جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ سنیما گھروں کی وجہ سے فلموں کا معیار بہتر ہوا

بلاشبہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی توکوئی کمی نہیں ہے لیکن وقت کے ساتھ چلنے کے لیے ہمیں بہت سا فاصلہ طے کرنا ابھی باقی ہے۔ پاکستان میں جدید طرز کی ایک سینما انڈسٹری بن رہی ہے، جس کا بزنس تواچھا ہے لیکن ابھی ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ اس لیے فلم اورسینماانڈسٹری کے نظریاتی اختلافات تو رہیں گے مگراس کا حل تلاش کرنے اوراسے بہترانداز سے حل کرنے کے لیے اہم شخصیات کوملاقاتیں کرنی چاہئیں، تاکہ مل کرکوئی ایسا حل تلاش کیا جاسکے، جس سے پاکستانی سینما اورفلم کونقصان نہ ہو۔سوہائے علی ابڑو کا کہنا تھا کہ ہم سب کویہ بات سوچنی چاہیے کہ بہت عرصہ تک پاکستان فلم انڈسٹری شدید بحران سے دوچاررہی ہے اوراب ایک نیا جنم ہوا ہے۔ جس کوسامنے رکھتے ہوئے ہمیں اختلافات نہیں بلکہ ایک دوسرے کی سپورٹ کرنی چاہیے۔ ہمیں ایک دوسرے کی فلموں کو پروموٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ریلیزنگ کے حوالے سے بھی غوروفکرکرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج بھی ایسا نہ کیا گیا تو پھر حالات ماضی کی طرح ہوجائیں گے۔ فلمیں توبنتی رہیں گی، لیکن ان کی کامیابی پر اختلافات ضرور اثرانداز ہونگے۔

کپل شرما نے مداح کو لاجواب کر دیا

ممبئی: بھارت کے معروف کامیڈین کپل شرما نے اپنے شو پر واپسی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر مداح کو لاجواب کر دیا۔بھارت کے مشہور کامیڈی پروگرام ’دی کپل شرما شو‘ اور اس کے میزبان آئے دن خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں اور ان کے مداحوں کو شو کی بندش سے متعلق فکر لاحق ہے جو کپل شرما کی مصروفیات اور خرابی صحت کے باعث چند ہفتوں کے لیے بند کردیا گیا تھا مگر شو انتظامیہ کی جانب سے واپسی کے اعلان کے باوجود مداح کپل شرما کو جلد سے جلد اسکرین پر دیکھنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب ان سے ایک مداح نے اس حوالے سے سوال پوچھا تو کپل نے بھی دلچسپ جواب دے کر مداح کو لاجواب کر دیا۔

باکسر محمد وسیم کی انٹرنیشنل رینکنگ فائٹ ملتوی

اسلام آباد(آئی این پی)پاکستان کے مایہ ناز انٹرنیشنل پروفیشنل باکسر محمد وسیم کی انٹرنیشنل رینکنگ فائٹ ملتوی ہوگئی۔کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے باکسر محمدوسیم کی نئی انٹرنیشنل رینکنگ فائٹ 23ستمبرکو کولمبیا میں ہونا تھی، تاہم یہ فائٹ فی الحال ایک ہفتے کےلیے ملتوی کردی گئی ہے۔اس حوالے سے باکسر محمد وسیم نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ رینکنگ فائٹ کولمبیا کا ویزا جاری نہ ہونے کی بنا پر ملتوی کی گئی اور اب یہ فائٹ 30ستمبر کو ہوگی، جس میں ان کے مدمقابل کولمبیا کے باکسر جورلی ایسٹاراڈا ہوں گے۔محمدوسیم کا کہناتھا کہ کولمبیا کا ویزا نہ ملا تو فائٹ پاناما میں ہونےکا امکان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رینکنگ فائٹ کے لیے سخت محنت کی ہے۔

کک باکسنگ میچ میں باکسر جان کی بازی ہار گیا

سنگاپور(یو این پی) سنگاپور میں ایشین فائٹنگ چیمپئین شپ کے افتتاحی میچ کے دوران 32 سالہ باڈی بلڈر اور باکسر پردیپ سبرامینین فائٹ کے بعد زخمی ہوکر جاں بحق ہوگیا ۔ باکسر کو فائٹ کے دوران زخمی ہونے پر میچ روک دیا گیاوہ رنگ میں گر بھی گیا تھا جس کے بعد اس کو فورا ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن پردیپ جان کی بازی ہارگیا۔باکسنگ چیمپیئن شپ کے عہدیداران کے مطابق پہلے راونڈ میں پردیپ جیت رہا تھا لیکن دوسرے راونڈ میں پردیپ کو حریف باکسر کی جانب سے کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔اس دوران باکسر کی ناک سے خون بھی بہنے لگا جس پر ریفری نے میچ روک دیا اور دیگر میچ ریفری سے مشورے کے بعد پردیپ کے حریف کو جتوا دیا گیا۔پردیپ کا نام باکسنگ کے مقابلے میں شامل نہیں تھا لیکن اچانک دوسرے باکسر نے 2 دن قبل فائٹ سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تو پردیپ کو باکسنگ مقابلے میں شامل ہونا پڑا۔ہسپتال کی جانب سے جاری میڈیکل رپورٹ کے مطابق کے پردیپ کے دل نے کام کرنا بند کردیا تھا جو اس کی ہلاکت کی وجہ بنا تاہم پولیس واقعے کی تفتیش کررہی ہے۔ دوسری جانب پردیپ سبرا مینین کے حریف سٹیون نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں نڈر کھلاڑی قرار دیا۔

احمد شہزاد نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کوگڈبائے کہہ دیا

لاہور(آئی این پی) قومی بلے باز احمد شہزاد اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا ساتھ ختم ہو گیا۔ احمد شہزاد نے کپتان سرفراز احمد کی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو چھوڑ دیا۔ قومی بلے باز پی ایس ایل 3 میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی نہیں کریں گے۔احمد شہزاد نے بھی کوئٹہ کیلئے فیرویل ٹویٹ کر دیا۔ کہتے ہیں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ساتھ دو سال بہت یادگار گزرے۔ انہوں نے اپنے ٹیم سے علیحدگی کے فیصلے کو تسلیم کرنے پر ٹیم کا شکریہ بھی ادا کیا۔

یاسر شاہ23سال پرانا ملکی ریکارڈ برابر کرنے کے نزدیک

دبئی(آئی این پی) یاسر شاہ اب تک 26 ٹیسٹ میچز میں 29.91 کی اوسط سے 149وکٹیں حاصل کرچکے ہیں اور اگر وہ ٹیسٹ میچ میں مزید ایک شکار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو وقار یونس کاکم میچز میں 150 ٹیسٹ شکار کرنے کا ملکی ریکارڈ برابر کردیں گے۔

قومی سٹاربلے بازمحمد حفیظ پرانعامات کی بارش

اسلام آباد (اے پی پی) ڈیجیٹل ورلڈ پاکستان (ڈی ڈبلیو پی) نے چیمپئن ٹرافی 2017ءمیں شاندار کارکردگی پر کرکٹ سٹار محمد حفیظ کو انعامات سے نوازا۔ چیمپئن ٹرافی 2017ءرواں سال جون میں منعقد ہوئی جس میں پاکستان نے پہلی مرتبہ فائنل میچ میں بھارت کو شکست دے کر ٹرافی جیتی۔ ڈیجیٹل ورلڈ پاکستان (ڈی ڈبلیو پی) نے تعریف کے طور پر کرکٹ سٹار محمد حفیظ کو ٹورنامنٹ میں ان کی کاوشوں پر 65 انچ ایل ای ڈی ٹی وی اور گری ایئر کنڈیشنر کے انعامات پیش کئے۔ گری اور ایکو سٹار کی مارکیٹنگ ٹیم نے محمد حفیظ کی رہائش گاہ کا دورہ کیا اور انعامات ان کے حوالے کئے۔ ڈی ڈبلیو پی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ان کی کامیابی پاکستان کرکٹ ٹیم کےلئے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ وہ ملنے والے انعامات کےلئے حقدار ہیں۔ ڈی ڈبلیو گروپ نے قبل ازیں فیس بک مقابلے بھی منعقد کئے جن میں اپنے صارفین کو انعامات سے نوازا اور اس کے علاوہ فیس بک اور انسٹا گرام پر خصوصی مواقع پر متعدد مقابلوں اور کھیلوں کا اعلان کیا اور صحت مندانہ شرکت اور ان مقابلوں سے محظوظ ہونے کو یقینی بنایا۔ ڈی ڈبلیو پی گروپ کنزیومر الیکٹرانکس اور ٹیکنالوجی مصنوعات کی فراہمی کا ممتاز گروپ ہے اور اسے بین الاقوامی سطح پر مارکیٹنگ انتہائی قابل اعتماد جدید ٹیکنالوجی کی حامل مصنوعات کو فروغ دینے کا وسیع تجربہ ہے اور اس نے دنیا کی بہترین کمپنیوں کو تخلیق کیا اور ماہرین پیدا کئے ہیں

لنکا کو آسان حریف لینا بیوقوفی ہوگی

دبئی (نیوزایجنسیاں) قومی کر کٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے کہا ہے کہ مصباح اور یونس کے بعد پاکستان ٹیم میں ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے، سیریز میں دو کھلاڑیوں کا ڈیبیو متوقع ہے،قومی ٹیم میں فی الحال فٹنس کا کوئی مسئلہ نہیں اور یاسر شاہ نے بھی بھرپور پریکٹس کی ہے،سرفراز احمد پہلے مقابلے سے ہی اچھے کپتان ثابت ہوں گے، سری لنکا کی ٹیم ہمارے لیے آسان حریف نہیں ہوگی۔تفصیلات کے مطابق پاکستان اور سری لنکا کے درمیان سیریز کا آغاز 28 ستمبر سے یو اے ای میں ہورہا ہے جس کے لیے قومی ٹیم کے ٹیسٹ اسکواڈ کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کا سری لنکا سے سیریز کے حوالے سے کہنا ہے کہ سری لنکا کے خلاف ایک یا دو نئے کھلاڑی اپنے ٹیسٹ کیرئیر کا آغاز کریں گے اور سری لنکا ہمارے لیے آسان حریف نہیں ہوگی۔مکی آرتھر نے کہا کہ مصباح اور یونس کے بعد پاکستان ٹیم میں ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے،قومی ٹیم میں فی الحال فٹنس کا کوئی مسئلہ نہیں اور یاسر شاہ نے بھی بھرپور پریکٹس کی ہے، یاسر شاہ اچھی فارم میں ہیں، لیگ اسپنر نے بھرپور ٹریننگ کی۔ سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں ایک یا دو نئے کھلاڑیوں کو ڈیبیو کروایا جائے گا۔ایک سوال کے جواب میں مکی آرتھر کا کہنا تھا کہ سرفراز احمد بطور کپتان پہلا ٹیسٹ کھیل رہے ہیں، امید ہے کہ وہ پہلے مقابلے سے ہی اچھے کپتان ثابت ہوں گے۔واضح رہے کہ آئی لینڈرز کے خلاف ٹیسٹ سیریز کیلیے قومی ٹیم ابوظہبی پہنچ چکی ہے، گرین شرٹس 28 ستمبر کو ابو ظہبی میں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلیں گے، دوسرا ون ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ 6 اکتوبر سے دبئی میں کھیلا جائے گا۔ قومی ٹیم سری لنکا کے خلاف 5 ون ڈے میچز اور 3ٹی ٹوئنٹی میچز بھی کھیلے گی۔

شہباز شریف بطور وزیراعظم اور پارٹی صدر زیادہ موثر ثابت ہوسکتے ہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف صاحب کی واپسی اور چوہدری نثار علی خان سے ملاقات پر بہت پیشگوئیاں اس طرح ہوں گی کہ شاید پیشگوئی کرنے والے وہاں موجود تھے۔ اس سے قبل کہ سیاسی گفتگو کی جائے میں قومی ایئرلائن کی کارکردگی بتانا چاہتا ہوں پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے عوام کو تقسیم کرنے کے درپے ہے۔ لاہور، بہاولپور فلائٹ کو بند کر دی گئی حالانکہ ماضی میں اس روٹ پر فلائٹس چلا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ ڈی جی خان، رحیم یار خان کی فلائٹ بند ہیں اور ملتان کی صرف ایک فلائیٹ ہے۔ سڑک کے ذریعے یہ فیصلہ 11 سے 12 گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ جہاز نہ ہونے کا بہانہ کر کے پی آئی اے عوام کو گولی دے رہی ہے حالانکہ لیز پر لے کر بھی جہاز چلائے جا سکتے ہیں۔ میاں محمد نوازشریف کی واپسی پر بہت چہ میگوئیاں ہوئیں۔ ملتان میں پی پی پی کی اکثریت ہے وہاں لوگوں کا تبصرہ یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف کے کیسز بھی عدالت میں تھے اور ان کے نام ای سی ایل پر ڈال دیئے گئے تھے۔ تو میاں صاحب کا نام کیوں ای سی ایل پر نہیں ڈالا جاتا۔ اعلیٰ ترین عدالتوں سے درخواست ہے کہ سب کو یکساں تصور کرتے ہوئے فیصلے دیا کریں۔ کلثوم نواز اچھی خاتون ہیں انہوں نے پرویز مشرف دور میں اچھی مہم چلائی تھی۔ حالانکہ پولیس نے بھی ان کے خلاف کارروائیاں کی تھیں۔ وہ الیکشن جیت چکی ہیں۔ وہ وزیراعظم بنیں یا نہ بنیں یہ پارٹی کا معاملہ ہے۔ ہماری عوام باشعور ہو چکی ہے۔ عدالتی فیصلوں پر بحث کرنا معمول بن گیا۔ ریڑھی بان اور دکاندار کھل کر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکمرانوں کے خلاف کچھ نہیں ہو گا اور عام آدمی کو سخت سزا ملے گی۔ اعلیٰ عدالت اور ادارے خدا کیلئے ایک جیسا معیار سب کے لئے مقرر کریں۔ کسی کے لئے کچھ اور کسی کے لئے کچھ جیسا معیار اب نہیں چلنے والا۔ اپنے پکڑے جائیں تو کوئی بات نہیں دوسرا پکڑا جائے تو فوراً ای سی ایل پر۔ لوگ الیکشن کمیشن کے بارے کہہ رہے ہیں کہ ”عمران خان نوں پھڑ لیتا ہے ہون تن دیں گے اینوں“ نوازشریف صاحب شیر ہیں وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ وہ پنجاب ہاﺅس میں اجلاس کریں یا جو مرضی کریں۔ جنگل میں کون شیر کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔ چودھری نثار علی خان کے بارے ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ میاں نوازشریف کو چھوڑنے والے نہیں۔ وہ ن لیگ سے علیحدگی نہیں کریں گے۔ آج نوازشریف اور چودھری نثار کی ملاقات ہوئی ناراضیاں دور ہو گئی ہوں گی۔ تاجی کھوکھر کے بھائی نواز کھوکھر نے مجھے کہا کہ وہ جیل میں آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ آپ چودھری نثار علی خان کو نہیں جانتے۔ انہوں نے علاقے میں بہت قبضے کر رکھے ہیں۔ اس نے کہا کہ ہم اپنا دروازہ حکومت اور اپوزیشن دونوں جگہ کھول کر رکھتے ہیں۔ اس نے کہا ایک دن ”جپھی“ پڑے گی اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آج دونوں مل گئے اور تمام بات ختم ہو گئی۔ ملازم طبقے کو فیصلوں کا حق نہیں ہوتا۔ مالک فیصلہ کرتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ نوازشریف جب شاہد خاقان عباسی کو کہیں گے کہ چلے جاﺅ تو وہ چلے جائیں گے ان کی اپنی کوئی مرضی نہیں۔ پارٹی اگر شہبازشریف کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ شاہد خاقان عباسی سے بہت بہتر وزیراعظم ہوں گے۔ پارٹی صدر بھی بن جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ سینٹ میں پاس ہونے والے پارٹی صدارت کے بل کو لوگ اس طرح دیکھ رہے ہیں کہ یہ عدالتی احکامات کے خلاف ہے اس لئے جب عدلت میں جائے گا تو فوراً اڑ جائے گا۔ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ عدالتت کل کو اپنا فیصلہ واپس بھی لے لے تو لے لے۔ یہی نہیں کہ اقامہ تو تھا کون سی بڑی بات تھی۔ مریم نواز بھی کہہ چکی ہیں کہ انہیں بچوں سے تنخواہ نہ لینے پر نکالا گیا۔ میرا خیال ہے کہ ایک ایسا این آر او آ جائے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا سو ہوا سب کو معاف کر دیا جائے۔ جیلوں کے گیٹ کھول دیا جائے اور سب کو رہا کر دیا جائے۔ جس طرح عمران خان کہتا ہے کہ بے قصوروں کو کیوں پکڑتے ہو۔ جیلوں میں سیدھا سیدھا کلیر یہ ہے کہ اتنا پیسہ ایک سائیڈ پر رکھ دو اور قتل کر دو یہ عام بات تھی کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو پیسے دو وہ تمہیں رات کو باہر نکال دے۔ ایک بلوچ لیڈر کو رات دس بجے باہر نکالتے تھے وہ بازار حسن سے گانا سن کر آتا تھا۔ میں اس کے ساتھ والے کمرے میں تھا۔ آ کر تڑیاں دیتا تھا کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ گیارہ بارہ بجے واپس ااتا تھا۔ سب کے کمروں کو تالا لگا ہوتا تھا۔ اس کا دروازہ کھلا ہوتا تھا۔ اس کے بعد دوسرے معاملات آتے ہیں یعنی کہیں زور، کہیں دھمکیاں، کہیں تڑیاں، کہیں رشوت، کہیں جھوٹے مقدمے، کہیں گواہوں کی خریدوفروخت شروع ہو جاتی ہے۔ اب لوگوں میں یہ تاثر ہے کہ کروڑوں میں وکیل کرنے کی بجائے ”جج کر لو“ مجرمان کھلے عام جرم کرتے ہیں بعد میں خبر آئی ہے کہ صلح ہو گئی۔ ہمارے سیاستدانو ںکو کچھ تو تہذیب کا خیال رکھنا چاہئے۔ خورشید شاہ کا کہا کہ ”تھوک کر چاٹ لیا“ عجیب بات ہے کہ لوگ سیاست میں تہذیب بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ خورشید شاہ صاحب کے بارے ان کے حلقے سے معلوم تو کریں کہ وہ سیاست میں آنے سے پہلے کیا کرتے تھے ضروری نہیں کہ انہیں اپوزیشن لیڈر سے ہٹا دیا جائے۔ 14 ویں ترمیم کی وجہ سے لوگوں کی قبر کھود دی گئی ہے لوگ نہیں جانتے اس سے کیا ہوا ہے؟ اس کے مطابق اگر کوئی رکن پارلیمنٹ یا سینٹ میں پارٹی کے خلاف بیان دیتا ہے تو اس کی سیٹ ختم۔ ایک طرف تو آزادی رائے کی بات کرنا ہی دوسری طرف طوطے کی جان قید کر لی گئی ہے۔ خورشید قصوری کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پارٹی میٹنگ میں تو کوئی شخص اختلاف کر سکتا ہے لیکن پارلیمنٹ اور سینٹ میں اپنے لیڈر کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتا۔ پارٹی کا حکم حتمی ہے۔ یہ تو فاشسٹ قسم کی بادشاہت ہے۔ جمہوریت کا دور تک اس سے تعلق نہیں پاکستان کے ایک بہت بڑے کاروباری کے بارے میں سپریم کورٹ فیصلہ دیتا ہے کہ اس کی اتنے ہزار ایکڑ زمین جو آصف زرداری صاحب نے انہیں پلیٹ میں رکھ کر دے دی۔ انہوں نے سوئیٹوں میں ان کے لئے گھر بنائے ان کے کمرشل پلازے بنائے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی وہ زمین چھن گئی انہوں نے جواب دیا۔ میں رٹ میں جاﺅں گا۔ کہا جنہوں نے فیصلہ دینا ہے ان کے بیوی بچوں نے باہر نہیں جانا؟ انہیں گھر نہیں چاہئیں؟ انہیں پلاٹ نہیں چاہئے۔ ہم نے کہا ہمارے جج ایسے نہیں۔ انہوں نے مسکرا کر کہا ہمارے خلاف فیصلہ آ گیا ہے چند دنوں بعد دیکھنا اس فیصلے کا کیا ہوتا ہے۔ مریم نواز کی سوچ الگ ہے۔ نعیم الحق کا انداز محتلف ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ میرے والد 20 کروڑ عوام کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اسحاق ڈار جیسا پیسوں والا کیس، خلاف آتے نہیں دیکھا۔ ہمارے لیڈروں کو شاید انسانوں کی بجائے جانوروں سے زیادہ وفاداری ملتی ہے اس لئے وہ کتے اور بلیاں پالتے ہیں۔ مشرف صاحب نے اپنا پہلا انٹرویو کتے بٹھا کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ”اتاترک“ کی طرز پر انٹرویو دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں بھی یہی لکھا ہے۔ عابدہ حسین کے والد فوج میں تھے وہ ان کے زمانے سے گھوڑے پالتی ہیں ان کے والد ریس کے گھوڑے پالتے تھے۔ پیرپگاڑا بھی ریس کے گھوڑے پالتے ہیں۔ آصف زرداری صاحب نے زمانہ صدارت میں ایوان صدر میں بھی گھوڑے پال رکھے تھے۔ وہ پولو بھی کھیلتے تھے۔ ریحام خان بھی پپی پالتی تھی لیکن عمران خان ہیوی اور خونخوار کتے ان کے بستر پر تھے۔ جب وہ سونے گئیں تو کتوں کو وہاں دیکھا۔ اس پر اختلاف شروع ہو گیا۔

عزا ءداری کی ابتداءکب کہاں اور کیوں ہوئی ؟

لاہور (خصوصی رپورٹ) لاہور میں مغلوں کی آمد کے بعد عزاداری کی ابتدا ہوئی اور عہد جہانگیری میں ملکہ ہند نورجہاں نے ایرانی طرز پر لاہور میں عزاداری کی مجلسوں کی سرپرستی شروع کی مگر مجالس عزاداری کیلئے باقاعدہ امام بارگاہوں (امام باڑوں) کا قیام مہاراجہ
رنجیت سنگھ کے دور 1825-28ءکی دہائی میں شروع ہوا۔ امام بارگاہ اس مقام کو کہاجاتا ہے جہاں فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے افراد محرم الحرام کے مہینے میں مراسم عزاداری سرانجام دیتے ہیں۔ امام بارگاہ میں واقعہ کربلا کا تذکرہ علماءو ذاکرین اپنے مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں۔ امام بارگاہ کے لغوی معنی امام عالی مقام کی یادگار یعنی ایسی جگہ یا مقام جو حضرت امام حسینؓ کے نام پر وقف ہو۔ امام بارگاہ کی عمارت میں مجالس و محافل کیلئے ایک وسیع ہال تعمیر کیا جاتا ہے جس کی دیواروں پر شہدائے کربلا کے نام کندہ ہوتے ہیں اور یہاں تعزیہ بھی رکھا جاتا ہے۔ امام بارگاہ کا منتظم ”متولی“ کہلاتا ہے جس کے پاس مجالس اور جلوس نکالنے کا سرکاری لائسنس ہوتا ہے۔ امام بارگاہ کے علاوہ عزاداری منعقد کرنے کیلئے مختلف گھروں کو ”عزاخانہ“ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جہاں صرف ایام عزا میں مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لاہور میں فقیر اور قزلباش خاندان شروع ہی سے امام بارگاہوں کی سرپرستی کرتے آ رہے ہیں۔ فقیر خاندان کے مورث اعلیٰ سید غلام شاہ بخاری تھے جو آخری مغلیہ عہد میں بسلسلہ روزگار لاہور آئے اور نواب عبدالصمد ان ناظم لاہور کے ہاں ملازم ہوئے۔ آپ کے فرزند سید غلام محی الدین تھے جو بعد میں محی الدین ”فقیر نوشہ ثانی“ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کے تین فرزند تھے اور تینوں نے خوب نام کمایا۔ بڑے فرزند فقیر سید عزیزالدین مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وزیرخارجہ اور مشیر خاص کے علاوہ مہتمم دفتر مال و سول معاملات تھے۔ دوسرے فقیر بیٹے سید امام الدین محافظ شاہی خزانہ اور قلعہ دار گوبند گڑھ تھے جبکہ تیسرے بیٹے فقیر سیدنورالدین وزیر داخلہ‘ ممبر ریجنسی کونسل‘ گجرات‘ جالندھر اور لاہور کے گورنر تھے۔ کوچہ فقیر خانہ اور بازار حکیماں اندرون بھاٹی گیٹ میں اس خاندان کی حویلیاں اور امام بارگاہیں اب تک موجود ہیں۔ فقیرخانہ میوزیم اندرون بھاٹی گیٹ کے دستاویزات اور سینہ بہ سینہ روایات کے مطابق لاہور میں سب سے پہلی امام بارگاہ محلہ پیر گیلانیاں اندرون موچی دروازہ ”سیدے شاہ“ نے قائم کی۔ فقیرخانہ میوزیم کے ڈائریکٹر فقیر سید سیف الدین کے مطابق سکھ دور میں ”سیدے شاہ“ کی امام بارگاہ کو مرکزی امام بارگاہ کی حیثیت حاصل تھی۔ اس امام بارگاہ میں لاہور کے تمام ماتم گسار لوگ عاشورہ کی رات جمع ہوتے تھے۔ اس وقت تک مبارک حویلی ضبط سرکارسکھی تھی اور موچی دروازے میں ”سیدے شاہ“ کی امام بارگاہ کے علاوہ کوئی اور امام بارگاہ نہیں تھی۔ اب جو موچی دروازے میں قزلباش خاندان کی امام بارگاہیں وہ سب بعد میں الاٹ ہوئیں۔ سیدے شاہ کے زمانے میں ذوالجناح کا جلوس نکالنے کا رواج نہیں تھا۔ یہ لوگ تعزیئے نکالتے جنہیں ٹھیک اس مقام پر دفن کیا جاتا تھا جہاں اب کربلا گامے شاہ کی امام بارگاہ موجود ہے۔ ان تعزیوں کی رکھوالی کیلئے ”سیدے شاہ“ کے بیٹے ”غلام علی“ المعروف ”گامے شاہ“ بیٹھتے تھے جو اس وقت نوجوان تھے۔ یہاں دفن شدہ تعزیہ کو چند روز بعد نکال لیا جاتا تھا۔ تعزیئے اس دور میں بھی بہت قیمتی اور خوبصورت بنائے جاتے تھے۔ سیدے شاہ کی امام بارگاہ میں عاشورہ کی رات مردوں کے ساتھ خواتین بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتی تھیں۔

اب یہ امام بارگاہ معدوم ہو چکی ہے۔ راقم نے اس امام بارگاہ کے مقام کی تلاش کیلئے فقیر سید سیف الدین کے ساتھ مل کر بڑی تحقیق کی مگر تاحال اس کے متعلق کوئی مستند معلومات فراہم نہ ہوسکیں۔ ممکن ہے کہ یہ امام بارگاہ کسی اور نام میں تبدیل ہو چکی ہو‘ یہ بھی ممکن ہے کہ بعدازاں اسے کربلا گامے شاہ منتقل کر دیا گیا ہو….؟ فقیر خاندان کی قدیم ترین امام بارگاہ ”مقبول امام“ بازار حکیماں اندرون بھاٹی دروازہ واقع ہے جو 1865-70ءکی دہائی میں قائم ہوئی۔ دوسری امام بارگاہ خان بہادر ڈپٹی فقیر سید جمال الدین کے نام سے بازار حکیماں میں واقع ہے۔ یہ امام بارگاہ صوبائی محکمہ اوقاف کے زیرانتظام ہے۔