اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ خدا کا شکر ہے اسلام آباد اور لاہور کے دھرنے ختم ہو گئے اور یہ طے پایا کہ متنازعہ امور پر بھی متشددانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے مفاہمت اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کئے جائیں گے۔ انہوں نے یہ بات اتوارکو اپنی رہائش گاہ پر چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد، ایڈیٹر خبریں گروپ اور سی ای او چینل ۵ امتنان شاہد سے ملاقات میں کہی۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ مذہبی امور پر حالیہ دھرنوں نے سوچ میں انتہا پسندی کو جنم دیا اور یوں لگتا ہے کہ ان کے اثرات زائل ہونے میں کافی وقت لگے گا اگر یہ کہا جائے کہ ان دھرنوں نے پاکستان کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس دھرنے کے باعث پیدا ہونے والے حالات کے بعد بہت سارے پاکستانیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ملک چھوڑ جائیں گے اور میں خود ایسے بہت سارے خاندانوں کو جانتی ہوں جنہوں نے اس کشیدگی کے بعد طے کیا کہ اب ان کے بچے یہاں نہیں رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام دین رحمت ہے اور ملک کے سبھی طبقوں میں باہمی محبت اور رواداری کے جذبات کو فروغ دیتا ہے۔ ایک دوسرے کی بات کو صبر و تحمل سے سننا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا افسوس کی بات ہے کہ اسلام کا نام لے کر انتہا پسندی کی گفتگو کی گئی۔ بالخصوص غیر محتاط اور غیر سنجیدہ، غیر پارلیمانی انداز گفتگو کو فروغ ملا جبکہ کسی بھی مسلمان معاشرے میں شائستگی اور باہمی عزت و احترام کے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ انہوں نے مبصروں دانشوروں، علمائے کرام، اساتذہ کے علاوہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے ماہرین ابلاغیات کی توجہ اس جانب دلائی ہے کہ ہم مستقبل میں پاکستانی معاشرے کو کن خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ میڈیا کی بندش کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بعض میڈیا چینلز نے آپریشن کے آغاز پر ہی ایسے گانے اور مناظر دکھائے جو شدید تناﺅ کا باعث بنے۔ ہمارے پاس دو راستے تھے پہلا یہ کہ چینلز کو سمجھایا جائے اور ان سے بات کی جائے اور دوسرا یہ کہ تمام چینلز کو وقتی طور پر آف ایئر کر دیا جائے، ہم نے چینلز کی بندش سے پہلے یہ بات میڈیا ہاﺅسز کے علم میں لائی لیکن کسی قسم کا مثبت جواب نہ ملنے پر پاکستان کو مزید انتشار سے بچانے کے لئے چینلز بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا، سوچنے کی بات ہے کہ عام طور پر دھرنوں، جلوسوں میں روایتی کھانے فراہم کئے جاتے ہیں لیکن اسلام آباد کے حالیہ دھرنے میں بین الاقوامی ریسٹورانوں، گلوریا چینز، ہار ڈی اور پیزا ہٹ سے کھانے منگوا کر شرکاءکو کھلائے جاتے رہے۔ یہ کیسا دھرنا تھا جہاں چاولوں اور قورمہ کی دیگوں کے بجائے ہار ڈی، گلوریا چینز اور پیزا ہٹ کے کھانے اور کافیاں چلتی رہیں، اتنا مہنگا اور غیر ملکی ساختہ کھانا کھایا جاتا رہا۔ انہوں نے پاکستانی قوم سے کہا کہ وہ اسلامی اخوت اور رواداری پر مبنی معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرے۔