کوئٹہ (بیورو رپورٹ) کوئٹہ کی چمن ہاو¿سنگ سوسائٹی میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں ڈی آئی جی حامد شکیل سمیت 3پولیس اہلکار شہید اور 8افراد زخمی ہو گئے ،دھماکہ اس وقت ہوا جب حامد شکیل ڈیوٹی پر جانے کےلئے گھر سے نکل رہے تھے،زخمیوں میں بھی چار پولیس اہلکار شامل ، پولیس وین سمیت 3گاڑیاں تباہ،قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا،جائے وقوعہ سے خود کش بمبار کے اعضاءسمیت شواہد اکٹھے کر لئے گئے،وزیر اعلیٰ کا تحقیقات کا حکم،صدر ،وزیر اعظم اور آرمی چیف سمیت اہم شخصیات کی جانب سے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت،دہشتگردی کیخلاف جنگ منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ ۔تفصیلات کے مطابق جمعرات کی صبح کوئٹہ میں چمن ہاو¿سنگ سوسائٹی میں اس وقت خود کش حملہ کیا گیا جب ڈی آئی جی موٹر ٹرانسپورٹ اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن حامد شکیل اپنے گھر سے نکل کر ڈیوٹی پر جانے کےلئے پولیس وین میں سوار ہو رہے تھے۔اس دوران خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں ڈی آئی جی حامد شکیل اور اے ایس آئی رمضان سمیت 3پولیس اہلکار شہید اور پولیس اہلکاروں سمیت 8افراد زخمی ہوئے ۔دھماکے کی زد میں آکر ڈی آئی جی کی پولیس وین سمیت 4گاڑیاں تباہ ہو گئےں ۔ایس ایس پی آپریشنز نصیب اللہ نے دھماکے میں ڈی آئی جی حامد شکیل سمیت 3 اہلکاروں کی شہادت کی تصدیق کی۔دھماکے میں شہید ہونے والے حامد شکیل ایس ایس پی ٹریفک کے طور بھی فرائض سرانجام دے چکے تھے۔دھماکےکے زخمیوں کو کمبائنڈ ملٹری ہسپتال(سی ایم ایچ)منتقل کردیاگیا، جہاں دو پولیس اہلکاروں کی حالت تشویش ناک بتائی گئی۔ڈائریکٹر سول ڈیفنس اسلم ترین کے مطابق دھماکا خود کش تھا، تاہم اس حوالے سے حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ خودکش حملہ آور پیدل تھا یا موٹرسائیکل پر سوار تھا۔ دھماکے میں 10 سے 15 کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق مبینہ خود کش دھماکے میں اے آئی جی حامد شکیل، اے ایس آئی رمضان اور ڈرائیور جلیل شدید زخمی ہوئے مگر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے جبکہ دھماکے میں کانسٹیبل عمران، کانسٹیبل عاصم، کانسٹیبل عین الدین سمیت 8 افراد زخمی ہو گئے جنہیں فوری طور پر سی ایم ایچ اور سول ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ڈاکٹز کے مطابق 2 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے، دھماکے میں 2 پولیس موبائل اور 2 موٹر سائیکلز کو بھی نقصان پہنچا ۔دوسری جانب خودکش حملہ آور کے جسمانی اعضا کو قبضے میں لے کر انہیں فرانزک ٹیسٹ کے لیے بھجوا دیا گیا۔اس سے قبل دھماکے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی اور ریسکیو ادارے موقع پر پہنچے اور جائے وقوع کو سیل کرکے شواہد اکٹھے کرنے کا کام شروع کردیا گیا تھا۔تاحال کسی گروپ نے واقعہ کی ذ مہ داری قبول نہیں کی ۔واقعہ کے بعد فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سر آپریشن بھی کیا تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناءاللہ زہری نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور پولیس سے رپورٹ طلب کر لی ہے ۔دوسری جانب صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے ۔صدر اور وزیر اعظم نے زخمیوں کو ہر ممکن امداد کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ دہشتگردی کےخلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے اور آخری دہشتگرد کے خاتمے تک کارروائیاں جاری رہیں گی۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ خودکش دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ ڈی آئی جی حامد شکیل جیسی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ آرمی چیف نے قیام امن کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کو بھی سراہا،سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق،وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور دیگر اہم شخصیات نے بھی واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے ۔واضح رہے کہ کوئٹہ دھماکے میں شہید ہونے والے ڈی آئی جی حامد شکیل بلوچستان پولیس کے ہونہار، نڈر اور بے باک افسر کے طور پر جانے جاتے تھے، انہیں 6 ماہ قبل پروموشن کے بعد ڈی آئی جی موٹر ٹرانسپورٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن بلوچستان تعینات کیا گیا تھا۔بلوچستان کے ضلع خضدار میں پیدا ہونے والے حامد شکیل 1988 میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے محکمہ پولیس میں ڈی ایس پی بھرتی ہوئے تھے۔ان کے والد پاک فوج میں افسر تھے، بطور ڈی ایس پی تعیناتی کے بعد حامد شکیل ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ایس پی، ایس ایس پی اور پھر ایڈیشنل آئی جی کےعہدوں پرفرائض کی انجام دہی کے بعد ڈی آئی جی موٹر ٹرانسپورٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن تعینات کیے گئے تھے۔انہوں نے ایس پی کوئٹہ سٹی، صدر اور بعد میں ایس ایس پی آپریشن، ایس ایس پی انویسٹی گیشن، ایس ایس پی ٹریفک اور ایس ایس پی قلعہ عبداللہ کے طور بھی خدمات سرانجام دیں۔اس دوران وہ اے آئی جی ایڈمن اور ڈیویلپمنٹ بھی رہے۔حامد شکیل چار ماہ میں دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے تیسرے پولیس افسر ہیں۔گذشتہ ماہ 18 اکتوبر کو کوئٹہ میں فورسز پر حملوں کے نتیجے میں ایلیٹ فورس کے جوانوں اور پولیس انسپکٹر سمیت 6 اہلکار شہید ہوگئے تھے جب کہ دیگر 2 افراد بھی دھماکے میں جاں بحق ہوئے تھے۔اس سے قبل 13 اکتوبر کو بھی کوئٹہ کے فقیر محمد روڈ پر فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار جاں بحق جب راہ گیر سمیت 3 افراد زخمی ہوئے تھے۔