تازہ تر ین

محمود اچکزئی، اسفند یار ولی کے ملک دشمن بیانات نے بھید کھول دیا، بلوچستان آزاد، پختونخوا افغانستان کا حصہ، تہلکہ خیز انکشافات

لاہور(توصیف احمد خان)حال ہی میں سوئیزرلینڈ، امریکہ اور انگلینڈ میں گاڑیوں اور سڑکوں پر لگائے گے نام نہاد ”آزاد بلوچستان “ کے پوسٹر اور بینرز ایسا معاملہنہیں جسے آسانی سے نظرانداز کردیاجائے، اسے محض بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کا کام بھی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کے خلاف ایک منظم سازش کا حصہ ہے جس میں ان بلوچ عناصر کو استعمال کیا گیا ہے جبکہ وہ خود بھی استعمال ہونے کیلئے تیار ہیں، اس معاملے کا گہری نظر سے جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پس پردہ کچھ عالمی طاقتیں بھی ہیں جن کا مقصد اسرائیل کو پورے خطے میں تسلط دلاناہے ، اسکے لئے جو منصوبے بنائے گئے ہیں آزاد بلوچستان کے نعرے کا اسی سے تعلق ہے، گذشتہ کچھ عرصہ سے اس بارے میں باقاعدہ فضا ہموار کی جارہی ہے ، عراق ، شام ، یمن ، لیبیا اور دیگر ممالک کا بحران اس سلسلے کی کڑی ہے ، ان منصوبوں میں طے کیاگیا ہے کہ پورے مشرق وسطیٰ کو ایسے چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کردیاجائے جو آپس میں لڑ تے رہیں اور اسرائیل کی تابعداری کریں، گذشتہ چند برسوں سے مغربی میڈیا میں ان منصوبوں کی بازگشت اکثر سننے میں آتی رہی ہے، گلوبل ریسرچ کی ایک رپورٹ میں مشرق وسطیٰ کی سرحدوں کی ازسرنو تشکیل کی تفصیل دی گئی ہے ، کہا گیا ہے کہ یہ ایک نئے مشرق وسطیٰ کا پراجیکٹ ہے، ایک سابق امریکی یہودی کرنل رالف پیٹر کی کتاب میں بھی ”خونیں سرحدیں “ کے عنوان سے ایک مضمون شامل ہے جس میں نئے مشرق وسطیٰ کا ایک نقشہ دیاگیا ہے، جو سراسر عالم اسلام کی تباہی و بربادی کا منصوبہ ہے، منصوبے میں عرب ممالک کے علاوہ پاکستان ، ایران ، افغانستان اور ترکی کو بھی شامل کیا گیا ہے ، اس کا دعویٰ ہے کہ ملکوں کی سرحدیں کبھی جامد نہیں رہیں، ان میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے ، اسی یہودی نے پاکستان اور سعودی عرب کو غیر حقیقی مملکتیں قرار دیا ہے، 29ستمبر 2013کے نیویارک ٹائمز کے سنڈے ریویو میں رابن رائٹ کا ایک تجزیہ ہے جس میں سعودی عرب، شام ، لیبیا ، یمن اور عراق کو 14ممالک میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے ، جو فرقہ ورانہ بنیادوں پر قائم ہونگے، شیعہ اور سنی کے علاوہ کردوں کو بھی ان میں حصہ دار بنانے کا ذکر ہے ، سعودی عرب اور پاکستان کو غیر حقیقی ممالک قرار دیتے ہوئے انکی بڑے پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ کا ذکر ہے ، یہ تمام فریق اپنی شرانگیزی میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے مقدس ترین مقامات یعنی مکہ اور مدینہ کے بارے میں بھی ایک منصوبہ تیار کیا ہے ، منصوبہ یہ ہے کہ ان دونوں شہروں کے نظم و نسق کیلئے ایک کونسل بنادی جائے جس میں تمام مسلم ممالک اور تحریکوں کو نمائندگی حاصل ہو اور سب کو باری باری اختیارات حاصل ہوں، اس کونسل کی حیثیت ویٹی کن کی سی ہوگی جہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بحث و مباحثہ بھی کیا جائےگا، موجودہ سعودی مملکت کو ریاض اور اردگرد کے علاقوں تک محدود کردیاگیاہے۔ ان منصوبوں کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں بھی شرانگیزی کی گئی ہے ، ان قوتوں نے طے کیا ہے کہ سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا کو افغانستان کے حوالے کردیا جائے، شمال مغربی سرحدی قبائل افغانستان کے ساتھ مل جائیں گے، منصوبے میں بلوچستان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دکھایاگیا ہے ، مغربی ممالک میں آزاد بلوچستان کے حوالے سے چلائی جانے والی مہم بھی اسی منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہے، ہم پاکستان کے بعض لیڈروں کے بیانات پر غور کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا منصوبے سے گہرا تعلق ہے ، اس سلسلہ میں بلوچ لیڈر محمود خان اچکزئی اور سرحدی گاندھی غفار خان کے پوتے اسفند یار ولی کے بیانات خاص طور پر قابل غور ہیں، محمود اچکزئی نے کچھ عرصہ پہلے بیان دیاتھا کہ کوئی مائی کالال افغان مہاجرین کو کے پی کے سے نہیں نکال سکتا کیونکہ یہ انکا بھی علاقہ ہے ، اس بیان سے تاثر ملتا ہے کہ مسٹر اچکزئی نہ صرف منصوبے سے پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کی ابتداءبھی کی جارہی ہے ، اسی طرح اسفندیارولی بھی خود کو افغانی قرار دیتے ہیں، اور اپنے آپ کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں ، ایسی ہی صورتحال انکے والد ولی خان اور دادا غفار خان کے حوالے سے تھی، منصوبے سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ آزاد بلوچستان کی حالیہ مہم گہری بین الاقوامی سازش ہے جس میں اسرائیل کا کردار اہم ہے۔ مذکورہ مہم اس منصوبے پر عملدرآمد کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔ منصوبے میں پاکستان کا وجود بہت مختصر سے علاقے پر مشتمل دکھایاگیا ہے۔ یہ علاقہ دریائے سندھ کا مشرقی حصہ ہے جو پنجاب اور سندھ کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔ تاہم اس میں مغربی کنارے سے کراچی کو بھی شامل کیا گیا ہے منصوبہ سازوں نے قرار دیا ہے کہ اس کے بعد پاکستان فطری ریاست بن سکے گا۔ پاکستان اور دیگر ممالک کے حوالے سے کرنل پیٹرر الف نے جو نقشہ تیار کیا ہے وہ جون 2006ءمیں امریکہ کے ”آرمڈ فورسز جرنل“ میں شائع ہو چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اگریہ سرکاری دستاویز نہیں لیکن اسے سینئر فوجی افسروں کیلئے ناٹو کے ڈیفنس کالج میں تربیتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ ان نقشوں میں سے ایک ہے جن میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کی سرحدوں کو پہلی جنگ عظیم والی پوزیشن پر دکھایا گیا ہے جب امریکہ میں ووڈرو ولسن صدر تھے۔ ان نقشوں کو نیشنل وار اکیڈمی اور فوجی منصوبہ بندی میں استعمال کیے جانے کا بھی امکان ہے۔ منصوبہ سازوں کا خیال ہے کہ اس پر عملدرآمد کی صورت میں مشرق وسطیٰ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔اس قسم کے نقشے پر اسلامی ممالک میں صرف ترکی نے احتجاج کیا تھا۔ 15 ستمبر 2006ءمیں ترکی کی طرف سے جو پریس ریلیز جاری کیا گیا اس میں نقشے پر بہت برہمی کا اظہار کیا گیا ، جو ناٹو کے روم (اٹلی) میں ملٹری کالج میں آویزاں تھا۔ نقشے میں ترکی کے حصے بخرے کرنے کا بھی ذکر ہے جسے دیکھ کر ترکی فوجی افسر غصے میں آ گئے۔ بتایا گیا ہے کہ ناٹو کالج میں آویزاں کرنے سے پہلے نقشے کو کسی نہ کسی حد تک امریکی نیشنل وار اکیڈمی کی منظوری بھی حاصل تھی۔ اس وقت کے ترک چیف آف سٹاف نے امریکی چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف سے رابطہ کیا اور ان سے نقشے کے بارے میں احتجاج کیا۔ تاہم امریکی حکام نے یقین دلایا کہ یہ نقشہ علاقے میں امریکی پالیسی کی عکاسی نہیں کرتا ، یہ وضاحت افغانستان میں ناٹو کی فوج کے اقدامات کے بالکل برعکس ہے۔اگرچہ ”ٹرانسپورٹ فار لندن “ نے آزاد بلوچستان کی اشتہاری مہم پر پاکستان سے معذرت کرلی ہے مگر یہ ایسا معاملہ نہیں جسے محض ایک معذرت سے ٹالا جاسکتا ہو، یہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہوتا ہے جس پر پاکستان کے عوام اور حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔لاہور(توصیف احمد خان)حال ہی میں سوئیزرلینڈ، امریکہ اور انگلینڈ میں گاڑیوں اور سڑکوں پر لگائے گے نام نہاد ”آزاد بلوچستان “ کے پوسٹر اور بینرز ایسا معاملہنہیں جسے آسانی سے نظرانداز کردیاجائے، اسے محض بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کا کام بھی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کے خلاف ایک منظم سازش کا حصہ ہے جس میں ان بلوچ عناصر کو استعمال کیا گیا ہے جبکہ وہ خود بھی استعمال ہونے کیلئے تیار ہیں، اس معاملے کا گہری نظر سے جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پس پردہ کچھ عالمی طاقتیں بھی ہیں جن کا مقصد اسرائیل کو پورے خطے میں تسلط دلاناہے ، اسکے لئے جو منصوبے بنائے گئے ہیں آزاد بلوچستان کے نعرے کا اسی سے تعلق ہے، گذشتہ کچھ عرصہ سے اس بارے میں باقاعدہ فضا ہموار کی جارہی ہے ، عراق ، شام ، یمن ، لیبیا اور دیگر ممالک کا بحران اس سلسلے کی کڑی ہے ، ان منصوبوں میں طے کیاگیا ہے کہ پورے مشرق وسطیٰ کو ایسے چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کردیاجائے جو آپس میں لڑ تے رہیں اور اسرائیل کی تابعداری کریں، گذشتہ چند برسوں سے مغربی میڈیا میں ان منصوبوں کی بازگشت اکثر سننے میں آتی رہی ہے، گلوبل ریسرچ کی ایک رپورٹ میں مشرق وسطیٰ کی سرحدوں کی ازسرنو تشکیل کی تفصیل دی گئی ہے ، کہا گیا ہے کہ یہ ایک نئے مشرق وسطیٰ کا پراجیکٹ ہے، ایک سابق امریکی یہودی کرنل رالف پیٹر کی کتاب میں بھی ”خونیں سرحدیں “ کے عنوان سے ایک مضمون شامل ہے جس میں نئے مشرق وسطیٰ کا ایک نقشہ دیاگیا ہے، جو سراسر عالم اسلام کی تباہی و بربادی کا منصوبہ ہے، منصوبے میں عرب ممالک کے علاوہ پاکستان ، ایران ، افغانستان اور ترکی کو بھی شامل کیا گیا ہے ، اس کا دعویٰ ہے کہ ملکوں کی سرحدیں کبھی جامد نہیں رہیں، ان میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے ، اسی یہودی نے پاکستان اور سعودی عرب کو غیر حقیقی مملکتیں قرار دیا ہے، 29ستمبر 2013کے نیویارک ٹائمز کے سنڈے ریویو میں رابن رائٹ کا ایک تجزیہ ہے جس میں سعودی عرب، شام ، لیبیا ، یمن اور عراق کو 14ممالک میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے ، جو فرقہ ورانہ بنیادوں پر قائم ہونگے، شیعہ اور سنی کے علاوہ کردوں کو بھی ان میں حصہ دار بنانے کا ذکر ہے ، سعودی عرب اور پاکستان کو غیر حقیقی ممالک قرار دیتے ہوئے انکی بڑے پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ کا ذکر ہے ، یہ تمام فریق اپنی شرانگیزی میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے مقدس ترین مقامات یعنی مکہ اور مدینہ کے بارے میں بھی ایک منصوبہ تیار کیا ہے ، منصوبہ یہ ہے کہ ان دونوں شہروں کے نظم و نسق کیلئے ایک کونسل بنادی جائے جس میں تمام مسلم ممالک اور تحریکوں کو نمائندگی حاصل ہو اور سب کو باری باری اختیارات حاصل ہوں، اس کونسل کی حیثیت ویٹی کن کی سی ہوگی جہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بحث و مباحثہ بھی کیا جائےگا، موجودہ سعودی مملکت کو ریاض اور اردگرد کے علاقوں تک محدود کردیاگیاہے۔ ان منصوبوں کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں بھی شرانگیزی کی گئی ہے ، ان قوتوں نے طے کیا ہے کہ سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا کو افغانستان کے حوالے کردیا جائے، شمال مغربی سرحدی قبائل افغانستان کے ساتھ مل جائیں گے، منصوبے میں بلوچستان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دکھایاگیا ہے ، مغربی ممالک میں آزاد بلوچستان کے حوالے سے چلائی جانے والی مہم بھی اسی منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہے، ہم پاکستان کے بعض لیڈروں کے بیانات پر غور کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا منصوبے سے گہرا تعلق ہے ، اس سلسلہ میں بلوچ لیڈر محمود خان اچکزئی اور سرحدی گاندھی غفار خان کے پوتے اسفند یار ولی کے بیانات خاص طور پر قابل غور ہیں، محمود اچکزئی نے کچھ عرصہ پہلے بیان دیاتھا کہ کوئی مائی کالال افغان مہاجرین کو کے پی کے سے نہیں نکال سکتا کیونکہ یہ انکا بھی علاقہ ہے ، اس بیان سے تاثر ملتا ہے کہ مسٹر اچکزئی نہ صرف منصوبے سے پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کی ابتداءبھی کی جارہی ہے ، اسی طرح اسفندیارولی بھی خود کو افغانی قرار دیتے ہیں، اور اپنے آپ کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں ، ایسی ہی صورتحال انکے والد ولی خان اور دادا غفار خان کے حوالے سے تھی، منصوبے سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ آزاد بلوچستان کی حالیہ مہم گہری بین الاقوامی سازش ہے جس میں اسرائیل کا کردار اہم ہے۔ مذکورہ مہم اس منصوبے پر عملدرآمد کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔ منصوبے میں پاکستان کا وجود بہت مختصر سے علاقے پر مشتمل دکھایاگیا ہے۔ یہ علاقہ دریائے سندھ کا مشرقی حصہ ہے جو پنجاب اور سندھ کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔ تاہم اس میں مغربی کنارے سے کراچی کو بھی شامل کیا گیا ہے منصوبہ سازوں نے قرار دیا ہے کہ اس کے بعد پاکستان فطری ریاست بن سکے گا۔ پاکستان اور دیگر ممالک کے حوالے سے کرنل پیٹرر الف نے جو نقشہ تیار کیا ہے وہ جون 2006ءمیں امریکہ کے ”آرمڈ فورسز جرنل“ میں شائع ہو چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اگریہ سرکاری دستاویز نہیں لیکن اسے سینئر فوجی افسروں کیلئے ناٹو کے ڈیفنس کالج میں تربیتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ ان نقشوں میں سے ایک ہے جن میں مشرق وسطیٰ کے ممالک کی سرحدوں کو پہلی جنگ عظیم والی پوزیشن پر دکھایا گیا ہے جب امریکہ میں ووڈرو ولسن صدر تھے۔ ان نقشوں کو نیشنل وار اکیڈمی اور فوجی منصوبہ بندی میں استعمال کیے جانے کا بھی امکان ہے۔ منصوبہ سازوں کا خیال ہے کہ اس پر عملدرآمد کی صورت میں مشرق وسطیٰ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔اس قسم کے نقشے پر اسلامی ممالک میں صرف ترکی نے احتجاج کیا تھا۔ 15 ستمبر 2006ءمیں ترکی کی طرف سے جو پریس ریلیز جاری کیا گیا اس میں نقشے پر بہت برہمی کا اظہار کیا گیا ، جو ناٹو کے روم (اٹلی) میں ملٹری کالج میں آویزاں تھا۔ نقشے میں ترکی کے حصے بخرے کرنے کا بھی ذکر ہے جسے دیکھ کر ترکی فوجی افسر غصے میں آ گئے۔ بتایا گیا ہے کہ ناٹو کالج میں آویزاں کرنے سے پہلے نقشے کو کسی نہ کسی حد تک امریکی نیشنل وار اکیڈمی کی منظوری بھی حاصل تھی۔ اس وقت کے ترک چیف آف سٹاف نے امریکی چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف سے رابطہ کیا اور ان سے نقشے کے بارے میں احتجاج کیا۔ تاہم امریکی حکام نے یقین دلایا کہ یہ نقشہ علاقے میں امریکی پالیسی کی عکاسی نہیں کرتا ، یہ وضاحت افغانستان میں ناٹو کی فوج کے اقدامات کے بالکل برعکس ہے۔اگرچہ ”ٹرانسپورٹ فار لندن “ نے آزاد بلوچستان کی اشتہاری مہم پر پاکستان سے معذرت کرلی ہے مگر یہ ایسا معاملہ نہیں جسے محض ایک معذرت سے ٹالا جاسکتا ہو، یہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہوتا ہے جس پر پاکستان کے عوام اور حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain