سانحہ ماڈل ٹاﺅن رپورٹ ،حقیقت ہے کیا ؟اصل ذمہ دار کون ۔۔۔ ؟

لاہور (ویب ڈیسک)ہائیکورٹ کی حکم نامے کی تعمیل کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی ہدایت پر گزشتہ روز باقر علی نجفی کی سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کی رپورٹ پبلک کردی گئی۔ جس کے باعث عوام کو جھوٹ ،سچ اور حقیقت کی کشمکش میں عجیب سی صورتحال کا سامنا ہے۔مگر یہاں حقیقت نمایا ں ہے اور جھوٹ و سچ بھی واضح ہے۔غیر موثر، غیر واضح، اورنقائص سے بھرپو ر اِس رپورٹ نے عوام میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی صوبے کے عوام کیساتھ لگاو¿ اور اخلاص کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔جن پہلوو¿ں کو سچ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ا±ن کا حقیقت سے تعلق نہیں تھا۔ اِس رپورٹ کی تفصیلات میں جانے سے پہلے یہ قابل غور باتیں کا جان لینا بہت ضروری ہیں کہ عام طو ایسے واقعات کی تحقیقات انسپکٹر اور سب انسپکٹر کے ذمے ہوتی ہے مگر وزیراعلیٰ شہبازشریف نے صاف اور جامع تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دی ، اور یہ عندیہ بھی دیا کہ اگر میں قصور وار ٹھہرایا گیا اور ایف آئی آر درج کی جائے۔ مگر جے آئی ٹی کی رپورٹ کو کمیشن کی رپورٹ کا حصہ نہ بنایا گیا جسکے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیرقانون پر سانحہ کی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی تھی۔جبکہ اِس باقر نجفی رپورٹ کی قانونی طور پر کوئی حیثیت نہیں۔دلچسپ بات تو یہ کہ اِس رپورٹ میں آخر میں لکھا گیا ہے قارئین نتائج خود اخذ کرلیں،کیونکہ رپورٹ میں اتنے جھول اور تضادات ہیں کہ ذمہ دار کا تعین کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔اِس رپورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی مورخہ 17-06-2014کو کی جانے والی پریس کانفرنس کو بالکل نظرانداز کیا گیا ہے جس میں اِنہوں نے ماڈل ٹاو¿ن واقعے کو انتہائی افسوس ناک اور انتہائی اندوہناک واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا ہم سب رنجیدہ ہیں اور بہت دل گیر ہیں اور خون کے آنسو دل رو رہا ہے۔ا±نہوں اِس بات سے بھی آگاہ کیا تھا کہ 17جون کی علی الصبح( 9بجے) مجھے اِس واقعے کا علم ہوا تو فوری طور پر آپریشن روکنے کی ہدایت کر دی۔کیونکہ حیرت انگیز طور پر باقر نجفی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”وزیراعلیٰ پنجاب نے کمیشن میں جمع کرائے گئے بیانِ حلفی میں تو ذکر کیا مگر پریس کانفرنس میں اِس بات کا ذکر نہیں کیا کہ ا±نہیں سانحہ کا علی الصبح خبر ہوئی “ جو ناقابل فہم ہے۔
یہاں قابل تشویش سوال یہ ہے کہ ایسی غیر مصدقہ خبروں پر مبنی رپورٹ کا پبلک کرنا کہیں انتشار کا باعث تو نہیں بن جائیگا؟کیونکہ اِن خدشات کا اظہار اظہار سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس خلیل الرحمن پر مشتمل ایک ر±کنی کمیٹی نے ٹربیونل کی فائنڈنگ اور سانحہ کے حالات و واقعات کے متعلق رپورٹ میں بھی کیا جاچکا ہے،جس میں جسٹس خلیل الرحمن نے حکومت کو تجویز کیا تھا کہ وہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو قبول نہ کرے کیونکہ یہ رپورٹ مفاد عامہ کے منافی ہے اور اسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن عامہ کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے کیونکہ کے مطابق ٹربیونل بہت سارے حقائق سامنے نہیں لائے اور ٹربیونل نے جو آبزرویشنز دیں وہ کسی ریکارڈ سے ثابت نہیں ہوتیں۔
جسٹس خلیل الرحمن نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ حکومت اس معاملے میں انکوائری کرے اور اس حوالے سے اسمبلی سے قانون منظور کروائے۔ 52صفحات پر مشتمل خلیل الرحمٰن رپورٹ میں کہا گیا کہ نجفی ٹربیونل نے وزیراعلیٰ کے حوالے سے جائے وقوعہ کو پولیس سے خالی کروانے سے متعلق جو فائنڈنگ دی ہیں یہ حقائق پر مبنی نہیں ہیں یہ ٹربیونل کی اپنی سوچ کی عکاس ہیں اور اس حوالے سے ٹربیونل کی اپنی رپورٹ میں تضادات ہیں۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مختلف ملکوں کے اس حوالے سے قوانین اور عدالتی فیصلوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ ٹربیونل نے بہت سے حقائق کو نظرانداز بھی کیا۔ آئی بی کی رپورٹ کو بھی نظرانداز کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ طاہر القادری کے گھر سے فائرنگ ہوئی جس سے 3پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ اس پہلو کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا یا گیا اور مظاہرین کی براہ راست فائرنگ سے کانسٹیبل ذیشان زخمی ہوا۔ کمیٹی نے لکھا کہ ٹربیونل نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ لکھتے ہوئے خود کو جج تصور کر لیا۔ یہ بھی تصور کیا گیا کہ وزیر قانون نے طاہر القادری کو اپنے مقاصد کے حصول کو پورا نہ ہونے دینے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ شہادت موجود ہے کہ وزیر قانون نے رکاوٹیں ختم کرنے کا فیصلہ قانون کے مطابق کیا اور اس کی کوئی اور وجوہات نہ تھیں۔ گواہوں کے بیانات ہیں کہ عوامی تحریک کے کارکنوں نے فائرنگ کی اور انٹرنیشنل مارکیٹ کی چھت پر پوزیشنیں لیں۔ کمیٹی نے لکھا کہ سٹی گورنمنٹ ایڈمنسٹریشن نے صرف غیرقانونی رکاوٹیں ختم کیں اگر یہ غیرقانونی تھا تو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا تھا۔ ٹربیونل نے ایک موقع پر خود اپنی رپورٹ میں دو متضاد موقف بھی اختیار کئے۔ ٹربیونل کا یہ کہنا کہ وزیراعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں پولیس کو ہٹانے کے حوالے سے اپنے احکامات کا ذکر نہیں کیا درست نہیں کیونکہ وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس کے آخر میں کہا تھا کہ جب انہیں صبح واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے فوری طور پر اس کا نوٹس لیا۔

مزید براں گزشتہ روز وزیرقانون پنجاب رانا ثناءاللہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس رپورٹ میں کسی حکومتی شخصیت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا، طاہر القادری فرماتے ہیں کہ سانحہ کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے یہ بتایا جائے کہ کارکنوں کو پولیس پر حملہ آور ہونے کے لیے کس نے کہا؟ وہ کون تھا جو انہیں اکساتا رہا؟ پوری رات شہادت کا کہتا رہا؟ ایسی صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا ذکر اس رپورٹ میں کیوں نہیں ہے؟انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں موقع پر موجود کسی پولیس اہلکار کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا، عوامی تحریک کی جانب سے کوئی شہادت جمع نہیں کرائی گئی، اس رپورٹ میں جن شواہد پر انحصار کیا گیا وہ شواہد درست نہیں اسی لیے وزیراعلیٰ سے کہا تھا کہ اگر رپورٹ پیش کی جاتی ہے تو معاملہ پیچیدگیاں پیدا کرے گا، اس رپورٹ کی اشاعت کو لارجر بینچ کے فیصلے سے منسلک کیا جائے۔وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں کوئی ایک شق نہیں ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دے صرف اتنا کہا گیا ہے کہ یہ معاملہ جب وزیر اعلیٰ کے نوٹس میں آیا تو انہوں نے یہ حکم دیا کہ مظاہرین سے نمٹا جائے، تصادم کی راہ خود عوامی تحریک کے کارکنوں نے پیدا کی، اس کمیشن میں پیش کردہ شواہد یک طرفہ ہیں، مختلف خفیہ اداروں کی رپورٹس میں دونوں اطراف سے فائرنگ کا ذکر ہے تاہم خفیہ اداروں کی وہ رپورٹس کمیشن میں شامل نہیں کی گئیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ نقائص سے بھرپور ہے، قانون کی نظر میں جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ غیر موثر ہے اس لیے یہ رپورٹ شہادت کے طور پر پیش نہیں کی جاسکتی اس رپورٹ کی اشاعت سے مقدمے کے ٹرائل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،ہائی کورٹ کا آج حکم آچکا ہے جس کے بعد وزیراعلیٰ نے حکم دیا ہے کہ رپورٹ پبلک کردی جائے چنانچہ آج اس رپورٹ کے مندرجات پڑھ کر سنارہا ہوں،یہ رپورٹ آج پبلک ہوچکی ہے، لارجر بینچ کا فیصلہ ہے کہ رپورٹ میں معلومات ہے جو عوام تک پہنچنی چاہیے تاہم بینچ نے قرار دیا ہے کہ اس رپورٹ کو شواہد کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔

لاہور گرائمر سکول کیخلاف شکنجہ تیار، ڈی جی ایل ڈی کا نوٹس ،شہریوں کیلئے عذاب تجاوزات نہ ہٹانے پر 5لاکھ جرمانہ ہوگا

لاہور (خبرنگار) لاہور گرائمر سکول گلبرک (ایل جی ایس) کے غیر قانونی تجاویزات ختم نہ کرنے پر ایل ڈی اے نے 5لاکھ جرمانہ،ایف آئی آرسمیت غیر قانونی تجاویزات ختم کرنے کا عندےہ دی دیا ۔ جبکہ روزنامہ خبریں میں شائع ہونے والی خبر پر ڈی جی ایل ڈی بھی ان ایکشن۔ ایل ڈی اے نے ڈی جی ایل ڈی اے کے حکم پر سکول بلڈنگ کی کمرشلیزیشن بارے تحقیقات شروع کردی ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ ایل ڈی اے کے ایک اعلیٰ افسر نے لاہور گرائمر سکول (ایل جی ایس) انتظامیہ کو غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کی وارننگ دی۔ تفصیلات کے مطابق لاہور گرائمر سکول واقع غالب مارکیٹ گلبرک تھری مےں تعمیر کی جانے والی غیرقانونی تجاوزات پر ڈی جی ایل ڈی اے خبریں کی نشاندہی پر ایکشن لے لیا ہے۔ انہوں نے متعلقہ افسران کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ اس پر فوری کاروائی کی جائے ۔متعلقہ افسران نے اس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے ایل ڈی اے اس بات کی بھی تحقیقات کررہا ہے کہ لاہور گرائمر سکول کی بلڈننگ کمرشل قوانین کے تحت تیار کی گئی تھی یا غیر کمرشل بنیادوں پر تعمیر کی گئی کیونکہ گلبرک ٹاون کا کہنا ہے کہ یہ ٹاون سے پاس شدہ نہیں ہے ۔ واضح رہے اس پہلے ٹریفک سےکٹر گلبرک بھی سکول انتظامیہ کو روڈ رکاوٹ تجاوزات بارے قانونی نوٹس دے چکا ہے لیکن تاحال سکول انتظامیہ نے غیر قانونی تجاوزات کو ہٹائے جانے پر کوئی عمل نہیں کیا ۔

سانحہ ماڈل ٹاﺅن شہباز شریف نہ سہی سیکرٹری توقیر شاہ کا کیا رول تھا :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ماڈل ٹاﺅن سانحہ کی رپورٹ سامنے آ گئی ہے۔ یہ حکومت کی جانب سے اچھا اقدام ہے گزشتہ رات میری ملاقات طاہر القادری سے ہوئی تھی ان کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب حکومت نے رپورٹ شائع نہ کی تو ہم اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیں گے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو کال بھی دے دی تھی۔ اچھا ہے معاملات عدالتوں میں اور مذاکرات میں حل ہونے چاہئیں۔ سڑکوں پر جنگ لڑنا درست نہیں ہے۔ رانا ثناءاللہ نے رپورٹ پر پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ اس پر شہباز شریف صاحب کا نام موجود نہیںہے۔ یہ بات درست ہے کہ میاں شہباز شریف کا نام اس میں موجود نہیں ہے۔ ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ رانا ثناءاللہ کو حکم ملا تھا۔ جو توقیر شاہ کی طرف سے آیا تھا۔ جو سی، ایم کے پرسانل سیکرٹری تھے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سیکرٹری نے سی ایم کی اجازت سے یہ حکم دیا ہو گا۔ اب بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں کیا سیکرٹری تو سی ایم، اتنے نازک معاملے پر وزیر قانون کو ہدایات جاری کر سکتا ہے۔ اگر شہباز شریف صاحب کا موقف درست سمجھا جائے تو کیا سیکرٹری اتنے ”ہتھ چھٹ“ تھے کہ انہوں نے سی ایم سے پوچھے بغیر ہی احکامات جاری کر دیئے۔ رانا ثنا نے چیف سیکرٹری کے کمرے میں صلاح مشورے میں حصہ لیا تھا۔ انہیں محسوس ہوا تھا کہ سکیورٹی مسائل کی وجوہات کی بنا پر طاہر القادری کے گھر کے اردگرد موجود رکاوٹیں مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ رانا ثناءنے یہ بات قبول کی ہے کہ انہوں نے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ توقیر شاہ صاحب بیرون ملک ہیں اور انہیں سفیر مقرر کیا جا چکا ہے اگر انہیں عدالت نے بلایا تو وہ ضرور آئیں گے۔ طاہر القادری 40 سال سے میرے پڑوسی ہیں۔ اب بھی ان کے گھر کے باہر پہرہ دار موجود ہیں جو چیک کر کے کسی کو اندر جانے دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ طاہر القادری کے کارکنوں نے ہمارے دفتر کا گھیراﺅ کیا تھا۔ انسان کا کسی سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ طاہر القادری نے مجھے بتایا کہ اب وہ قانونی جنگ لڑیں گے۔ طاہر القادری کا کہنا ہے کہ رانا ثنا اس کے اہل نہیں ہیں کہ جس پر چاہیں چڑھائی کر دیں۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں 100 لوگوں کو گولیاں لگیں اور 14 افراد جاں بحق ہوئے۔ قادری صاحب کے اس موقف میں وزن تو لگتا ہے کیونکہ وزیراعلیٰ کی مرضی کے بغیر اتنا بڑا اور اہم فیصلہ ہو نہیں سکتا۔ پولیس نے طاہر القادری کے گھر کا گھیراﺅ 9 بجے یا اس سے کچھ پہلے کیا۔ شہباز شریف کا گھر زیادہ فاصلے پر نہیں۔ انہیں زیادہ سے زیادہ دس، گیارہ بجے تک پتا چل جانا چاہئے تھا۔ شہباز شریف کا قول ہے کہ انہیں ٹی وی کے ذریعے معاملے کا لیٹ پتا چلا۔ لاہور کے واقعہ کا کوئی تعلق میاں محمد نوازشریف سے نہیں بنتا۔ بعض ٹی وی چینل کا کہنا یہ ہے کہ رپورٹ میں سے کافی مفاد نکال دیا گیا ہے اگر طاہر القادری اور ان کے ساتھی بھی یہی شکایت کرتے ہیں۔ قانونی طور پر ان کی تسلی کس طرح ممکن ہے اس کا مشورہ ماہر قانون ایس ایم ظفر ہی ہمیں دے سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے کارکن پارٹی قیادت سے ناراض بھی ہیں اور مایوس بھی۔ پارٹی حکمت عملی اب ایسی لگتی ہے کہ وہ باقاعدہ طور پر بلاول بھٹو کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ پارٹی کی جانب سے اب تسلسل کے ساتھ رابطہ مہم شروع کر دی گئی ہے۔ اسلام آباد میں میں نے ان کی تیاریاں دیکھیں، حاجی نواز کھوکھر صاحب میرے ہوٹل میں آئے۔ دو ڈھائی گھنٹے ہم نے بات چیت کی، ان کے بھائی تاجی کھوکھر کا ڈیرہ بہت بڑا ہے۔ انہوں نے جیل میں مجھ سے کہا کہ جب تک چودھری نثار موجود ہیں میری ضمانت نہیں ہو گی ایسا ہی ہوا چودھری نثار فارغ ہوئے ویسے ہی ان کی ضمانت ہو گئی۔ وہ جانوروں کے شوقین ہیں۔ انہوں نے اپنے بڑے گھر میں ایک چڑیا گھر بنا رکھا ہے جہاں شہر ریچھ اور سانپ وغیرہ موجود ہیں۔ پی پی پی بلاول کی لاﺅنچنگ کر رہی ہے۔ آصف زرداری بلاول کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں بلاول میں میچور نہیں آ گئی ہے۔ تقریر بھی اچھی کرنے لگے ہیں۔ آصف زرداری ایک ذہین انسان ہیں۔ امید ہے وہ بلاول کی سیاسی قربانی نہیں دیں گے اور نوازشریف سے مفاہمت نہیںکریں گے۔ اور بلاول کو آزادانہ کھیلنے دیں گے۔ سنیٹر حمد اللہ نے چیئرمین سینٹ کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ اگر سینٹ میں ختم نبوت کے حوالے سے کوئی ترمیم آئی تو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ اس پر ہر گز ہرگز نظرثانی کی گنجائش نہیںہے۔ اس پر تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کو خوش کرنے کے لئے کیا مذہبی معاملات کو چھیڑا جا رہا ہے؟ ترامیم کی کوشش ابھی بھی جاری ہیں؟ ماہر قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ ماڈل ٹاﺅن کی رپورٹ منظر عام پر آنا بہت اچھا ہے۔ اب شفافیت کا دور شروع ہو گا۔ اور عوام میں موجود ابہام اب ختم ہو جائے گا۔ یہ ملک اور جمہوریت دونوں کے لئے بہت ضروری ہے۔ رپورٹ میں بڑے لوگوں کے نام شامل نہیں ہیں۔ الزام ایک دوسرے کو بچانے کے لئے پولیس پر لگائے گئے ہیں، سوال یہ بنتا ہے کہ اگر اس رپورٹ میں ایسا کچھ نہیں تھا تو حکومت نے اسے چھپانے کی کوشش کیوں کی۔ اسے تو اگلے دن ہی شائع ہو جانا چاہئے تھا۔ اگرچہ اس رپورٹ میں بڑے بڑے لوگوں کے نام نہیں ہیں پھر بھی رپورٹ میں کسی جانب کو اشارہ کیا گیا ہو گا کہ کوتاہی کس جانب سے ہوئی رپورٹ میں جج صاحبان کے دستخط موجود ہوں گے۔ اگر کسی کا بیان اس رپورٹ کے خلاف آتا ہےتو ججز صاحبان ضرور اس کی تردید کریں گے۔ میںنے تمام حقائق دیکھ کر ہی اس کا نتیجہ اخذ کرتا ہوں۔ جے یو آئی (ف) کے سنیٹر حمد اللہ نے کہا ہے کہ سینٹ کی ہیومن کمیٹی میں یہ مباحثہ جاری تھا۔ میں سمجھا کہ یہ پچھلے معاملے کو اس کی اہمیت کی بنیاد پر زیربحث لائے ہیں۔ توہین رسالت میں ترمیم کس کی چاہت ہے؟ حلف نامے کی تبدیلی پر ملک میں کس قدر انتشار برپاہوا۔ پورا ملک حکومت کے خلاف امڈ آیا۔ اس کے باوجود ہیومن کمیٹی میں یہ ترمیم زیر بحث ہے۔ بحیثیت ایک سنیٹر، سیاستدان اور مسلمان کے میری ذمہ داری بنتی ہے کہ چیئرمین سینٹ کو آگاہ کروں کہ یہ ابھی تک زیر بحث کیوں ہے۔ توہین رسالت کیکوئیبھیتبدیلی یا ترمیم قابل قبول نہیں ہے کیا یہ سزائے موت کو عمر قید بنانا چاہتے ہیں، ملکی اساس، قانونی تقاضے اور اپنے فرائض سمجھتے ہوئے میں نے ایک خط چیئرمین کو بھجوایا ہے کہ آپ اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہوئے اسے روکیں۔ 13،14 نومبر کے اخبارات میں ایک بہت بڑی خبر فرنٹ پر چھپی ہے کہ جنیوا میں ایک کنونشن ہو رہا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ پاکستان توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کرے۔ کیونکہ یہ انسانی حقوق کی پامالی میں آتا ہے۔

 

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے سانحہ ماڈل ٹاون رپورٹ جاری

لاہور(ویب ڈسک)لاہورمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ڈھائی سال تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ پر محض پروپیگنڈا کیا گیا، راولپنڈی میں بیٹھے شیطان کچھ کا کہتے رہے کہ یہ ہوجائے گا یا وہ ہوجائے گا لیکن کچھ نہ ہوا، پنجاب حکومت کی جانب سے کمیشن کی انکوائری رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ چیلنج کیا گیا لیکن جو عدالت کا حکم آیا ہے اس کا احترام کرتے ہیں۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اس رپورٹ میں کسی حکومتی شخصیت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا، طاہر القادری فرماتے ہیں کہ سانحہ کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے یہ بتایا جائے کہ کارکنوں کو پولیس پر حملہ آور ہونے کے لیے کس نے کہا؟ وہ کون تھا جو انہیں اکساتا رہا؟ پوری رات شہادت کا کہتا رہا؟ ایسی صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا ذکر اس رپورٹ میں کیوں نہیں ہے؟انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں موقع پر موجود کسی پولیس اہلکار کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا، عوامی تحریک کی جانب سے کوئی شہادت جمع نہیں کرائی گئی، اس رپورٹ میں جن شواہد پر انحصار کیا گیا وہ شواہد درست نہیں اسی لیے وزیراعلیٰ سے کہا تھا کہ اگر رپورٹ پیش کی جاتی ہے تو معاملہ پیچیدگیاں پیدا کرے گا، اس رپورٹ کی اشاعت کو لارجر بینچ کے فیصلے سے منسلک کیا جائے۔وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں کوئی ایک شق نہیں ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دے صرف اتنا کہا گیا ہے کہ یہ معاملہ جب وزیر اعلیٰ کے نوٹس میں آیا تو انہوں نے یہ حکم دیا کہ مظاہرین سے نمٹا جائے، تصادم کی راہ خود عوامی تحریک کے کارکنوں نے پیدا کی ، اس کمیشن میں پیش کردہ شواہد یک طرف ہیں، مختلف خفیہ اداروں کی رپورٹس میں دونوں اطراف سے فائرنگ کا ذکر ہے تاہم خفیہ اداروں کی وہ رپورٹس کمیشن میں شامل نہیں کی گئیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ نقائص سے بھرپور ہے،  قانون کی نظر میں جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ غیر موثر ہے اس لیے یہ رپورٹ شہادت کے طور پر پیش نہیں کی جاسکتی اس رپورٹ کی اشاعت سے مقدمے کے ٹرائل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،ہائی کورٹ کا آج حکم آچکا ہے جس کے بعد وزیراعلیٰ نے حکم دیا ہے کہ رپورٹ پبلک کردی جائے چنانچہ آج اس رپورٹ کے مندرجات پڑھ کر سنارہا ہوں۔

سانحہ ماڈل ٹاون رپوٹ شائع ہوتے ہی پنجاب حکومت کا چونکا دینے والا اعلان

لاہور (ویب ڈسک)پنجاب حکومت نے ہائیکورٹ کے فل بنچ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کردیا،نجی ٹی وی چینلز سے گفتگو کرتے ہوئے زعیم قادری نے کہا ہے کہ ہمارے پاس سپریم کورٹ کا آپشن موجود ہے ،ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے،ان کا کہناتھا کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کاجواب دیں گے،شہبازشریف کی سیاست ختم کرنے کی خواہش پی ٹی آئی کی خواہش ہی رہے گی،انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دیگر 2 جے آئی ٹی رپورٹس موجودہیںجو مختلف تھیں،کمیشن رپورٹ کے بعد جے آئی ٹی رپورٹس کوبھی سامنے رکھنا ہوگا ، انہوں نے کہا کہ رپورٹ شائع بھی کردی جائے توکوئی فرق نہیں پڑےگا،زعیم قادری نے کہا کہ کسی بھی رپورٹ میں وزیرقانون یا حکومتی عہدیدار کوذمہ دارنہیں ٹھہرایاگیا۔