تازہ تر ین

قصہ ایک ہزار ارب ڈالر ۔۔۔ جو ملک سے باہر گئے

لاہور (نیا اخبار رپورٹ) پاکستان کے سیاستدان ملک کی بجائے برائے ملکوں میں سرمایہ کاری کرنے میں نمبر لے گئے۔ گزشتہ 20 سال 1 ہزار ارب ڈالر کے قریب دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کے نام پر بھیجے گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے یہ رقم پاکستان سے کرپشن اور کک بیکس وصول کر کے بھیجی گئی اور اس میں سے بیشتر رقم منی لانڈرنگ کے ذرائع سے گئی۔ تازہ رپورٹ کے مطابق اس رقم کو پاکستان واپس لانے کیلئے رقم پچاس فیصد حصہ ٹیکس کی صورت میں لینے کی بجائے موجودہ سیاستدان اپنے ساتھیوں کو فائدہ دینے کیلئے بیرون ملک میں رکھی گئی رقوم کا 3 سے 5 فیصد ٹیکس وصول کرنے کے قوانین بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بیشتر ممالک منی لانڈرنگ اور دو نمبر طریقے سے بیرون ملک بھیجی جانے والی دولت کا پچاس فیصد یا اس سے زائد ٹیکس کی صورت میں وصول کرتے ہیں جبکہ پاکستانی قانون بنانے والے ادارے ایسا نہیں چاہتے۔ ذرائع کا کہنا ہے جب سے سوئس، پاناما اور پیراڈائز کے قصے عام ہوئے ہیں میڈیا نے ایسی رپورٹ شائع اور نشر کی ہیں کہ اب سیاستدان مجبور ہو گئے ہیں کہ مختلف ذرائع سے بیرون ملک بلیک میں گئی رقوم واپس لا کر نئے قانون کا سہارا لیکر اسے جائز ظاہر کریں۔ پاکستان میں پہلے بھی تین چار مرتبہ ایسی سکیمیں آ چکی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل امر کی بڑی بڑی قیمتی گاڑیوں کو قانون تحفظ دینے کیلئے قانون لایا گیا جس کے ذریعے لاکھوں سمگل شدہ گاڑیوں کو رجسٹر کرایا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ان کے لیڈروں کی جانب سے سوئس بنکوں میں دولت رکھنے کا شور ہوا۔ پیپلز پارٹی کے بعد کئی سیاستدانوں کے ان بنکوں میں اکاﺅنٹس کا انکشاف ہوا۔ سوئس بنکوں میں رکھی گئی رقوم کا حجم 200 ارب ڈالر بتایا گیا ہے۔ یہ انکشاف سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کیا اور ساتھ کہا کہ وہ اس رقم کو پاکستان لانے کیلئے قانون سازی کر رہے ہیں۔ ابھی یہ معاملہ حل نہیں ہوا تھا کہ پاناما اور پیراڈائز میں مختلف کمپنیاں بنا کر رکھی گئی قوم کا حجم بھی 200 ارب ڈالر سے زائد بتایا گیا ہے۔ پاناما اور پیراڈائز کے بعد دوبئی، ملائشیا اور دوسرے ممالک میں بھی سرمایہ کاری کے نام پر رکھی گئی رقم کا تخمینہ 600 ارب ڈالر کے قریب بتایا جا رہا ہے۔ 10 برس قبل لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد تقریب میں معروف بنک کے سی ای او پرویز اے شاہد نے بھی انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کے سیاستدانوں اور امرا کی بیرون ملک دولت 500 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ پہلے تو کوئی یہ بات ماننے کو تیار نہ تھا لیکن اب یہ بات نہ صرف سچ ثابت ہوئی بلکہ رقم بھی 500 ارب ڈالر سے بڑھ کر 1000 ارب ڈالر ہو چکی ہے۔ پاکستان کے اقتصادی ماہرین نے کہا ہے اتنی بڑی رقم بیرون ملک ہے اور ملک کا کام چلانے کیلئے آئی ایم ایف سمیت بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے 4 سے 6 ارب ڈالر کیلئے قومی اثاثے گروی رکھے جا رہے ہیں۔ حکومت اگر سنجیدہ ہے اور اقتصادیات کیلئے درد رکھتی ہے تو پھر اسے بلیک منی کو وائٹ کرنے کیلئے بنائے جانے والے ممکنہ قوانین کیلئے ابھی سے اقدام کرنا ہونگے تاکہ بیرون ملک رکھے گئے پیسوں کو ملک میں لانے اور انہیں وائٹ کرنے کیلئے پاکستانی اقتصادی صورتحال کو حقیقی معنوں میں فائدہ ہو۔ اس وقت پاکستان کا بجٹ 80 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور اگر بیرون ممالک پڑے 1000 ارب ڈالر میں سے نصف بھی پاکستان آ جائیں اور ان پر 20 سے 30 فیصد ٹیکس لگا دیا جائے تو اتنی رقم حاصل ہو سکتی ہے کہ آئندہ 50 سال تک پاکستان کا بجٹ خسارے سے نکل سکتا ہے، ملک میں کوئی غریب نہیں رہے گا اور پاکستان دنیا کا ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے سعودی عرب کی مثال کو سامنے رکھا جائے تو وہاں پکڑے جانے والے شہزادوں کو بھی اربوں ریال کی وصولی کے بعد رہائی مل رہی ہے۔ پاکستان میں بھی اسی طرز پر بیرون ملک رقوم لے جانے والوں کو حراست میں لے لیا جائے اور ایسی ہی پلی بارگین کی جائے تو ملک کا اقتصادی و معاشی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain