ہائی کورٹ نظر ثانی بورڈ کا حافظ سعید کو فوری رہا کرنیکا حکم

لاہور (کورٹ رپورٹر) لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی ریویو بورڈ نے حافظ سعید کی نظر بندی میں مزید توسیع کی حکومتی درخواست مسترد کر دی اور حافظ سعید کو فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عبدالسمیع خان کی سربراہی میں 3 رکنی ریویو بورڈ کے سامنے حافظ سعید کو پیش کیا گیا اور ریویو بورڈ نے بند کمرے میں کارروائی کی کارروائی کے دوران حافظ سعید نے اپنی نظر بندی کو بلا جواز قرار دیا اور موقف اختیار کیا کہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے انہیں ایک سال سے نظر بند رکھا گیا ہے حکومت کی جانب سے نظر بندی میں ساٹھ سے نوے روز کی نظر بندی کی استدعا کی گئی تین رکنی ریویو بورڈ نے تمام ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد حافظ سعید کی نظر بندی کی معیاد مکمل ہونے سے ایک دن پہلے ہی نظر بندی ختم کر دی ریویو بورڈ نے حکم دیا کہ حافظ سعید کے خلاف کوئی دوسرا کیس نہ ہونے کی بنیاد پر انہیں فوری طور پر رہا کر دیا جائے حافظ سعید کو اس سال 30 جنوری کو نظر بند کیا گیا تھا جس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے احکامات کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا ریویو بورڈ کے فیصلے کے بعد حافظ سعید کی لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت نظر بندی کے خلاف زیر سماعت درخواست رہائی کی وجہ سے غیر موثر ہو گئی ہے لاہور ہائیکورٹ نے حافظ سعید کی پیشی کے موقع پر سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے حافظ سعید کی پائیکورٹ میں آمد پر ان کی تنظیم کے کارکن نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں حافظ سعید کی نظر بندی ختم ہونے کے احکامات پر نعرے بھی لگائے گئے حافظ سعید نے اپنی رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے بھارت کو خوش کرنے کے لیے انکو نظر بند کیا تھا حافظ سعید نے ہائیکورٹ ریویو بورڈ کے فیصلے کو سراہا اور کہا کہ عدلیہ کے فیصلہ کے بعد بھارت کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔

 

سلیمان داود نے واپسی کیلئے یو این اویا برطانیہ کی گاڑی مانگی :یوسف رضا گیلانی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ یہ ماننا پڑے گا آج مسلم لیگ (ن) اسمبلی میں اکثریت دکھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ کہا جا رہا ہے تھا کہ 70کا ٹولہ ان سے علیحدہ ہو چکا ہے ایسا ہر گز نہیں ہوا۔ میاں صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ وہ مینڈکوں کو ایک گھڑے میں اکٹھا رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تناﺅ موجود ہے۔ کچھ لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں کچھ گلے شکوے کر رہے ہیں۔ مجھے کسی صاحب نے لندن سے مٹھائی بھیجی ہے۔ انہوں نے کہا میرے لیڈر کامیابی سے نکل گئے ہیں اور دشمن ناکام رہے ہیں۔ دوسرے دوست نے مجھے فون کیا اور کہا کہ نااہل وزیراعظم کے لئے اتنے سارے پارلیمنٹیرین نے ووٹ دیا ہے۔ انہوں نے کہا! معاف کرنا پاکستانی قوم میں غیریت نام کی کوئی چیز نہیں انہوں نے کہا! لفظ ذرا سخت ہیں لیکن پاکستان کی قوم بے غیرت ہے عدالت نے جس شخص کو نااہل کر دیا۔ اسے پھر چن رہے ہیں۔ عدالت کا فیصلہ اس شخص کے بارے میں سب کچھ بیان کر دیتا ہے۔انہوں نے کہا اسی طرح اپوزیشن بھی بہت نااہل ہے جو اوپر سے مخالف ہیں اور اندر سے ملے ہوئے ہیں۔ نوید قمر نے گنوائے کہ کتنے لوگ ہیں جو ابھی تک نوازشریف کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے تیسری بات بھی کہی اسٹیبلشمنٹ نااہل ہے۔ میں ڈرتا ہوں 1971ءکی طرح نابالغ اور نااہل اسٹیبلشمنٹ اپنا ایک اور ٹکڑا نہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔ عمران خان نے پہلے سے گنتی کر لی ہو گی کہ میرے ایک ووٹ سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ اسی لئے وہ پارلیمنٹ میں نہیں گئے میں نے جب بھی انہیں فون کیا انہیں مشورہ دیا کہ پارلیمنٹ میں جانا چاہئے۔ جس سسٹم پر آپ یقین نہیں رکھتے پارلیمنٹ میں نہیں جاتے۔ تو کس طرح قوم کو راضی کریں گے کہ آپ کو چن کر اس میں بھیجیں۔ شاید عمران خان نے سمجھ لیا ہے کہ انہیں نااہل کر دیا جائے گا۔ اسی لئے وہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنی تحریک جاری رکھوں گا۔ عمران خان کو پھر بھی پارلیمنٹ میں ضرور جانا چاہئے۔ ایک مرتبہ مغربی پاکستان کی پارلیمنٹ میں باقی بلوچ کو تو گولی مار دی گئی تھی۔ لیکن خواجہ محمد صفدر صاحب جن کے بیٹے یہ خواجہ صاحب ہیں۔ لیکن ان میں ان کے جیسی خوبیاں نہیں ہیں خواجہ صفدر بہت محنتی، مخلص پارلیمنٹرین تھے۔ وہ بہت محنت کرتے تھے۔ وہ رات کو ایک بجے بھی کتابوں میں الجھے ہوتے تھے۔ سیف اللہ خان، رحمت اللہ ارشد، افتخار احمد انصاری باقی بلوچ یہ لوگ اتنی محنت کرتے تھے کہ شاید 11 یا 13 بندوں کی اپوزیشن تھی لیکن وہ ایک ایک چیز میں بل روک لیتے تھے۔ اور کتنے کتنے مہینے بل رکوا لیتے تھے کہ یہ آئین اور قانون کے مطابق غلط ہے۔ پارلیمانی پریکٹس کے لئے بہت ضروری ہے کہ آپ اس کے ساتھ جڑے رہیں۔ یہ ضیاءالحق کے دور میںہوا کہ ہاتھ اٹھا کر فیصلہ دےے دو۔ کوئی پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو۔ اب تعلیم کی شرط بھی ختم کر دی ہے دعوے سے کہتا ہوں 70 سے 80 فیصد پارلیمنٹیرین بجٹ کی انگریزی میں کاپی پڑھ ہی نہیں سکتے۔ ظفر اللہ جمالی کے ساتھ بڑے قریبی تعلق ہیں میں نے ان کے ساتھ دنیا کے مئی ممالک میں دورہ کیا۔ میری پہلی کتاب آئی تو وہ ڈیرہ مراد جمالی میں تھے۔ انہوں نے مجھے وہاں سے فون کیا اور اب میری نئی کتاب بھی وہ پڑھ کر مجھے بتاتے ہیں کہ تم نے کتاب میں فلاں واقعہ لکھا ہے۔ ولاں بات لکھی ہے۔ وہ پرانے پارلیمنٹیرین ہیں۔ وزیر، وفاقی وزیر، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم سب رہ چکے ہیں۔ لیکن اس قسم کی سیاست کہبازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگےہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگےوہ پارلیمنٹ کو تماشا کہتے ہیں۔ عدالت کیا فیصلہ کرے کوئی اس بارے حتمی رائے نہیں دے سکتا۔ عدالت کیلئے مشکل بن گئی ہے اگر وہ الیکشن کے ترمیمی بل کو برقرار رکھتی ہے تو یہ ٹرینڈ بن جائے گا۔ آپ نے قتل کیا پھانسی کی سزا ہوئی آپ کو اکثریت حاصل ہے۔ اسمبلی اسی شق کو ہی اڑا دے جس کے تحت آپ کو سزا ہوئی ہے۔ آپ اس کو جمہوریت کی فتح کہہ سکتے ہیں آزاد عدالتیں کیا اس کو تسلیم کر لیں گے کہ بندہ پھانسی پانے والا تھا کہ اچانک فیصلہ کر دیا جائے کہ یہ شق کینسل اور 302 کے سب ملزم بری۔ میاں نوازشریف کو خیال آیا کہ ہم نے لندن میں میثاق جمہوریت کیا تھا۔ وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ آﺅ اس پر اب بات کو لو۔ لیکن اس کے شاید 50 فیصد چانسز نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی وہ آپس میں ایک ہیں۔ یہ ایک تھیوری اسلام آباد میں موجود کہا جاتا ہے کہ اندر خانے ان کے رابطے موجود ہیں۔ آصف زرداری کسی وقت بھی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ نوازشریف بڑے بھائی ہیں ان سے بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے۔ 2018ءکے الیکشن کے لئے اپنی پہچان قائم رکھنے کیلئے نوازشریف سے بات نہ بھی کریں۔ میرے خیال کے مطابق پی پی پی کے پنجاب میں کوئی طاقتور شخصیت موجود ہی نہیں ہے سوائے قمر زمان کائرہ کے۔ شاید وہ اپنی سیٹ نکال سکیں۔ وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب میں تو پی پی پی کے پاس نمائندے ہی موجود نہیں ہیں۔ اسحاق ڈار میرے بہت پرانے دوست ہیں کافی کوشش کے باوجود ان سے فون نہیں ہو سکا شاید وہ علیل تھے۔ پچھلے دنوں میں کوئٹہ گیا۔ وہاں کونسل آف ایڈیٹرز کی ملاقات ڈاکٹر مالک صاحب سے ہوئی۔ تمام اخباروں کے ایڈیٹرز وہاں چائے پر موجود تھے۔ انہوں نے عجیب بات بتائی۔ جب ہم نے پوچھا کہ باغی ارکان جنہیں آپنے منا کر لانا تھا کہاں گئے۔ انہوں نے انکشاف کیا۔ میں نے جنیوا، لندن سب جگہ براہمداغ بگٹی سمیت تمام بلوچ رہنماﺅں سے ملا ہوں اور وہ بغیر کسی شرط کے واپس آنے پر تیار ہوگئے تھے۔ جب میں نے وزیراعظم نوازشریف کو بتایا۔ اس پر انہوں نے کہا ہم سوچ کر بتاتے ہیں۔ اتنے عرصہ میں ان کی مدت ختم ہو گئی اور ن لیگ کے وزیراعلیٰ اقتدار میں آ گئے۔ کیا واقعی ایسی صورتحال تھی کیا غلطی نہیں کی کہ انہیں قومی دھارے میں نہیں لا سکے؟ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پی پی پی نے اپنی ذمہ داری کو نبھایا۔ انہوں نے سینٹ میں بھی بل پاس کروایا کہ نااہل شخص پارٹی صدارت نہیں رکھ سکتا۔ ادھر بھی انہوں نے کوشش کی اور 98 ووٹ لئے۔ خدا نہ کرے کہ 1971ءکا واقعہ دوبارہ رونما ہو۔ مگر پارلیمنٹ آزاد اور خود مختار ہے وہ خود فیصلہ کرتی ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو کافی اختیارات مل گئے تھے۔ اس لئے اپنے دائرہ اختیار سے باہر جانا اتنا آسان نہیں ہے کہ جو خدشات آپ کو نظر آ رہے ہیں وہ ایسے نہیں ہیں۔ اس میں اسٹیبلسمنٹ کا کیا رول ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تو پارلیمنٹرین کے ووٹوں کا معاملہ ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی رول نہیں ہے۔ جب میں وزیراعظم تھا۔ مجھے ڈی جی، آئی ایس آئی نے بریفنگ دی تھی بلوچستان کے بارے ان کے خیال کے مطابق وہاں انڈیا کی بہت زیادہ دخل اندازی موجود تھی۔ وہ بلوچستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں آپ اس کا کوئی حل نکالیں۔ ہم نے آعاز حقوق بلوچستان پر کام کیا۔ جتنے بھی قرارداد اس دن تک بلوچستان اسمبلی کے پاس کئے تھے ہم نے من و عن ان سب کو تسلیم کر لیا۔ اور ان کی رائلٹی کیلئے ان کی تمام تر ڈیمانڈز پوری کر دیں۔ ہم نے آغاز کر دیا تھا کہ مثبت قدم اٹھائے جا سکتے ہیں۔ اتنے بھی حالات خراب نہیں کہ ہم بلوچستان کو سنبھال نہ سکیں۔ جب میں وزیراعظم بنا ہم نے بلوچوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیا۔ ڈاکٹر مالک اور نواب صاحب بھی میرے قریبی دوست ہیں میں ان کا احترام کرتا ہوں۔ اس وقت ان بلوچ رہنماﺅں نے شرط رکھی تھی کہ ہماری گارنٹی یو این او، یا برطانیہ دے۔ ہم نے جواب دیا نہیں یہ ہمارے اپنے ملک کا مسئلہ ہے اس کی گارنٹی میں اپنے اداروں سے آپ کو معافی دلواتا ہوں آپ تشریف لائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت وہ بغیر کسی شرط کے واپس آنا چاہ رہے تھے تو یہ بہترین موقع تھا۔ حکومت نے اس پر کام نہ کر کے غلطی کی۔

وزیر اعظم کے ظہرانہ میں نہ آنے والے ارکان اسمبلی کیخلاف ایکشن کا فیصلہ

اسلام آباد ( آن لائن ) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ظہرانے میں شرکت نہ کرنے والے لیگی ممبران اسمبلی نے نیا طوفان کھڑا کردیا ، سابق وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ ، وزیراعظم ہاﺅس ، کیبنٹ انکلیو اور ایوان صدر میں وزراءاور ممبران کی دوڑیں لگودیں ۔ غیر حاضر ممبران کی فہرست طلب کرلی گئی ۔ عدم شرکت کی معقول وجہ نہ ہونے پر شوکاز نوٹس جاری کئے جانے سے متعلق متضاد دعوے ، مریم نواز نے بھی پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت نہ کرنےوالے ممبران کا پتہ چلانے کےلئے ویڈیو فوٹیج حاصل کرلی، وفاداریاں بدلنے والوں کیخلاف سخت ایکشن کا فیصلہ ۔ ذمہ دار ذرائع نے آن لائن کو بتایا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے حکومت کی تمام تر کوششوںکے باوجود ظہرانے میں شرکت نہ کرنے والوں کے بارے میں سخت برہمی کااظہار کیا ہے اور ان کے بارے میں ایکشن لینے کا فیصلہ کیا ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نواز شریف نے تمام غیر حاضرممبران کی فہرست طلب کی ہے اس سلسلے میں رات گئے تک پارلیمنٹ ہاﺅس ، ایوان صدر ، وزیراعظم ہاﺅس اور سیکرٹریٹ ، کیبنٹ انکلیو اور ایوان صدر میں ہنگامی رابطے کئے گئے اور اکثریتی عدم شرکت والے ممبران کے ٹیلی فونک رابطے منقطع تھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شرکت نہ کرنے والے ممبران اسمبلی کو خود فون کرتی رہی ہیں اس بات پر بھی برہمی کااظہار کیاجارہاہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے دورہ لندن منسوخ کرکے تمام تر توجہ اس بات پر فوکس رکھی کہ ممبران اسمبلی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ظہرانے میں شرکت کریں تاہم ظہرانے میں 128،134اور 138کے علاوہ 146ممبران کی شرکت کی متضاد خبریں آتی رہیں جس کے بعد مریم نواز نے نہ صرف حساس اداروں بلکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ پارلیمنٹ سے شرکت کرنے والے ممبران کی فوٹیج بھی حاصل کرلی ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنا دورہ لندن منسوخ صرف اس ظہرانے کیلئے کیا تھا ان کی پاکستان میں موجودگی تمام ممبران اسمبلی کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ پاکستان میں رہیں گے اور اپنے مقدمات کا سامنا کرینگے تاہم اس کے باوجود ممبران کی عدم شرکت نے سیاسی محاذ پر ایک نیا سیاسی طوفان کھڑا کردیا ہے جس کے باعث وزیراعظم ہاﺅس سے لیکر تمام ایوانوں میں کھبلی مچی ہوئی ہے اور مسلم لیگ (ن) پر ایک سکتے کی کیفیت طاری ہے۔

پاپا کی چوائس کوئی اور مگر وہ وزیر اعظم نہیں بننا چاہتے ،لاڈلی بیٹی مریم نواز کا دبنگ اعتراف

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) منتخب پارلیمنٹ نے ڈاکٹیٹر کے بنائے ہوئے کالے قانون کو ردی ی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔ یہ جمہوریت کی فتح کا دن ہے۔ میاں نوازشریف نے تحمل مزاجی کا درس دیا ہے۔ وہ کسی سے ٹکراﺅ نہیں چاہتے۔ پاکستان میں جمہوریت جتنی مزور سمجھی جا رہی ہے اتنی کمزور نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز نے نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کل ایک عہد ساز دن تھا جب منتخب پارلیمنٹ نے ڈکٹیٹر کے کالے قانون کو ردی بنا کر کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ ہم اسے جمہوریت کی فتح سمجھتے ہیں۔ کسی کی شکست نہیں سمجھتی۔ پارلیمنٹ نے ڈکٹیٹر کے بنائے ہوئے کالے قانون کو رد کر کے اچھی مثال قائم کی ہے۔ اپوزیشن والے اداروں کے پیچھے چھپ کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نوازشریف کو میدان میں شکست نہیں دے پائے تو اداروں کو سہارا بنا لیا۔ اپوزیشن کو اپنی صفوں کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ بل لانے والے خود پارلیمنٹ میں موجود نہیں تھے۔ تلخ حقائق کو بیان کرنا۔ ٹکراﺅ نہیں ہوتا۔ سب ادارے قابل احترام ہم ان کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر ادارے قانون اور آئین سے باہر جا کر ایک شحص کے لئے ایسی مثال قائم کریں کہ وہ قانون کے مطابق نہ ہوں تو سوال تو اٹھیں گے۔ میاں نوازشریف کروڑوں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ وہ لیڈر ہیں۔ پاکستان کو ایک فیصلہ کن سمت دینے کا وقت آ گیا ہے۔ میرے لئے فخر کی بات ہے جو خوف اور ڈر سے بھاگی نہیں اور اپنے والد کے ساتھ کھڑی ہوں۔ مشکلات کا سامنا کر کے ہی قوم کو درست سمت دی جا سکتی ہے۔ نوازشریف نے تحمل مزاجی کا سبق دیا ہے وہ کسی ادارے سے ٹکراﺅ نہیں چاہتے۔ اگر ٹکراﺅ کی کیفیت نظر آ رہی ہے تو یہ کس نے پیدا کیا ہے جمہوریت جتنی کمزور سمجھی جا رہی ہے پاکستان میں اتنی کمزور نہیں ہے۔ پارلیمنٹ نے اس کا ثبوت دے دیا ہے۔ ماورائے عدالت کام کو اگربند باندھا جا رہا ہے تو یہ بہتر قوم ہے۔ غیر قانونی اقدام قابل قبول نہیں۔ شہباز شریف وفادار بھائی ہیں۔ اپنے والد کے بعد وہ بھائی کو باپ کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کی جدوجہد بہت بڑی ہے۔ نوازشریف کی اپنی چوائس شہباز شریف تھے لیکن وزیراعظم نہ بننے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا۔ انہیں لگتا تھا کہ درمیان میں کام چھوڑنے کی وجہ سے منصوبوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔انہوں نے سوچا کہ وقت تھوڑا ہے۔ الیکشن قریب ہیں۔ بہتر ہے کہ منصوبوں کو مکمل کر لیا جائے۔ اگر وہ وزارت عظمیٰ کی طرف جاتے ہیں تو صوبے کے کاموں میں فرق پڑ سکتا ہے۔ 1999ءمیں جتنی سزا میاں صاحب کو دی گئی۔ وہ ان کے لئے تمغہ ہے۔ ان ہی جلا وطنیوں نے انہیں نوازشریف بنایا ہے۔ ان کی جدوجہد سنہری حروف میں لکھی جا رہی ہیں۔

اہم پیش رفت زاہد حامد کام روک دیں دھرنا ختم کردینگے

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)فیض آباد میں جاری دھرنے کے خاتمے کے حوالے سے اہم پیش رفت سامنے آئی ہے اور مظاہرین وزیر قانون زاہد حامد کے فوری استعفی کے مطالبے سے دستبردار ہوگئے ہیں جبکہ دوسری طرف مظاہرین اور پولیس کے درمیان کشیدگی دیکھنے میں آرہی ہے ، مظاہرین کے پتھراﺅ کی وجہ سے ایس پی صدر عامر نیازی سمیت چار اہلکار زخمی ہوگئے ۔ فیض آباد دھرنے کے مسئلے کے حل کے لیے بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی نے تحریک لبیک کے رہنماں سے مذاکرات کے بعد سفارشات حکومت کو بھجوادی ہیں اور دھرنا مظاہرین وزیر قانون زاہد حامد کے فوری استعفی کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ تحریک لبیک کا موقف ہے کہ ہم زاہد حامد کو مرکزی ملزم نہیں مانتے، تاہم ختم نبوت ترمیم کی تحقیقات کرنے والی راجہ ظفرالحق رپورٹ منظرعام پر آنے تک وزیر قانون اپنا کام روک دیں تو ہم دھرنا ختم کردیں گے۔وزارت مذہبی امور نے پیر حسین الدین شاہ کی کمیٹی کی رپورٹ وزیرداخلہ کو ارسال کردی ہے۔ وزارت مذہبی امور نے جید علما پر مشتمل یہ مذاکراتی کمیٹی گزشتہ روز تشکیل دی تھی جس میں پیر حسین الدین ،ڈاکٹر ساجد الرحمن ، پیر ضیا الحق شاہ، مولاناعبدالستارسعیدی اور پیرنظام الدین جامی شامل ہیں۔دوسری طرف حلف نامے میں ترمیم کے مسئلے پر اسلام آباد میں 17 روز سے دھرنا جاری ہے جس دوران سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوتی رہیں ، تازہ ترین اطلاعات کےمطابق مظاہرین گارڈن ایونیو کے قریب کنٹینر پر چڑھ گئے ہیں اور ان کے پتھراو کی وجہ سے ایف سی اور پولیس کے چا راہلکار زخمی ہوگئے ہیں جن میں ایس پی صدر عامر نیازی بھی شامل ہیں۔

 

بیٹی کی شادی کیلئے 3لاکھ دیکر غریب باپ سے 4گنارقم بٹور لی

حا صل پور(نمائندہ خبریں) سود خور مافیا کنڈی گروپ نے غریب شہری کا جینا دوبھر کر دیا،مجبور باپ کو بچی کی شادی کے لیے تین لاکھ روپے سود پر دیکر کر ساڑھے سات لاکھ روپے بٹور لیے،مزید سات لاکھ روپے رقم کی ڈیمانڈ ورنہ دکان پر قبضہ کرنے کی دھمکی۔غریب شہری پریس کلب حا صل پور پہنچ گیا،تفصیل کے مطابق ان خیالات کا اظہار محمد زاہد ولد محمد افضل جٹ رہائشی حا صل پور اور محمد اسلم ماہو نے ریس کلب حا صل پور میں ایک پریس کا نفرنس میں کیا ۔انھوں نے کہا کہ بچی کی شادی کے لیے مجبور ہو کر ایک سود خور مافیا کے کنڈی گروپ کے رکن عطاءمحمد خان ولد سر بلند خان پٹھان سے نقدی رقم مبلغ تین لاکھ روپے سود پر حا صل کیے۔جس پر سود خور مذکور نے ہر چھ ماہ بعد ڈیڑھ لاکھ روپے بطور سود ادا کرنےکی شرط پر اور دو عدد خالی اسٹام پیپر معہ دو عدد خالی پرو نوٹ اور دو عدد اوپن چیک وصول کر کے رقم تین لاکھ روپے دے دیئے۔ اور قرض کی ادائیگی کی مدت ایک سال مقرر کی،انھوں نے کہا کہ تین لاکھ روپے رقم کی مد میں تقریبا 750000 روپے کی رقم مذکورہ عطا محمد کو ادا کر چکا ہوں۔ اور اب سود خور عطاءمحمد مزید680000 روپے رقم کی ڈیمانڈ کر رہا ہے۔ اور کہہ رہا ہے کہ اگر تونے یہ رقم نہ دی تو تمھارا چیک پرونوٹ اپنی مرضی سے بھر کر تمھاری دکان اور پلاٹ پر قبضہ کر لونگا،انھوں نے کہا کہ میں غریب شہری ہوں اتنی بھاری رقم ادا نہیں کر سکتا اس سلسلہ میں عدالت عالیہ میں بھی رٹ پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔انھوں نے کہا کہ میرے چیک پرونوٹ عطاءمحمد سے برآمد کیے جائیں،اور مقدمہ درج کیا جائے،ہم وزیر اعلٰی پنجاب، آئی جی پنجاب۔ ڈی آئی جی بہاولپور، ڈی پی او بہاولپور سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے،ورنہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے سامنے پٹرول چھڑک کر خود سوزی کرنے پر مجبور ہونگا،اس موقع پر رانا زاہد مہتاب و صحافی برادری کثیر تعداد میں موجود تھی۔

 

حجرہ شاہ مقیم: وڈیرے کا ٹیچرپرتشدد،سکول کو تالالگا دیا گیا

حجرہ شاہ مقیم ( نمائندہ خصوصی ) گورنمنٹ پرائمری سکول گذشتہ چھ دن سے بند بچوں کا مستقبل تاریک ہونے لگا وزیراعلی پنجاب پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب کے تعلیمی نعرہ کو لیگی ایم این اے اور اس کے حو اریوں نے پاو¿ں تلے روند دیا گورنمنٹ پرائمری سکول کے ٹیچر محمد اکرم کو بااثر وڈیرے زمیندار نے سکول میں داخل ہو کر معصوم طلباءکے سامنے تشدد کا نشانہ بنا یا سکول کے ٹیچروں اور طلباءکو سکو ل سے نکال کر سکول پر قبضہ کرلیا اور اس کو تالالگا کر بند کردیا متاثرہ ٹیچر نے تھانہ حویلی لکھا میں کاروائی کے لیے درخواست گزاری پولیس بااثر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے انکاری روز نامہ خبریں میں خبر شائع ہونے کے بعد اس وقوع کو دبانے کے لیے پولیس اور محکمہ تعلیم ٹیچر پر صلح کے لیے دباو¿ ڈالنے لگے متاثرہ ٹیچر نے وزیراعلی پنجاب سے فوری نوٹس لے کر ملزم کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے،تفصیلات کے مطابق حویلی لکھا کے نواحی گاو¿ں بستی متھیلا ٹھکر کے سرکاری پرائمری سکول میں با اثر زمیندار محمد اشرف عرف نواب اورنگزیب وٹو جو لیگی ایم این اے کا قریبی ساتھی اور دست راست ہے جو اپنے زرعی الات اور گاڑی وغیر ہ سکول میں رکھتا تھا جس کو ٹیچر محمد اکرم نے منع کیا کہ اپنا سامان سکول کی چاردیواری میں نہ رکھا کرو جو پڑا ہوا ہے اسے بھی اٹھا لو جس پر بااثر زمیندار مشتعل ہو گیا اور سکول میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آکر ماسٹر محمد اکرم جو بچوں کو تعلیم دینے میں مصروف تھا پر حملہ کر دیا جس کو تشدد اور گالم گلوچ کرنے کے بعد سکول کے اساتذہ اور بچوں کو سکول سے باہر نکال کر سکول پر قبضہ کر لیا سکول انتظامیہ کو دھمکی لگائی کہ اگر کسی نے سکول کو میری اجازت کے بغیر کھولنے کی کوشش کی تو میں اسے جان سے مار دوں گا تم کون ہوتے ہو میرا سامان سکول سے باہر نکلوانے والے سکول انتظامیہ نے ایس ایچ او تھانہ حویلی لکھا کو کاروائی کے لیے درخواست گذاری مگر پولیس سیاسی دباو¿ کی وجہ سے تاحال مقدمہ درج نہیں کر رہی اس وقوع کر بارے میں روز نامہ خبریں نے مفصل سٹوری کو شائع کیا تھا جس پر محکمہ تعلیم اور پولیس والے اس وقوع کو دبانے کے لیے ٹیچر پر صلح کے لیے دباو¿ ڈال رہے ہیں پنجاب ٹیچر یونین کے عہدے دران اور اساتذہ کو ایے یو مرکز ہیڈ سلیمانکی وسیم اقبال نے کہا ہے کہ سی او اوکاڑہ میڈم ناہید وآصف کی لیگی ایم این اے میا ں معین وٹو سے بات ہو گئی ہے آپ کوئی کاروائی نہ کروائیں جا کر سکول کھول لیں بااثر وڈیرہ اب آپ کو تشدد کا نشانہ نہیں بنائے گا جس پر ٹیچر یونین کے صدر ظفر جاوید اور اساتذہ نے اس بااثر زمیندار کے خلاف کاروائی کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیااور پنجاب ٹیچر یونین نے آج اس کا لائحہ عامہ ترتیب دینے کے لیے اجلاس طلب کر لیا ہے۔

 

تھانہ غازی آباد پولیس جرائم پیشہ افراد کی سر پرستی کرنے لگی

لاہور (کرائم رپورٹر)تھانہ کلچر میں تبدیلی کا دعوی ، فرنٹ ڈیسک بھی روائتی پولیس کلچر میں تبدیل ہو گیا ،ایک ماہ سے تین بچوں کی ماں درخواست جمع کروانے کیلئے دبدر پھرتی رہی ،تھانہ غازی آباد فرنٹ ڈیسک اہلکاروں کا تھانیدار طالب کی ایماءپر درخواست وصول کرنے سے انکار، طالب نے 9ہزار روپے کے عوض ملزم سے صلح کیلئے دباﺅ ڈالنا شروع کر دیا ، انکار پر غلیظ گالیاں دیتے ہوئے تھانے سے نکال دیا ، پولیس کے ہاتھوں تذلیل کا نشانہ بننے والی خاتون داد رسی کیلئے خبریں کے دفتر پہنچ گئی ۔بتایا گیا ہے کہ گزشتہ روز غازی آباد کی رہائشی عشرت بی بی اور اسکا شوہر محمد اشرف روزنامہ خبریں کے دفتر آئی جس نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان سناتے ہوئے کہا کہ وہ تین بچوں کی ماں ہے جبکہ اسکی والدہ اور اسکے گھر میں 3گلیوں کا فاصلہ ہے۔عشرت بی بی نے بتایا کہ اسکی والدہ اور چھوٹی بہن کرن بی بی گھر میں راشد نامی شخص کا موتی ستاروں کا کام کرتے ہیں ۔وقوعے کے روز20اکتوبرکو اسکی چھوٹی بہن 18سالہ کرن والدہ کے گھر سے اسکے گھر آئی ہوئی تھی کہ اسی دوران راشد کرن کو تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچ گیا اور بغیر اجازت گھر کے اندر داخل ہو گیا جس پر میں نے جب احتجاج کیا تواس نے چھری مار کر میرا ہاتھ زخمی کر دیا ۔ واقعہ کے متعلق میں نے جب تھانہ غازی آباد تھانے میں اندراج مقدمہ کیلئے درخواست دی تو فرنٹ ڈیسک عملہ نے قریب بیٹھے ہوئے تھانیدار طالب کے کہنے پر درخواست وصول کرنے سے انکار کر دیا اور میرے ساتھ شفیق بیگ نامی اہلکار کو طبی ملاحظہ کروانے کیلئے تیار کیا جو 500روپے کے عوض ہمارے ساتھ چلنے کیلئے آمادہ ہوا اور سروسز ہسپتال ایمرجنسی میں بھی مختلف رپورٹس اور ٹیسٹوں کی مد میں ہم سے تقریبا1500روپے لئے اور ملاحظہ کی رپورٹ ہمیں دکھائی بھی نہیں اور سیدھا طالب کو دیدی جس نے ملزم ارشد سے رابطہ کر کے اس سے مبینہ طور پر بھاری رقم وصول کی اور ہمیں ٹرخانے لگا جس پر ایک روز میں درخواست لیکر ایس ایچ او غازی آباد کے پاس پیش ہوئی جنہوں نے درخواست پر اپنے دستخط کر کے فوری مقدمہ درج کر تے ہوئے کاروائی کا حکم دیا جس پر طالب نے میری درخواست لیکر غائب کر دی اور مجھے 9ہزار روپے کے عوض ملزم راشد سے صلح کیلئے دباﺅ ڈالنا شرو ع کر دیا اور ایک سٹامپ پیپر پر دستخط کرنے کا کہتا رہا جس پر میری جانب سے مسلسل انکار پر طالب نے مجھے غلیظ گالیاں دینا شروع کر دیں اور بعد ازاں دھکے دیکر تھانے سے نکال دیا ۔متاثرہ خاتون عشرت بی بی اور اسکے شوہر اشرف نے آئی جی پنجاب سے عاجزانہ اپیل کر تے ہوئے کہا کہ فرنٹ ڈیسک کو غیر جانبدار انہ طور پر شہریوں کی خدمت کیلئے بنایا جائے تاکہ ہر کسی کی قانونی مددممکن ہوسکے ۔ متاثرین نے آئی جی پنجاب ، سی سی پی او لاہوراور ڈی آئی جی آپریشنز لاہور سے واقعے کی انکوائری کروا کر ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف کاروائی اور ملزمان کے خلاف اندراج مقدمہ کی اپیل کی ہے ۔

دھرنا مظاہرین اور پولیس میں جھڑپ، ایس پی سمیت 4زخمی

اسلام آباد( آن لائن)فیض آباد میں جاری تحریک لبیک یارسول اللہ دھرنے کے مظاہرین اور پولیس کے درمیان پتھراﺅسے ایس پی صدر عامر نیازی سمیت پولیس اور ایف سی کے4 اہلکار زخمی ہوگئے ۔تفصیلات کے مطابق حلف نامے میں ترمیم کے مسئلے پر اسلام آباد میں 18 روز سے دھرنا جاری ہے، گذشتہ روز دھرنے میں سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوتی رہیں ، مظاہرین گارڈن ایونیو کے قریب کنٹینر پر چڑھ گئے ہیں اور ان کے پتھراو¿کی وجہ سے ایف سی اور پولیس کے4 ہلکار زخمی ہوگئے ہیں جن میں ایس پی صدر عامر نیازی بھی شامل ہیں۔پولیس اور ایف کے زخمی اہلکاروں کو فوری طور پر قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں انہیں طبی امداد فراہم کی گئی۔ تمام اہلکاروں اور ایس پی صدر عامر نیازی کو ابتدائی طبی امدادکے بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ چند روز قبل بھی مظاہرین کے پتھراو¿ سے ایس ایچ او تھانہ آئی نائن قاسم نیازی اور 5 اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔اس کے علاوہ بھی تحریک لبیک کے مظاہرین کی جانب سے پولیس اور ایف سی کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں ۔دریں اثناء تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ تحفظ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے سامنے کوئی صدارت، وزارت اور اقتدار کوئی معنی نہیں رکھتا اس وقت پاکستان کسی غیر یقینی صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن اگر حکومتی ہٹ دھرمی سے دھرنا طوالت اختیار کرتا ہے تو 12ربیع الاول کو عید میلاد النبی کا جشن بھی فیض آباد فلائی اوور پر منایا جائے گا اور میلاد کے جشن میں راولپنڈی اسلام آباد سمیت ملک بھر سے لاکھوں عاشقان رسول فیض آباد پہنچیں گے راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ ہمیں نہیں دی گئی اگر حکومت کسی ذریعے سے کوئی مفاہمتی مسودہ تیار کر رہی ہے تو اس پربات کا فیصلہ ہماری مرکزی شوریٰ نے کرنا ہے ان خیالات کے اظہار انہوں نے دھرنے کے مقام فیض آباد فلائی اوورمیں اپنے خیمے میں آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے کیا خادم حسین رضوی نے کہا کہ ختم نبوت کے معاملے پر حکومت پہلے دن سے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور سنگین اور فاش جرم کے ارتکاب کے باوجود اپنی غلطی تک ماننے کو تیار نہیں انہوں نے کہا کہ حکومت وزیر قانون زاہد حامد کو فوری برطرف کرے یہی ہمارے مطالبات کا بنیادی جزو ہے انہوں نے کہا کہ آج تک راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ ہمیں نہیں دی گئی حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس رپورٹ کو منظر عام پر عام پر لائے انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کسی غیر یقینی صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن اگر حکومتی ہٹ دھرمی سے دھرنا طوالت اختیار کرتا ہے تو 12ربیع الاول کو عید میلاد النبی کا جشن بھی فیض آباد فلائی اوور پر منایا جائے گا اور میلاد کے جشن میں راولپنڈی اسلام آباد سمیت ملک بھر سے لاکھوں عاشقان رسول نے یہاں آمد کی یقین دہانی کرائی ہے انہوں نے کہا کہ جشن میلاد کے لئے ہمیں کسی انتظامی کمیٹی کی ضرورت نہیں صرف ایک اعلان سے تمام انتظامات بھی مکمل ہوں گے اور شایان شان جشن بھی ہو گا اور پھر حضورکے غلاموں کو یہاں آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے ناموس رسالت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی ہم اس ڈاکو کا نام پوچھ رہے ہیں اور حکوقمت اس ڈاکو کو تحفظ دے رہی ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات میں ایسی کوئی بات نہیں جو حکومت کی سمجھ میں نہ آئے اب تو قوم کے بچے بچے کا یہی مطالبہ ہے اور پوری قوم اس مطالبے پر متفق ہے ۔

نویدقمر کا ووٹنگ کے وقت بندے گننا معنی خیز:کالم نگاروں کا تجریہ

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں تبصروں پر مشتمل پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار مکرم خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سے نااہل قرار پانے والے نواز شریف پارٹی کے صدر بننے کے اہل ہو گئے۔ نواز شریف اب خود کو نظریہ اور زرداری خود کو ایک سوچ قرار دیتے ہیں۔ ایک نااہل شخص کو پارٹی صدر بننے کا حق حاصل نہیں ہونا چاہیے، عدالت کے فیصلے کو بلڈوز کیا جا رہا ہے۔ پانامہ اور حدیبیہ کیس ایک حقیقت ہے۔ اسلام آباد میں دھرنے کے باعث لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ دھرنے والوں کو اٹھانے کےلئے آرمی کو نہیں بلایا جا سکتا اس سے خدشات سامنے آ سکتے ہیں۔ خورشید شاہ نے حکومت کو فوج سے رابطہ کی جو تجویز دی ہے اس کی روح میں ایک پس منظر ہے، سیاست میں فوج کا قطعی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ ن لیگ میں دراڑ پڑ چکی ہے، بہت سے پرندے اڑنے کےلئے پرتول رہے ہیں اجلاس میں بھی 22 لیگی ارکان غیرحاضر تھے۔ سینئر صحافی امجد اقبال نے کہا کہ نواز شریف کے پارٹی صدر بننے کو غیرآئینی تو نہیں غیر اخلاقی ضرور کہا جا سکتا ہے۔ اجلاس میں ن لیگی ارکان نے حاضر رہ کر اپنی اکثریت ثابت کی، بل پیش کرنے والے نوید قمر کا ووٹنگ کے وقت بندے گننے کی فرمائش کرنا معنی خیز تھا۔ کرپشن کا الزام ہر دور میں لگایا جاتا اور حکومتوں کو فارغ کیا جاتا رہا ہے۔ کرپشن کو بطور سیاست استعمال کیا جاتا ہے۔ فوج سے دھرنے والوں کو اٹھانے کا نہیں البتہ گارنٹی کا کام ضرور لیا جا سکتا ہے جس طرح طاہرالقادری اور عمران خان کے دھرنے کے وقت لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈا بہت ہوتا ہے فوج ملک کا ایک ادارہ ہے، اگر وہ دھرنے کے مسئلہ سے نمٹنے کےلئے کوئی رول ادا کر سکتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل63,62 کو ختم کرنا ضروری نہیں البتہ اس میں موجود ابہام کو دور کیا جانا چاہیے۔ صرف ن لیگ میں ہی نہیں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں بھی دراڑیں نظر آ رہی ہیں۔ ڈائریکٹر پلاک ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں کتنی ہی مخالفت ہو جمہوری قوانین اور قدروں کےلئے ان میں مطابقت ہونی چاہیے۔ چور راستے سے آنے والی پارٹی کو عوام پسند نہیں کرتے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں لیڈر بنائے جاتے ہیں۔ پانامہ کیس چل رہا تھا تو فیصلہ پانامہ پر ہی آنا چاہیے تھا، نواز شریف نے سیاست سے کافی سیکھا ہے اگر وہ نظریے کی جانب گئے ہیں تو یہ خوش آئند ہے۔ خورشید شاہ کی تجویز سے متفق ہوں، ریاست اپنے اداروں سے مدد لے سکتی ہے، عوام دھرنے کے باعث مشکل میں ہیں فوج کو کہنا چاہیے کہ دھرنے والوں کو اٹھائیں، دھرنے والوں کے مطالبات مان لئے تو یہی کلچر چل نکلے گا اس لئے میرے نزدیک اس سے قانون کے مطابق سختی سے نمٹنا چاہیے۔ سینئر صحافی افضال ریحان نے کہا کہ صرف عوام کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ کس کو سیاست میں رکھنا اور کس کو آﺅٹ کرنا ہے۔ ن لیگ پہلے سے مضبوط ہوئی ہے۔ یہاں کسی کو گھیرنا ہو تو مذہبی نعرے استعمال کئے جاتے ہیں اور اگر کسی کے خلاف کچھ نہ ملے تو کرپشن کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔ دھرنے والے جسٹس شوکت صدیقی کا بڑا احترام کرتے ہیں جج صاحب ہی وکلاءکا وفد لیکر ان کے پاس چلے جائیں۔ ختم نبوت کا بل کسی فرد واحد نے نہیں بلکہ آئین کے مطابق سب نے منظوری دی تھی اب وہ بل واپس بھی لے لیا گیا ہے تو اعتراض ختم کر دینا چاہیے۔ دھرنے والوں کو اٹھانے کےلئے فوج کا ایک اشارہ ہی کافی ہو گا۔ الیکشن کمیشن کو مضبوط ہونا چاہیے۔ نواز شریف مزید مضبوط ہو کر سامنے آئے ہیں۔ 63,62 کے بجائے صرف عوام کو حق دینا چاہیے کہ وہ کسے لانا اور کسے نکالنا چاہتے ہیں۔