لاہور (خصوصی رپورٹ) اپوزیشن کی طرف سے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کی کوشش قومی اسمبلی کے فلور پر ناکامی سے دوچار ہوئی اور حکمران مسلم لیگ نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر میاں نوازشریف کی صدارت اس وقت بچا لی جب تک چیئرمین سینٹ صدر سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس پرائیویٹ ممبرز بل پر رائے شماری کی درخواست نہیں کرتے مگر ایوان میں اپنے 187اور اتحادیوں کے 35ارکان میں سے صرف 163ووٹوں سے بل کا مسترد ہونا مسلم لیگ ن کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ 163ووٹوں کا مطلب یہ ہے کہ حکومت سادہ اکثریت سے محروم ہو گئی کیونکہ حکومت سازی کیلئے 172ووٹ درکار ہیں۔ حکمران جماعت کے کم و بیش تین درجن ارکان کی غیرحاضری کو محض اتفاقیہ قراردینا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ 342کے ایوان میں جہاں نوازشریف کو 247اور شاہد خاقان عباسی کو 221ارکان نے اعتماد کا ووٹ دیا‘ حکومتی حمایت صرف 162تک محدود ہونے سے سنجیدہ نوعیت کے سوالات نے جنم لیا ہے‘ مثلاً میاں نوازشریف‘ مریم نواز اور دیگر مسلم لیگی رہنماﺅں کا یہ پراپیگنڈا دم توڑ گیا کہ ان کے ارکان پر اجلاس میں عدم شرکت کیلئے دباﺅ ڈالا جا رہا ہے اور انہیں نامعلوم نمبروں سے کالیں موصول ہو رہی ہیں۔ حکومتی رکن رجب علی بلوچ نے بھی اس کی تردید کی۔ کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کی پیشکش‘ انضباطی کارروائی کی دھمکی اور دیگر ترغیبات اور دباﺅ کے باوجود تین درجن ارکان کی غیرحاضری محض اظہار ناراضگی نہیں کیونکہ ناراضگی دور کرنے کیلئے تو وزیراعظم اور وزراءنے ہر ممکن کوشش کی بلکہ یہ کھلی بغاوت ہے جس کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے۔ رضا حیات ہراج نے اس کا سبب یہ بتایا کہ نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی عدالتی فیصلے کے مطابق نااہلی کو اہلیت میں بدل کر پارلیمنٹ کو عدلیہ کے سامنے کھڑا کر رہے ہیں جس سے یہ ارکان متفق نہیں۔ ریاض پیرزادہ جنہوں نے ترقیاتی فنڈز اور اپنی وزارت کیلئے گرانٹ منظور کرائی اور اس تاثر کو پختہ کیا کہ مسلم لیگی حکومت کی موجودگی کو مسلم لیگی ارکان اگلے الیکشن کی تیاری اور آمادہ سے آمادہ فنڈ بٹورنے کیلئے مفید تصور کرتے ہیں تاہم یہ سلسلہ ختم ہونے کے بعد وہ مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ تین درجن ارکان کی عدم شرکت یا بغاوت اوردو درجن سے زائد ارکان کی منت ترلے‘ ترغیب اور دباﺅ کے ساتھ شرکت سے یہ واضح ہو گیا کہ میاں نوازشریف کی عدلیہ مخالف مہم اور حکومتی اداروں سے ٹکرانے کی خواہش کو مسلم لیگ (ن) میں پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جا رہا اور ہوا کا رخ جانچنے میں طاق ارکان اسمبلی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فاصلہ پیدا کرتے چلے جائیں گے۔ ایوان میں ہونے والی ایک دو دھواں دھار تقریریں بھی ان ارکان کو باغیوں کے گروپ میںشامل ہونے کی ترغیب دیں گی۔ پارلیمنٹ بمقابلہ عدلیہ کے اس میچ میں کوئی عاقبت نااندیش ہی اپنے سیاسی مستقبل کو داﺅ پر لگا سکتا ہے۔