دھرنے سے متعلق آئی ایس پی آر کا بیان ، کس کے فیصلے پر عمل کرینگے ، جواب آگیا

اسلام آباد(خصوصی رپورٹ) راولپنڈی اسلام آباد کے سنگھم پر واقع فیض آباد انٹر چینج پر تحریک لبیک پاکستان کا دھرنا بدھ کو 16 روز بھی جاری رہا ، جس سے شہریوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے ۔ ، اسلام آباد پولیس ،فرنٹیر کانسٹیبلری،پنجاب کانسٹیبلری اور رینجرز کے چھ ہزار سے زائد اہلکار دھرنا دینے والوں کے چاروں طرف کھڑے بے بسی کی تصویر بنے رہے۔مظاہرے میں موجود تحریک لبیک کے کارکنوں نے پولیس پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایس پی صدر عامر نیازی سمیت 12پولیس اور 4ایف سی اہلکار زخمی ہو گئے۔ جن میں سے دو اہلکار محمد عارف اور عبداللہ کو حالت خراب ہونے پر دوبارہ ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ زخمیوں میں کانسٹیبل خالد فیاض عارف طلعت اعجاز اقبال شاہ محمد خان ذیشان غلام مجدد طارق عزیز اشفاق یونس اور ایف سی اہلکار غفار شہزاد آفاق اور عبداللہ شامل ہیں۔ پولیس نے 6افراد کو گرفتار کیا ہے ۔ تحریک کے کار کن نہ صرف پولیس اہلکاروں پر پتھراﺅ کرتے رہے بلکہ دو سو سےزائد کارکنوں نے مل کر جنگ کے فوٹو گرافر جہانگیر چوہدری اور ڈان کے فوٹو گرافر عاصم سمیت تین فوٹو گرافروں کو مار مارآدھ موا کردیا۔فوٹو گرافروں کے مطابق ان کے کیمرے توڑ دئیے اور ان کیمروں سےمیموری کارڈ نکال کرضائع کردئیے۔عینی شاہدوں کے مطابق انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے دھرنے کے مقام پر کنٹینرز لگائے جارہے تھے کہ شرکا نے پولیس پر پتھراو کردیا ۔سپریم کورٹ کی طرف سے دھرنے کے نوٹس کا جواب تیار کرنے کے سلسلے میں پنجاب ہاﺅ س میں جڑواں شہر کی انتظامیہ ، بیورو کریسی اورپولیس افسران کا اجلاس ہوا جس میں دھرنا ختم کرانے کے سلسلے میں مختلف پہلوﺅں پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ ادھر تحریک لیبک یا رسول اللہ کے سربراہ مولانا خادم حسین رضوی نے دھرنا شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری املاک کو کسی صورت بھی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ شام کے وقت پولیس نے دھرنے کے کچھ شرکا کو آ ئی ایٹ کی طرف مسجد میں جانے سے روکنے کی کوشش کی تھی جس پر دھرنا کار کنو ں اور پولیس اہلکاروں کے مابین پتھراﺅ ہوا ۔ اس سے قبل تحریک کے مرکزی سرپرست اعلی پیر محمد افضل قادری نے میڈیا کے نمائندوں اور دھرنے کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب تک علامہ خادم حسین رضوی نہ کہے کوئی شخص دھرنا چھوڑر کر نہیں جائے گا ۔دریں اثنا دھرنے کوپر امن انداز میں ختم کرانے کےلئے حکومت کی طرف سے قائم کی گئی مصالحتی کمیٹی نے ابتدائی طورپر اپنی تجاویز مرتب کرکے وزیرداخلہ کوبھجوا دی ہیں جن میں کہا گیا گیا ہے کہ راجہ محمد ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے تک وزیر قانون زاہد حامد کو کام کرنے سے روک دیا جائے، کابینہ سے الگ نہ کیا جائے ۔ فی الحال ساری ذمہ داری ان پر ڈالنا مناسب نہیں۔ وزارت داخلہ سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ جوڈیشل مجسٹریٹ حیدر علی شاہ نے تحریک لبیک یا رسول اللہ کے 80کارکنان کو 5ہزار روپے فی کس مچلکوں کے عوض رہا کر دیا ہے ۔ علاوہ ازیں پنجاب ہاوس اسلام آبادمیں صوبائی وزیرقانون کی زیرصدارت دھرنے کی صورت حال کے بارے اہم اجلاس ہوا، جوتقریبا ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہا۔ اجلاس میں فیض آبادمیں جاری مذہبی جماعت کے دھرنے سے پیداہونے والی صورت حال پرتفصیلی تبادلہ خیال کیاگیا،ذرائع کے مطابق بدھ کی رات ہونے والے اجلاس میں وزیرقانون راناثنا اللہ ،ہوم سیکرٹری پنجاب اعظم سلیمان ،آئی جی پولیس پنجاب کیپٹن (ر)عارف نوازخان اورآرپی اوراولپنڈی محمدوصال فخرسلطان نے شرکت کی ۔لاہور سے نمائندہ جنگ کے مطابق تحریک لبیک یارسولؓ اللہ نے راجہ ظفر الحق رپورٹ کو بد نیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مشترکہ طور پر مسترد کردیاہے۔مختلف شہروں میں تحریک لبیک سمیت دیگر مذہبی جماعتوں نے دھرنا کی حمایت میں ریلیاںنکالیں۔ تحریک کے رہنماﺅں ڈاکٹر اشرف آصف جلالی،میاں ولید احمد شرقپوری،پیر سید نوید الحسن شاہ مشہدی و دیگر نے رپورٹ کو مسترد کردیا اور کہا کہ پولیس کا فیض آباد دھرنا کے شرکا پر پتھراو ظلم ہے۔ تحریک کے کارکنوں نے نارووال میں چوک ظفروال بائی پاس پر دھرنادیا تاہم مذاکرات کے نتیجے میں مظاہرین منتشر ہوگئے۔قبل ازیں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا ،جس کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ۔ادھر تحریک لبیک یارسولؓ اللہ نے راجہ ظفر الحق رپورٹ کو بد نیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مشترکہ طور پر مسترد کردیاہے۔مختلف شہروں میں تحریک لبیک سمیت دیگر مذہبی جماعتوں نے دھرنا کی حمایت میں ریلیاںنکالیں۔ تحریک کے رہنماﺅں ڈاکٹر اشرف آصف جلالی،میاں ولید احمد شرقپوری،پیر سید نوید الحسن شاہ مشہدی و دیگر نے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ راجہ ظفر الحق کی موجودہ رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے۔پولیس کا فیض آباد دھرنا کے شرکا پر پتھراو ظلم ہے۔ہم اسکی مذمت کرتے ہیں۔ دوسری جانب بچیکی میں تحریک لبیک کے زیراہتمام اسلام آباد دھرنا سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلی نکالی گئی۔ جس سے مولانا ضیا الا سلام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ذمہ داروں کے خلاف کاروائی نہ کی گئی اس وقت تک احتجاج جاری رہے گا۔ مرکزی چیئرمین محمد اشرف آصف جلالی نے مرکزی جامع مسجد میاں چنوں میں ربیع الاول کے سلسلہ میں منعقد ہ تقریب سے خطاب میں کہا کہ ختم نبوت قانون میں تبدیلی کرنے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے ۔ریلی کے دوران ملتان، شجاع آباد اور لودھراں جانے والی ٹریفک جام ہو گئی۔علاوہ ازیں کراچی میں تحریک لبیک یا رسول اللہ پاکستان کی جانب سے فیض آباد دھرنے شرکاکی حمایت میں کر اچی میں نمائش چورنگی پر دھرنا 5 ویں روز بھی جاری ہے۔شرکا نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے۔ دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے شاہ فرید الدین صابری، علامہ مبارک عباسی اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پر امن لوگ ہیں ختم نبوتﷺ پر حلف نامے میں تبدیلی کے ذمہ داروں کو منظر عام پر لایا جائے اور ان کو قانون کے مطابق سزا دی جائے اگر ایسا نہ ہو ا تو آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

سوہنا آیا تے سج گئے نے گلیاں بازار ،،اہم خبر

لاہور (نیا اخبا ر رپورٹ) میئر لاہور مبشر جاوید اور ڈپٹی کمشنر سمیراحمد کی زیرصدارت 12ربیع الااول کے جلوسوں کی سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے اجلاس ہوا، علماءکرام کیساتھ ملکر مرکزی جلوسوں کی سکیورٹی کے انتظامات کو فول پروف بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ ڈپٹی میئر رانا اعجازاحمد حفیظ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سندس ارشاد، پرنسپل سٹاف آفیسر ٹو میئر میاں وحید الزمان، چیف آفیسر میٹروپولٹین کارپوریشن محمود مسعود تمنا، مفتی انتخاب نعیمی، صدر مرکزی میلا کمیٹی حاجی محمود انور، عبدالمنیر چودھری نے شرکت کی۔اجلاس میں شرپسندوں پر کڑی نظر رکھتے ہوئے آہنی ہاتھوں نمٹنے کا عزم کیاگیا۔ اس موقع پر علمائے اہل سنت نے مطالبہ کیا کہ ربیع الااول میں محرم الحرام کی طرز پر جلوسوں کے روٹس پر سٹریٹ لائٹس اور پیچ ورک کے کام بروقت کرائے جائیں، عیدمیلادالنبی کی مناسبت سے ریلوے سٹیشن اور داتا دربار سے دو بڑے جلوس برآمد ہوتے ہیں۔

 

چینل 5اور خبریں کی خبر پر ایکشن سابق وفاقی وزیر کا سرکاری اراضی سے قبضہ ختم کرانے کی کوشش، سی ڈی اے نے معمولی کاروائی ڈال دی

اسلام آباد ( قسور کلاسرا سے) چےنل۵ اور خبریں کی خبر پر ایکشن لیتے ہوے سی ڈی اے کے ڈریکٹوریٹ آف انفورسمنٹ نے سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمیداللہ جان آفریدی کی جانب سے اسلام آباد کے مہنگے ترین سیکٹر ایف 10میں 30کنال سرکاری اراضی پر قبضہ واگزار کروانے کی بے سود کوشش۔ میڈیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلیے سی ڈی اے کے افسران اور سابق وفاقی وزیر نے ملی بھگت سے زمین واگزار کرانےکا ڈرامہ رچاتے ہوے کچھ تعمیرات تو گرا دیں لیکن معزز عدالت کے حکم کے باوجود زمین مکمل طور پر واگزار نہیں کرای جاسکی۔ چینل ۵ اور خبریں کا ےہ نمایندہ جب موقع پر پہنچا تووہاں تعینات سیکورٹی گارڈز نے نہ صرف اس نمایندہ کو روکا بلکہ دھمکانے کی ناکام کوشش بھی کی۔ بعد ازاں سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمیداللہ جان آفیر یدی کے کہنے پر خبریں کی ٹیم کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ جگہ کا مشاہدہ کرنے پر اس نمایندہ نے اپنی آنکھوں سے مسمار کی ہوی عمارت کا ملبہ دیکھا جس سے ظاہر ہوا کہ سابق وفاقی منسٹر نے سی ڈی صے ۹۰۰۲ میں کیے گے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوے گرین بیلٹ پر تعمیرات کی اور شہریوں کا داخلہ بند کیا۔ معاہدے کی خلاف ورزی اور عدالتی حکم کے باوجود سی ڈی اے کا زمیں واگزار نہ کرانا اس کی کارکردگی پر سوالیہ نشین ہے۔ باوثوق زرایع سے معلوم ہوا ہے کہ سی ڈی کے اعلی افسر کی مداخلت پر سابق وفاقی وزیر کے قبصہ سے سرکاری زمین واگزار کرانے کا عمل رک گیا ہے۔ روزنامہ خبریں میں خبر چپنے کے بعد سی ڈی اے کی ٹیم سرکاری اراضی پر تعمیرات گرانے اور قبضہ واگزار کروانے کی بجائے معمولی توڑ پھوڑ کے بعد واپس لوٹ گئی۔ حمیداللہ جان آفریدی کے سابق سٹاف آفیسر اور ممبر سی ڈی اے خوشحال خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ اور وزیراعظم کے احکامات ہوا میں اڑا دئیے ہیں۔ خبریں اور چینل۵ کی ٹیم روانہ ہونے کے بعد حمیداللہ آفریدی کے ملازمین نے سرکاری اراضی میں داخلے کا گیٹ دوبارہ بند کردیا ہے خبریں کت رابطہ کرنے پر حمیداللہ جان آفریدی نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے سرکاری اراضی پر کی جانے والی تعمیرات پر 50لاکھ روپے خرچ کئے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمیداللہ جان آفریدی نے سی ڈی اے سے 2009میں اپنی خوبصورتی کے نام پر 30کنال اراضی حاصل کی تاہم بعدازاں سی ڈی اے افسران کی ملی بھگت سے سرکاری اراضی پر تعمیرات کرلی گئیں۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ نے سی ڈی اے کو ڈیڑھ ارب روپے مالیت سے زائد کی سرکاری اراضی فوری طور پر واگزار کرواکر رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کردی ہے۔ ممبر سی ڈی اے خوشحال خان اور ڈائریکٹر عشرت وارثی وزیراعظم سیکرٹریٹ اور عدالتی احکامات کے باوجود سرکاری اراضی کو واگزار کروانے میں لیت ولعل سے کام لیتے ہوئے درمیانی راستہ نکالنے میں مصروف ہیں۔ سرکاری دستاویز کے مطابق سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمیداللہ جان آفریدی نے 2009میں سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد کے پوش اور مہنگے ترین سیکٹر ایف 4/10میں اپنی رہآئش گاہ ہاوس نمبر 294 گلی نمبر 56سے ملحقہ 30کنال سرکاری اراضی خوبصورتی کے نام پر سی ڈی اے سے مفت حاصل کی تھی۔ سی ڈی اے نے حمیداللہ جان آفریدی کو باغیچے کیلئے 30کنال اراضی مخصوص شرائط پر حوالے کی۔ سی ڈی اے کی تحریری شرائط کے مطابق خوبصورتی کے نام پر دی گئی اراضی عوام الناس کیلئے بند نہیں کی جائےگی۔ سرکاری اراضی پر باڑ، بیرئیر اور کسی بھی قسم کی تعمیرات نہیں کی جائیں گی۔ سی ڈی اے کسی بھی وقت خلاف ورزی یا کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کے بغیر بھی سرکاری اراضی واپس لے سکتا ہے۔ اراضی واپس لینے کی صورت میں سی ڈی اے کے خلاف کسی بھی عدالت سے رجوع نہیں کیا جائے گا۔ حیران کن طور پر حمیداللہ جان آفریدی نے سرکاری اراضی پر ٹینس کورٹ، پارکنگ، کنکریٹ کی تعمیرات اور 30کنال اراضی کےداخلی راستے پر بیرئیر لگاکر زمین پرعام شہریوں کا داخلہ بند کر دیا۔ دستاویز کے مطابق حیمد اللہ جان آفریدی کی جانب سے شرائط کی خلاف ورزی پر سی ڈی اے نے این او سی منسوخ کردیا اور سرکاری اراضی واگزار کروانے کی کوشش کی۔ حمیداللہ جان آفریدی نے اربوں روپے مالیت کی سرکاری اراضی واپس کرنے کی بجائے عدالت سے رجوع کرلیا۔ ذرائع کے مطابق سی ڈی اے کے افسران حمیداللہ جان آفریدی کو حکم امتناع حاصل کرکے مقدمہ کے ذریعے پر قبضہ برقرار رکھنے کی تجویزدی۔ حمیداللہ جان آفریدی نے سول کورٹ، سیشن اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے مرحلہ وار رجوع کیا مگر عدالتوں سے سرکاری اراضی اور سی ڈی اے کے خلاف فیصلہ حاصل کرنے میں ناکام رہے مگر سی ڈی اے میں موجود حمیداللہ جان آفریدی منظورنظرافسران نے سرکاری اراضی پر قبضہ ختم نہ کروایا۔ دستاویز کے مطابق ایف 10/4کے رہائشی محمد حنیف نے حمیداللہ جان آفریدی کی جانب سے سرکاری اراضی پر قبضے اور عوام کو درپیش مشکلات کے باعث وزیراعظم کو درخواست بھیجی۔ درخواست کے ہمراہ قیمتی اراضی کی تفصیل اور عدالتی احکامات بھی لف کئے گئے جس پر بالاخر وزیراعظم سیکرٹریٹ سے سابق سی ڈی اے کو سابق وفاقی وزیر حمیداللہ جان آفریدی سے اربوں روپے مالیت کی 30کنال سرکاری اراضی واگزار کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی سی ڈی اے کو سرکاری اراضی کے غلط استعمال روکنے کے تاریخی احکامات جاری کئے مگر حیران کن طور پرسی ڈی اے مخصوص افراد کے خلاف سرکاری اراضی واگزار کروانے کیلئے آپریشن کیا مگر بااثر سابق وفاقی وزیر حمیداللہ جان آفریدی سمیت سیاسی شخصیات کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سی ڈی اے کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح احکامات پر نظر پوشی پر 20نومبر کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سماعت کی اور سی ڈی اے کے ڈائریکٹر عشرت وارثی سے جواب طلب کیا۔ ڈائریکٹر سی ڈی اے عشرت وارثی نے معزز عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ آئندہ دو روز میں سابق وفاقی وزیر حمیداللہ جان آفریدی سے قیمتی اراضی واگزار کروالی جائے گی۔ مگر ابھی تک ایسا ممکن نہ ھو سکا۔ معلوم ہوا ہے کہ سی ڈی اے کے ایک دیانتدار انسپکٹر انفورسٹمنٹ نے 30 کنال سرکاری اراضی پر حمید اللہ جان آفریدی کی جانب سے قبضے اور تعمیرات کی رپورٹ حکام بالا کو ارسال کردی ہے۔ انسپکٹر انفورسمنٹ نے سرکاری اراضی واگزار کروانے کیلئے بھاری مشینری، آلات اور افرادی قوت طلب کرلی ہے۔ ذرائع کے مطابق ممبر سی ڈی اے خوشحال خان سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمیداللہ جان آفریدی کے سٹآف آفیسر رہ چکے ہیں۔ خوشحال خان انفورسمنٹ انسپکٹر کی رپورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات اور وزیراعظم کی ہدایت کے باوجود سرکاری اراضی واگزار کروانے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

 

محنت کش کے گھر عجیب الخلقت بچے کی پیدائش

کامونکے(خصوصی رپورٹ) محنت کش کے گھر پیدا ہونے والے بچے کا دماغ کھوپڑی سے باہر ہے۔ ڈاکٹروں نے اپنی نوعیت کا پہلا کیس قرار دے دیا۔ بتایا گیا کہ محلہ شریف پورہ ڈیرہ بابا فتح محمد میں محنت کش محمد انور کے ہاں تین روز قبل بیٹے کی پیدائش ہوئی بچے کا دماغ سر سے باہر ہے اور گردن کے ساتھ لٹکا ہوا ہے۔ محمد انور اس کی بیوی نے بتایا ہے کہ وہ بچے کو لے کر لاہور چلڈرن ہسپتال گئے لیکن ڈاکٹروں نے اسے اپنی نوعیت کا پہلا کیس قرار دیتے ہوئے لاعلاج قرار دیدیا۔ بچے کے والدین نے وزیراعلی پنجاب سے اپیل کی کہ انکے بچے کا علاج بیرون ملک سے کروایا جائے۔ والدین نے بتایا کہ انکے پہلے پانچ بچے بالکل نارمل ہیں۔

زبان کاٹ کر لانے والے کیلئے 21 لاکھ روپے کا نقظ انعام

سرینگر (خصوصی رپورٹ) دہشت گردی مخالف فرنٹ نامی ایک غیر معروف تنظیم نے سابق وزیراعلی اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی زبان کاٹنے کیلئے 21لاکھ روپے کاانعام مقرر کیا ہے۔فاروق عبداللہ کو بقول اس تنظیم کے یہ سزا ان کو پاکستان حامی بیان دینے اور آر ایس ایس کی مخالفت کرنے پر دی جارہی ہے۔تنظیم نے کہا ہے کہ ڈاکٹر فاروق نے ایسے بیان دے کر ملک کی توہین کی ہے۔فرنٹ کے قومی صدروریش شنڈیلانے معاملے کی فوری تحقیقات اور انکی گرفتاری کا بھی مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے چندی گڑھ میں جاری اپنے بیان میں کہا کہ فاروق اپنے بیانات میں آر ایس ایس کے خلاف بولتے ہیں اور پاکستان کے حق میں بات کرکے ملک کی توہین کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فاروق عبداللہ ملک دشمن ہیںاور اس کی زیڈ پلس سیکورٹی واپس لی جانی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ میں اس شخص کو 21لاکھ روپے انعام دوں گا جوفاروق عبداللہ کی زبان کاٹ کر لائے۔دوسری جانب عمر عبداللہ نے ٹویٹ کیا ہے کہ جس شخص کے پاس آپس مین رگڑنے کیلئے دو کوڑیاں نہیں وہی احمق 21لاکھ روپے انعام دینے باتیں کررہا ہے۔

کیو موبائل کی ایک اور چوری ، 9 کروڑ سے زائد مالیت کے سمگل شدہ فون برآمد

ملتان (کامرس رپورٹر) کلیکٹر کسٹم ملتان سعود عمران احمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بیس نومبر کو مال پلازہ کے عقب میں رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر خصوصی ٹیم نے ساڑھے نو ہزار سمگل شدہ کیو موبائل فون قبضے میںلے لئے۔ کلیکٹر کسٹم ملتان سعود عمران نے کہاکہ مارچ سے اب تک 87نان کسٹم گاڑیاں پکڑی گئیں اور 90ہزار لٹر سمگلڈ ڈیزل پکڑا۔ ایک سلک کنٹینر، آٹو پارٹس، اور 3گوداموں سے کروڑوں روپے کے سگریٹ اور انڈین گٹکا، شیشہ سامان برآمد کیا۔ سمگلڈ موبائل فون کا مقدمہ درج کرکے ملزمان کی گرفتاری کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ کسٹم آفیسر ڈاکٹر سعود عمران احمد نے کہا کہ سمگلنگ کی روک تھام کےلئے محکمہ کسٹم اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لارہا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد زوہیب سندیلہ، اسسٹنٹ کلکٹر اینٹی سمگلنگ آرگنائزیشن، ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ ملتان کی سربراہی میں ایک خصوصی ٹیم تشکیل دیدی گئی ہے۔ ٹیم نے 2روز قبل ایک خفیہ اطلاع پر بروقت کارروائی کرتے ہوئے مال پلازہ کینٹ کے عقب میں واقع ایک رہائش گاہ سے 8کروڑ سے زائد مالیت کے 9500 کیو موبائل فون برآمد کرلئے ہیں۔ انہوںنے بتایا کہ مقدمہ کااندراج کرکے ملزمان کی گرفتاری کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کلکٹر کسٹمز کا کہنا تھا کہ جس رہائش گاہ پر چھاپے کے دوران موبائل برآمد کئے گئے ہیں وہ رہائش مالک نے کرائے پر دے رکھی ہے اس لئے انکا نام بتانا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی ٹیم نے 2ماہ قبل ایک گودام سے غیرملکی سگریٹ، انڈین گٹکا، 90لٹر سمگل ڈیزل، مصنوعی سلک اور آٹوپارٹس کا بھرا ہوا کنٹینر جن کی لوکل مالیت کم و بیش 45کروڑ پے، مختلف کارروائیوں کے دوران قبضہ میں لیاگیا ہے۔ جس میں وہیکل کی مالیت 17کروڑ اور سگریٹ و دیگر سامان کی مالیت 28کروڑ شامل ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پکڑی گئی نان کسٹم پیڈ 87 گاڑیاں جن میںلینڈ کروزر، ہائی لیکس، کراﺅن اور دیگر چھوٹی بڑی گاڑیاں شامل ہیں، کی نیلامی جلدی کی جائے گی۔ کلکٹر کسٹمز ملتان ڈاکٹر سعود عمران احمد نے کہا کہ اس سے قبل محکمہ کسٹم کی طرف سے جو بھی کارروائیاں عمل میں لائی گئی ہیں تمام کا ریکارڈ محکمہ میں موجود ہے۔ اس نظام کو مزید بہتر طور پر بنانے کے لئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی تشکیل دیدی گئی ہے جو اپنی کارروائی مکمل کرکے رپور ٹ جاری کرے گی۔ کلکٹر کسٹمز نے بتایا کہ چیئرمین ایف بی آر اسلام آباد طارق محمود پاشا، ممبر کسٹمز فیڈرل بورڈ آف ریونیو اسلام آباد محمد زاہد کھوکھر، چیف کلکٹر کسٹمز (سنٹرل) لاہور محترمہ زیبا حئی اظہر نے بہتر کارکردگی پر محکمہ کسٹم ملتان کے افسران اور عملہ کی تعریف کی ہے۔ کیو موبائل اس سے قبل بھی سرکاری خزانے کو کروڑوں کا ٹیکہ لگاچکی ہے۔ گرین چینل سے 40کروڑ روپے سے زائد رقم ری فنڈ کرانے پر ایف بی آر نے کمپنی کیخلاف کارروائی بھی شروع کررکھی ہے۔ کیو موبائل جعلی اائی ای ایم آئی نمبر والے موبائل بیچنے کیلئے مشہور اور دہشت گردوں کا پسندیدہ برانڈز سمجھا جاتا ہے۔

 

سرکاری اراضی سے سابق وفاقی وزیر کا قبضہ ختم کرانے کی کوشش

اسلام آباد ( قسور کلاسرا سے) چےنل۵ اور خبریں کی خبر پر ایکشن لیتے ہوے سی ڈی اے کے ڈریکٹوریٹ آف انفورسمنٹ نے سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمیداللہ جان آفریدی کی جانب سے اسلام آباد کے مہنگے ترین سیکٹر ایف 10میں 30کنال سرکاری اراضی پر قبضہ واگزار کروانے کی بے سود کوشش۔ میڈیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلیے سی ڈی اے کے افسران اور سابق وفاقی وزیر نے ملی بھگت سے زمین واگزار کرانےکا ڈرامہ رچاتے ہوے کچھ تعمیرات تو گرا دیں لیکن معزز عدالت کے حکم کے باوجود زمین مکمل طور پر واگزار نہیں کرای جاسکی۔ چینل ۵ اور خبریں کا ےہ نمایندہ جب موقع پر پہنچا تووہاں تعینات سیکورٹی گارڈز نے نہ صرف اس نمایندہ کو روکا بلکہ دھمکانے کی ناکام کوشش بھی کی۔ بعد ازاں سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمیداللہ جان آفیر یدی کے کہنے پر خبریں کی ٹیم کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ جگہ کا مشاہدہ کرنے پر اس نمایندہ نے اپنی آنکھوں سے مسمار کی ہوی عمارت کا ملبہ دیکھا جس سے ظاہر ہوا کہ سابق وفاقی منسٹر نے سی ڈی صے ۹۰۰۲ میں کیے گے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوے گرین بیلٹ پر تعمیرات کی اور شہریوں کا داخلہ بند کیا۔ معاہدے کی خلاف ورزی اور عدالتی حکم کے باوجود سی ڈی اے کا زمیں واگزار نہ کرانا اس کی کارکردگی پر سوالیہ نشین ہے۔ باوثوق زرایع سے معلوم ہوا ہے کہ سی ڈی کے اعلی افسر کی مداخلت پر سابق وفاقی وزیر کے قبصہ سے سرکاری زمین واگزار کرانے کا عمل رک گیا ہے۔ روزنامہ خبریں میں خبر چپنے کے بعد سی ڈی اے کی ٹیم سرکاری اراضی پر تعمیرات گرانے اور قبضہ واگزار کروانے کی بجائے معمولی توڑ پھوڑ کے بعد واپس لوٹ گئی۔ حمیداللہ جان آفریدی کے سابق سٹاف آفیسر اور ممبر سی ڈی اے خوشحال خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ اور وزیراعظم کے احکامات ہوا میں اڑا دئیے ہیں۔ خبریں اور چینل۵ کی ٹیم روانہ ہونے کے بعد حمیداللہ آفریدی کے ملازمین نے سرکاری اراضی میں داخلے کا گیٹ دوبارہ بند کردیا ہے خبریں کت رابطہ کرنے پر حمیداللہ جان آفریدی نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے سرکاری اراضی پر کی جانے والی تعمیرات پر 50لاکھ روپے خرچ کئے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمیداللہ جان آفریدی نے سی ڈی اے سے 2009میں اپنی خوبصورتی کے نام پر 30کنال اراضی حاصل کی تاہم بعدازاں سی ڈی اے افسران کی ملی بھگت سے سرکاری اراضی پر تعمیرات کرلی گئیں۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ نے سی ڈی اے کو ڈیڑھ ارب روپے مالیت سے زائد کی سرکاری اراضی فوری طور پر واگزار کرواکر رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کردی ہے۔ ممبر سی ڈی اے خوشحال خان اور ڈائریکٹر عشرت وارثی وزیراعظم سیکرٹریٹ اور عدالتی احکامات کے باوجود سرکاری اراضی کو واگزار کروانے میں لیت ولعل سے کام لیتے ہوئے درمیانی راستہ نکالنے میں مصروف ہیں۔ سرکاری دستاویز کے مطابق سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمیداللہ جان آفریدی نے 2009میں سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد کے پوش اور مہنگے ترین سیکٹر ایف 4/10میں اپنی رہآئش گاہ ہاوس نمبر 294 گلی نمبر 56سے ملحقہ 30کنال سرکاری اراضی خوبصورتی کے نام پر سی ڈی اے سے مفت حاصل کی تھی۔ سی ڈی اے نے حمیداللہ جان آفریدی کو باغیچے کیلئے 30کنال اراضی مخصوص شرائط پر حوالے کی۔ سی ڈی اے کی تحریری شرائط کے مطابق خوبصورتی کے نام پر دی گئی اراضی عوام الناس کیلئے بند نہیں کی جائےگی۔ سرکاری اراضی پر باڑ، بیرئیر اور کسی بھی قسم کی تعمیرات نہیں کی جائیں گی۔ سی ڈی اے کسی بھی وقت خلاف ورزی یا کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کے بغیر بھی سرکاری اراضی واپس لے سکتا ہے۔ اراضی واپس لینے کی صورت میں سی ڈی اے کے خلاف کسی بھی عدالت سے رجوع نہیں کیا جائے گا۔ حیران کن طور پر حمیداللہ جان آفریدی نے سرکاری اراضی پر ٹینس کورٹ، پارکنگ، کنکریٹ کی تعمیرات اور 30کنال اراضی کےداخلی راستے پر بیرئیر لگاکر زمین پرعام شہریوں کا داخلہ بند کر دیا۔ دستاویز کے مطابق حیمد اللہ جان آفریدی کی جانب سے شرائط کی خلاف ورزی پر سی ڈی اے نے این او سی منسوخ کردیا اور سرکاری اراضی واگزار کروانے کی کوشش کی۔ حمیداللہ جان آفریدی نے اربوں روپے مالیت کی سرکاری اراضی واپس کرنے کی بجائے عدالت سے رجوع کرلیا۔ ذرائع کے مطابق سی ڈی اے کے افسران حمیداللہ جان آفریدی کو حکم امتناع حاصل کرکے مقدمہ کے ذریعے پر قبضہ برقرار رکھنے کی تجویزدی۔ حمیداللہ جان آفریدی نے سول کورٹ، سیشن اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے مرحلہ وار رجوع کیا مگر عدالتوں سے سرکاری اراضی اور سی ڈی اے کے خلاف فیصلہ حاصل کرنے میں ناکام رہے مگر سی ڈی اے میں موجود حمیداللہ جان آفریدی منظورنظرافسران نے سرکاری اراضی پر قبضہ ختم نہ کروایا۔ دستاویز کے مطابق ایف 10/4کے رہائشی محمد حنیف نے حمیداللہ جان آفریدی کی جانب سے سرکاری اراضی پر قبضے اور عوام کو درپیش مشکلات کے باعث وزیراعظم کو درخواست بھیجی۔ درخواست کے ہمراہ قیمتی اراضی کی تفصیل اور عدالتی احکامات بھی لف کئے گئے جس پر بالاخر وزیراعظم سیکرٹریٹ سے سابق سی ڈی اے کو سابق وفاقی وزیر حمیداللہ جان آفریدی سے اربوں روپے مالیت کی 30کنال سرکاری اراضی واگزار کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی سی ڈی اے کو سرکاری اراضی کے غلط استعمال روکنے کے تاریخی احکامات جاری کئے مگر حیران کن طور پرسی ڈی اے مخصوص افراد کے خلاف سرکاری اراضی واگزار کروانے کیلئے آپریشن کیا مگر بااثر سابق وفاقی وزیر حمیداللہ جان آفریدی سمیت سیاسی شخصیات کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سی ڈی اے کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح احکامات پر نظر پوشی پر 20نومبر کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سماعت کی اور سی ڈی اے کے ڈائریکٹر عشرت وارثی سے جواب طلب کیا۔ ڈائریکٹر سی ڈی اے عشرت وارثی نے معزز عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ آئندہ دو روز میں سابق وفاقی وزیر حمیداللہ جان آفریدی سے قیمتی اراضی واگزار کروالی جائے گی۔ مگر ابھی تک ایسا ممکن نہ ھو سکا۔ معلوم ہوا ہے کہ سی ڈی اے کے ایک دیانتدار انسپکٹر انفورسٹمنٹ نے 30 کنال سرکاری اراضی پر حمید اللہ جان آفریدی کی جانب سے قبضے اور تعمیرات کی رپورٹ حکام بالا کو ارسال کردی ہے۔ انسپکٹر انفورسمنٹ نے سرکاری اراضی واگزار کروانے کیلئے بھاری مشینری، آلات اور افرادی قوت طلب کرلی ہے۔ ذرائع کے مطابق ممبر سی ڈی اے خوشحال خان سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمیداللہ جان آفریدی کے سٹآف آفیسر رہ چکے ہیں۔ خوشحال خان انفورسمنٹ انسپکٹر کی رپورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات اور وزیراعظم کی ہدایت کے باوجود سرکاری اراضی واگزار کروانے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

 

حلقہ بندیوں کا ترمیمی بل، حکومت نے پیپلز پارٹی سے مدد مانگ لی

اسلام آباد(آئی این پی)حکومت نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے حکومت کے آئینی ترمیم بل پر حمایت کیلئے پیپلز پارٹی سے مدد مانگ لی‘ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے سپیکر چیمبر میں 12 منٹ ملاقات کی ہے جس دوران انہوں نے سینیٹ میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے حکومت کے آئینی ترمیم بل کےلئے پیپلز پارٹی سے حمایت کی مدد مانگی ہے ‘میں نے وزیر اعظم کو بتا دیا ہے کہ اس حوالے سے میں ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ان کا پیغام اپنی اعلیٰ قیادت تک پہنچا دوں گا‘بہتر ہے حکومت تحریری طور پر قیادت کو اپنی تجاویز اور درخواست کرے ۔ بدھ کو پارلیمنٹ ہاو¿س میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ گزشتہ روز وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر چیمبر میں مجھ سے 12 منٹ ملاقات کی جس میں شاہد خاقان عباسی نے سینیٹ میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے حکومت کے آئینی ترمیم بل کے لئے پیپلز پارٹی سے حمایت کی مدد مانگی ہے لیکن میں نے وزیر اعظم کو بتا دیا ہے کہ اس حوالے سے میں ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا لیکن ان کا پیغام اپنی اعلیٰ قیادت تک پہنچا دوں گا۔ جس پر شاہد خاقان عباسی نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے آصف زرداری یا بلاول بھٹو سے ملاقات یا فون پر رابطے کے لئے بھی تیار ہیں۔خورشید شاہ نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کا پیغام اعلیٰ قیادت تک پہنچا دیا ہے اب اعلیٰ قیادت ہی سینیٹ میں حکومت کے آئینی ترمیم کے بل کی حمایت یا شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کا فیصلہ کرے گی۔

ڈیپوٹیشن کیس، آپ نے یہ تو نہیں کہا، مجھے کیوں نکالا: جسٹس عظمت سعید

لاہور(نیٹ نیوز)مجھے کیوں نکالا کی بازگشت سپریم کورٹ میں بھی سنائی دینے لگی ہے ،ورکرز ویلفیئر فنڈز ڈپیوٹیشن افسران کیس کی سماعت کے دروان جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے تو یہ نہیں کہا کہ مجھے کیوں نکالا ،جی ٹی روڈ پر آپ نہیں جا سکتے کیونکہ فیض آباد بند ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ورکرز ویلفیئر فنڈز ڈپیوٹیشن افسران کیس کی سماعت ہوئی جس دوران جسٹس عظمت سعید نے اپنے یمارکس میں کہا کہ عدالتی حکم کی عدم تعمیل ہوئی تو توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر 8میں سے پانچ ڈپیوٹیشن افسران کو واپس بھیج دیا ،3افسران پر عدالتی حکم کا اطلاق نہیں ہوتا ،جس پر وکیل درخواست گزار کا کہناتھا کہ جن پانچ افسران کو واپس بھیجا گیا وہ ابھی تک کام کر رہے ہیں ،عدالتی حکم پرمتعلقہ سیکریٹریوں نے عمل نہیں کیا۔جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کیا ان کے ساتھ ’یس منسٹر یس منسٹر کھیلا جارہاہے ‘۔وکیل متاثرہ افسران نے عدالت کو بتایا کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ ز میں پسند نا پسند پر فیصلے ہوئے ،جس پر عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ نے یہ تو نہیں کہا کہ مجھے کیوں نکالا ،جی ٹی روڈ پر آپ نہیں جا سکتے فیض آباد بند ہے ،فیض آباد کھلے گا تو جاسکیں گے ،انہوں نے مزید کہا کہ متعلقہ سیکریٹریوں کو بلایا ہے ،سب کو سن کر فیصلہ کریں گے ،عدالت نے سیکریٹری اوورسیز اور سیکریٹری ڈبلیو ڈبلیو ایف کو طلب کر لیاہے اور کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

حکومت کو عدلیہ سے ٹکرانہ مہنگا پڑے گا، شیخ رشید

اسلام آباد (این این آئی) عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ حکومت کو عدلیہ سے ٹکرانا بہت مہنگا پڑے گا۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہاکہ نااہل شخص کو اہل قرار دینا آئینی طور پر ناممکن ہے ¾اس طرح تو اجمل پہاڑی اور عزیر بلوچ کو بھی وزیراعظم بنایا جاسکتا ہے تاہم امید ہے کہ سپریم کورٹ انتخابی اصلاحات ایکٹ کو ختم کر دےگی جب کہ حکومت کو عدلیہ سے ٹکرانا بہت مہنگا پڑے گا۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ نوازشریف کے بغیر یہ کام ممکن نہیں تھا جب کہ وزیر خزانہ اور نوازشریف سب اقامے والے ہیں۔شیخ رشید نے کہا کہ ہر محلے کو اوسط بل ڈال دیا جاتا ہے میٹر ریڈنگ کی اہمیت ہی نہ رہی، بجلی والوں کو 14 ہزار چالان روزانہ کرنے کا حکم ہے جبکہ پولیس کو بھی لازمی چالان روزانہ کرنے کا ٹاسک ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو واپڈا افسر ٹارگٹ بل پورا نہیں کرتا اور حقائق پر جاتا ہے تو اس کا تبادلہ کردیا جاتا ہے، میں نے کبھی ذاتی کیس پیش نہیں کیا مگر میرے ہاسٹل میں گیس چلی نہیں اور 40 ہزار کا بل بھیج دیا۔