لاہور (شعےب بھٹی سے) پاکستان میںپولیس کی جانب سے ملزموں اور بے گناہ افراد پرتشدد کرناکوئی نئی بات نہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جبکہ بعض اوقات متاثرہ افراد تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق بھی ہو جاتے ہیں ۔ پولیس تشدد کے واقعات میں پنجاب پولیس پہلے نمبر پر ہے جبکہ سندھ پولیس دوسرے نمبر پر ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں تحقیق اور جدید سائنسی طریقوں میں پولی گرافک ٹیسٹ کے متعا رف کے با وجود 2010سے رواں سال کے10ما ہ کے دوران پاکستان بھر سے پولیس تشدد کے کل29584واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ۔ خبرےں کی تحقےقات ر پو رٹ کے مطابق 26 جون 1987ءکو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے زیر حراست ملزمان پر قبول جرم کے لیے بہیمانہ تشدد، انسانیت سوز اور توہین آمیز برتاﺅ کے خلاف کنونشن کی منظوری دی تھی۔ جون 2010ءمیں حکومت پاکستان نے بھی اس کنونشن کی توثیق کر دی تھی۔ مگر ملک میں تھانہ کلچر تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے ہماری ریاست کا سیاسی، سماجی اور انتظامی ڈھانچہ پولیس تشددکی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے پولیس تشدد کا شکار بیشتر لوگ ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دوران تفتیش زیرحراست افراد پرتھرڈ ڈگری تشدد کے اس قدر ظالمانہ اور سفاکانہ طریقے اختیارکئے جاتے ہیں کہ جن کے ذکر سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جن میں”چھترمارنا” ,ڈانگ پھیرنا، چھت سے لٹکانے کے مختلف طریقے، رسہ پر چڑھانا، پنکھا چلانا، پاﺅں اور سر کو رسی سے باندھ کر ایک کر دینا، شلوار میں چوہے چھوڑنا، ٹائر ڈالنا،گوبر لگانا، ٹانگیں رسی سے باندھ کر چوڑی کرنا، جسم کے نازک حصوں کو مختلف طریقوں سے ضرب دے کر تکلیف پہنچا نا،پان لگانا، سگریٹ سے داغنے کے علاوہ غلیظ گالیاں دینا مقدمہ میں ملوث افراد کے اہل خانہ کو گرفتار کر کے ان کی تذلیل و بے حرمتی کرنا، خواتین ملزموں کے ساتھ ذےا تی جیسے طریقے شامل ہیں۔ پولیس تشدد کے واقعات میں پنجاب پولیس پہلے نمبر پر ہے جبکہ سندھ پولیس دوسرے نمبر پر ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں تحقیق اور جدید سائنسی طریقوں کے متعارف کیے جانے کے بعد یہ تصور ابھرا کہ کسی جرم کی تفتیش اور اقبالِ جرم کے لیے مشکوک فرد یا افراد پر تشدد کے علاوہ دیگرسائنسی طریقے جیسے پولی گرافک ٹیسٹ اور نفسیاتی طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیںجو خاصی حد تک کامیاب ہیں پاکستان میں جہاں پوراریاستی ڈھانچہ جوابدہی کے جھنجٹ سے آزاد ہے پولیس کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ نوآبادیاتی دور کے انتظامی ڈھانچے،میرٹ کی جگہ کوٹے، قابلیت کی جگہ سفارش اور اہلیت کی جگہ رشوت اور سیاسی تقرریوں کی وجہ سے پولیس عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے حکمرانوں اور با اثر افراد کی آلہ کار بن گئی۔تشدد پولیس کے پاس ایک ایسا حربہ ہے جس کے ذریعے کسی بھی ملزم سے کوئی جرم منوایا جا سکتا ہے۔ پنجاب پولیس کے تربیتی اداروں میں بھی پولیس افسروں اور اہلکاروں کو تفتیش کیلئے سائنسی بنیادوں پر تربیت دینے کی بجائے روایتی طریقوں سے تشدد اور بد تمیزی کا سبق دیا جاتاہے۔ فیلڈ میں پولیس اہلکار اپنے بڑوں سے تفتیش کا ایک ہی گر سیکھتے ہیں کہ دوران تفتیش مغز ماری اور محنت کرنے کی بجائے ملزم کو تشدد لگاﺅ اور اس سے اپنی مرضی کا بیان لیکر اور جرم منوا کر چالان کر دو۔ مقدمہ کے اندارج کے بعد تفتیشی افسر جب ملزم کو گرفتار کر کے اس کا جسمانی ریمانڈلیتا ہے تو ہمارے ہاں جسمانی ریمانڈ تفتیش کا ایک ہی گر سیکھتے ہیں کہ دوران تفتیش مغز ماری اور محنت کرنے کی بجائے ملزم کو تشدد لگاﺅ اور اس سے اپنی مرضی کا بیان لیکر اور جرم منوا کر چالان کر دو۔ مقدمہ کے اندارج کے بعد تفتیشی افسر جب ملزم کو گرفتار کر کے اس کا جسمانی ریمانڈلیتا ہے تو ہمارے ہاں جسمانی ریمانڈ کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اب پولیس کو ملزم پر تشدد کرنے کا قانونی حق مل گیا ہے۔ حالانکہ پولیس کو کسی بھی زیر حراست ملزم پر تشدد اور خاص طور پر سرعام تشدد کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ تفتیشی افسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ مہارت سے جرام کا سراغ لگائے۔بااثر افراد کے قائم کیے ہوئے عقوبت خانے طاقت کے اظہار کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے حکمرانوں، سیاستدانوں اور مراعات یافتہ طبقے کی شہ پر پولیس نے بھی تھانوں میں عقوبت خانے قائم کیے ہوئے ہیں، جہاں مختلف تعزیرات کو بنیاد بنا کر ملزمان پر اقبال جرم کے لیے بدترین تشدد کیا جاتا ہے۔ اس تشدد کے نتیجے میں اندرونی چوٹوں کی تاب نہ لاتے ہوئے کئی ملزمان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مگر ایسا بہیمانہ تشدد کرنے والوں کو کبھی عدالت کے کٹہرے میں پیش نہیں کیا جاتا۔ عدالتی مداخلت اور میڈیا سمیت سول سوسائٹی کی تھانوں تک رسائی پر پولیس نے اپنے رویے تبدیل کرنے کے بجائے ان عقوبت خانوں کو تھانوں سے باہر نجی مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔جہاں ملزمان کو عدالت میں پیش کیے بغیر کئی کئی روز تک بدترین اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انھیں اقبال جرم پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تشدد کے نتیجے میں ملزم کے مر جانے کی صورت میں اس کی لاش کسی ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے۔جبکہ یہاں بے گناہ شہریوں کو ہراساں کر کے ان سے رقم بٹوری جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نجی طور پر قائم کردہ پولیس کے عقوبت خانے اوپر سے نیچے تک پولیس افسران اور اہلکاروں کی ناجائز آمدنی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔پاکستان پینل کوڈ اور کرمنل پروسیجر کوڈ پولیس کو پابند کرتا ہے کہ وہ کسی بھی جرم کے شک میں گرفتار کیے گئے ملزم کو 24 گھنٹوں کے اندر فوجداری عدالت کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے اس سے تفتیش کے لیے ریمانڈ حاصل کرے، مگر بیشتر کیسوں میں ایسا نہیں کیا جا رہا۔ پولیس ایکٹ کی دفعہ156کے تحت تشدد کرنے والے پولیس ملازمین کو 3سال کی قید ہو سکتی ہے جبکہ تعزیرات پاکستان کے تحت پولیس تشدد، زخم لگانے یا حبس بے جا میں رکھنے کی سزا بھی موجود ہے اورکسی بھی زیر حراست یا گرفتار ملزم پر تشدد قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔ اورذمہ دار پولیس افسر یا اہلکار کو پانچ سال قید اور جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے تا ہم تشدد کا جرم قابل راضی نامہ ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور کیے گئے چارٹر کے مطابق ہر وہ شخص (ملزم) بے گناہ اور معصوم ہے، جب تک کہ عدالت اس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے اسے اس جرم کا مرتکب قرار نہیں دے دیتی۔ پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ عدالتی ریمانڈ کے بغیر کسی بھی شہری کو اپنی تحویل میں 24 گھنٹے سے زائد عرصے کے لیے رکھے۔ایک رپورٹ کے مطابق جن خاص خاص شہروںمیں پولیس تشدد کے سب سے زیادہ واقعات رونماہوئے ان میںلاہورسر فہرست رہا اس کے بعدملتا ن ، فیصل آباد، سیالکوٹ، کراچی، سکھر، خےرپور، نواب شاہ ، حےدرآباد اور گجرانوالہ شامل ہےں۔ذرا ئع کے مطا بق2010سے رواں سال کے10ما ہ کے دوران پاکستان بھر سے پولیس تشدد کے کل29584واقعات رپورٹ ہوئے۔ اعداد و شمار کے سالانہ جائزے کے مطابق 2010 میں 931 ، 2011 میں1855 ، 2012 میں1996، 2013 میں 8238، 2014 میں2980، 2015 میں3356، 2016 میں4662، 2017 کے 10ما ہ کے دوران 5566 واقعات ہوئے جبکہ ہر سال ان واقعات کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے ۔ذرائع کے مطابق ملک بھر میں پولیس تشدد کی ہر ماہ سےنکڑوں شکایات موصول ہوتی ہیں۔ سابق گورنر سلمان تاثیر کو لاہور کے مصطفیٰ آباد تھانے میںتشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ نیلام گھر والے طارق عزیز کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ وزیر قانون رانا ثنا اللہ کو فیصل آباد کے ایک تھانے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری پر کراچی میں پولیس تشدد ہوا ۔ جاوید ہاشمی، ملک قاسم ، رانا نذر الرحمان پر تشدد کیا گیا۔ جبکہ لاتعداد سیاسی ورکروں کوتشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مہذب معاشرے میں قانون کی حفاظت کرنے والوں سے اس طرح کی قانون شکنی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
