نے تخت نشینی کی جنگ میں کامیابی کے بعد اپنے سگے باپ کو 12 سال قلعے کے برج میں بند رکھا، وہ وہیں مر گیا۔ تخت نشینی ایسی خوفناک چیز ہوتی ہے۔ شہبازشریف، نوازشریف کی بہت عزت کرتے ہیں۔ مشرف دور میں ان کو مائنس نواز وطن آنے کی آفر ہوئی تھی لیکن اس وقت بھی وہ نہیں مانے تھے لیکن آخر کب تک ایسا ہو گا؟ حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے نامزد کیا گیا تھا، جب شہباز شریف وزیراعظم بن جائیں گے۔ حمزہ شہباز 4 سال سے پنجاب میں پارٹی چلا رہے ہیں۔ سارے یہاں فیصلے انہوں نے کئے، تمام ضمنی انتخابات انہوں نے کروائے لیکن این اے 120 میں وہ معلوم نہیں کہاں چلے گئے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب کے ”کسی کے سامنے نہ جھکنے“ کے بیان پر انہوں نے کہا کہ اس کے بجائے انہیں کوشش کرنی چاہئے تھی کہ تمام سیاسی جماعتیں ان کی عزت و احترام کریں۔ ان کا بیان ثابت کرتا ہے کہ وہ خود فریق بنے ہوئے ہیں۔ تمام اپوزیشن جماعتیں متفق ہیں کہ انتخابی اصلاحات کی جائیں اور موجودہ الیکشن کمیشن کو دفع کیا جائے۔ کبھی بھی الیکشن کمیشن کے عملے کو اس طرح دھمکیاں دیتے نہیں دیکھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عائشہ گلا لئی بچوں جیسی باتیں نہ کریں۔ تحریک انصاف وہی مانی جائے گی جس کے سربراہ عمران خان ہوں گے۔ وہ کون سے صاف ستھرے لوگوں کی پی ٹی آئی بنائے گی؟ خود کتنی صاف ہیں؟ ہم نے ان کی بہن کا انٹرویو چھاپا تھا وہ کہتی ہے کہ میں لڑکوں کے ساتھ رہنا زیادہ پسند کرتی ہوں، لڑکیاں مجھے پسند نہیں۔ والد نے انہیں اپنی اس بیٹی کو تو منع نہیں کیا کہ کوچ کے ساتھ مت گھومو، اس وقت اس بات کی غیرت کہاں تھی؟ چار سال تک گندے میسجز کرنے والے کو ایک دن پہلے ملنے گئی۔ شاید امیر مقام سے ملنے اور نقد رقم وصول کرنے کے بعد ان کو یہ خیال آیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے معاملات میں چار سال سے الجھی ہوئی ہے، الزامات بھی ہیں کہ نریندر مودی سے دوستیاں ہیں۔ اب امید کی کرن نظر آئی ہے، سوشل میڈیا پر 4 دن سے کچھ لوگوں نے ”فری جونا گڑھ“ کی تحریک شروع کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب پاکستان و ہندوستان بن رہا تھا تو جونا گڑھ پر فارمولا یہ طے پایا تھا کہ ریاست کے سربراہ طے کریں گے کہ وہ پاکستان یا بھارت کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں؟ جس طرح بہاولپور سمیت مختلف ریاستوں نے بھی الحاق کیا تھا۔ جونا گڑھ انڈیا کے علاقے میں تھا، اس کا کوئی بارڈر پاکستان سے نہیں ملتا تھا۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ رہنے کا اظہار کیا۔ قائداعظم نے مذاکرات کئے، الحاق کی دستاویزات پر بھی دستخط کر دیئے گئے۔ پھر نڈیا نے بغاوت کی اور بھارتی فوج نے جونا ڑھ پر قبضہ کر لیا۔ بھارت کی ”فری بلوچستان“ کی تحریک پر ”فری جونا گڑھ“ کی جوابی جنگ شروع ہوئی ہے۔ جو فوج یا حکومت نے نہیں بلکہ عوام کے ایک حلقے نے شروع کی ہے۔ انڈیا نے یو این او میں فری بلوچستان کی تحریک بھی جمع کرا دی ہے۔ اب عوام میدان میں نکل آئے ہیں اور بھارتی پروپیگنڈ کے خلاف یہ تحریک شروع کی ہے۔ اگلے مرحلے میں 3 جگہوں پر سکھوں کی تحریک بھی عروج پر پہنچ جائے گی، بہر کا سکھ انڈین حکومت کے خلاف ہے۔ کشمیر میں تو باقاعدہ لڑائی ہو رہی ہے۔ پاکستان نے مشرف دور میں معاہدہ کر لیا تھا کہ ہتھیار، یونیفارم، اسلحہ اور مالی وسائل سمیت کچھ نہیں دیں گے۔ اس وقت مظفرآباد میں موجود جہادی کیمپوں کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔ حکومت پاکستان اب چڑی بھی نہیں جانے دیتی۔ کشمیری اپنی جنگ خود لڑ رہے ہیں۔ شہید ہو رہے ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain