اسلام آباد(ویب ڈیسک )سینیٹر راجہ ظفر الحق کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) کی تحقیقاتی کمیٹی نے الیکشن ایکٹ 2017ءکے مسودے میں ختم نبوت کے حوالے سے قابل اعتراض تبدیلیاں شامل کرنے کا ذمہ دار وزیر قانون زاہد حامد کو قرار نہیں دیا۔ اس کے برعکس، مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کو کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں ”ایک اور شخص“ کا ذکر کیا ہے جس نے پارلیمانی کمیٹی کی سطح پر یہ مسودہ تحریر کیا تھا۔رپورٹ میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ”یہ لوگ کون تھے“ لیکن صرف ایک شخص کا ذکر کیا گیا ہے جس نے یہ مسودہ تیار کیا تھا۔ اگرچہ تحقیقاتی کمیٹی نے ”ذمہ دار کیخلاف کارروائی“ کی سفارش کی تھی لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اس میں کہیں کوئی سازش تو نہیں تھی۔راجہ ظفر الحق کی زیر قیادت تحقیقاتی کمیٹی کی بنیاد پر یہ معلوم کرنے کیلئے مزید تحقیقات کی ضرورت ہوگی کہ یہ قابل اعتراض تبدیلیاں غلطی سے قانون میں شامل ہوئیں تھیں یا کسی سازش کے تحت انہیں شامل کیا گیا تھا۔ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ نواز شریف کو ا±س وقت پیش کی گئی جب وہ لندن میں تھے۔نواز لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر نواز شریف رپورٹ میں ذمہ دار قرار دیئے جانے والے شخص کو عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے لیکن بعد میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ تھوڑا انتظار کیا جائے کیونکہ اس طرح کی کارروائی کے نتیجے میں ا±س شخص کی سلامتی اور زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ عمومی تاثر اور سوشل میڈیا پر موجود غیر مصدقہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ وزیر قانون نے مبینہ طور پر یہ متنازع تبدیلیاں تحریر کی تھیں۔ تاہم، تحقیقاتی کمیٹی نے کسی اور شخص کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔باخبر ذرائع نے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر قانون پارلیمانی کمیٹی میں مسودے میں موجود سنگین غلطی کو پکڑنے میں ناکام ہوگئے تھے اور مسودہ پارلیمانی کمیٹی میں پیش کردیا۔تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو وزیر قانون نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور کہا کہ یہ دیکھنا ان کی بنیادی ذمہ داری تھی کہ مسودے میں کہیں کوئی متنازع چیز تو شامل نہیں کی گئی لیکن قانونی فراست، تجربہ اور قانونی زبان پر مہارت ہونے کے باوجود وہ اپنے فرائض انجام نہ کر پائے۔
