تازہ تر ین

حافظ سعید کا خبریں کیلنڈر ۔۔۔۔ بھارتی میڈیا پر کھلبلی مچ گئی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار نے کہا ہے کہ پاکستان میں چلنے والی سیاست عجب ہے۔ حافظ سعید کو نظر بند کر دیا گیا۔ ان سے پاکستانیوں کا ملنا بھی ممنوع ہو گیا۔ جب امریکہ کی طرف سے حافظ سعید کے حق میں بیان آ گیا تو ان کی نظربندی ختم کر دی گئی۔ میں ان سے ملنے گیا۔ انہوں نے مجھے چائے پر 5 بجے بلایا تھا۔ وہاں چائے کے ساتھ بادام وغیرہ بھی پیش کئے تھے۔ نہ جانے بھارتی میڈیا نے کہاں سے خبر لے لی کہ میں ان کے ساتھ کھانے پر گیا تھا ملک میں پھرنے والے انڈین اور پاکستانی کلبھوشنوں کی کمی نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں بھارت کیلئے محبت جاگتی ہے اور وہ ان کے حق میں بیان دینا شروع کر دیئے لاہور کے حلقہ 120 کے الیکشن مہم کے دوران ملی مسلم لیگ کا4 روز قبل اعلان کیا گیا اس وقت مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان زبردست مقابلہ جا رہا تھا اس میں بھی ملی مسلم لیگ 7 ہزار ووٹ لے گئی۔ فرض کیا ملی مسلم لیگ پر پابندی لگا لیں وہ کسی اور نام سے کھڑے ہو جائیں گے۔ کسی اور پارٹی کے ساتھ جڑ جائیں گے۔ پاکستان کے ایک حلقے میں ملی مسلم لیگ والے بغیر تیاری کے 7 ہزار ووٹ لے لیتے ہیں حالانکہ امیدوار بھی اتنا مشہور نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمدردی رکھنے والے لوگ تو موجود ہیں۔ میاں محمد نوازشریف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں ملک میں تقریباً تمام صوبوں ہی میں ان کا کنٹرول موجود ہے۔ دو وزیراعلیٰ اور دو وزرائے اعظم کے علاوہ چاروں گورنر ان کی پاری کے ہی ہیں۔ میاں صاحب کچھ دنوں سے اپنے کیسز کی وجہ سے الجھے ہوئے ہیں۔ ہر معاملے پر فوری ری ایکشن دے رہے ہیں۔ آج کے اخبار میں ان کا بیان چھپا ہوا ہے کہ خفیہ طاقتیں (ہائیکورٹ) بلوچستان کی حکومت بدلنا چاہتے ہیں۔ تا کہ وہ بلوچستان اسمبلی توڑ سکیں۔ اور سینٹ کا الیکشن نہ ہو سکے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے چالیس لوگوں کا دعویٰ کیا کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ وہاں کل تعداد 65 ہے۔ جبکہ حاصل بزنجو اور دیگر نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے پاس چالیس ارکان ہو گئے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کیلئے 33 ارکان کی ضرورت ہو گی۔وہاں رسکی معاملہ ہے۔ جے یو آئی (ف) کا نمائندہ وہاں اپوزیشن لیڈر ہے شاہد خاقان عباسی نے 4 روز قبل مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ اپنے بندوں کو روکیں سرفراز بگٹی سے ہی دن میں 3 یا 4 مرتبہ فون کر کے تازہ حالات معلوم کر لیتتا ہوں وہ کہہ رہے ہیں ابھی تک جے یو آئی (ف) والوں نے فضل الرحمن کی بات نہیں مانی مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ وہاں کے لوکل ارکان زہری صاحب کے خلاف ہیں پاکستان میں 5 الیکٹرول کالج ہیں۔ 4 صوبائی اسمبلیاں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے ایک مرکزی یعنی قومی اسمبلی ہے قومی اسمبلی میں میاں نوازشریف کی اکثریت ہے۔ لوگ اپنی اپنی قیمتیں بڑھاتے ہیں جو شور شرابہ مچاتا ہے۔ اسے سو کروڑ مل جاتے ہیں حلقے کی ترقی کیلئے وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ ابھی تک تو لوگ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ریاض الدین پیرزادہ کو دیکھ لیں۔ انہوں نے ابھی تک 7 مرتبہ پارٹیاں تبدیل کر لی ہیں۔ میں انہیں جانتا ہوں۔ یہ سب سے بڑے لوٹے ہیں۔ وہ شخص بھی مسلم لیگ (ن) سے ناراض تو ضرور ہوئے اور استعفیٰ بھی دیا۔ انہوں موقف یہ اختیار کیا کہ نوازشریف سے میری کوئی مخالفت نہیں صرف فواد حسن فواد سے گلہ ہے وہ میری بات نہیں مانتے اور مداخلت بہت کرتے ہیں۔ وہ اس طرح ناراض ہوتے ہیں۔ اپنی قیمت بڑھواتے ہیں اور بڑا سا فنڈ وغیرہ وصول کرتے ہیں اور دوبارہ پارٹی میں آ جاتے ہیں۔ یہ صاحب اپنے علاقے میں اہل تشیع کے بہت بڑے لیڈر ہیں۔ ان کی تاریخ یہ ہے کہ سپاہ محمد اور سپاہ صحابہؓ دونوں زبردست مار دھاڑ کرنے والی تنظیمیں تھیں۔ سپاہ محمد اہل تشیع کی جبکہ سپاہ صحابہؓ اہلحدیث کی جماعت تھی۔ پیرزادہ صاحب کا نام ان 7 ملٹی ٹینٹ میں آ گیا جو اہل تشیع کے تھے۔ اسی طرح سنیوں کے بھی کافی نام آ گئے تھے۔ میاں نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کا کریڈٹ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ناراض ساتھیوں کو منا لیتے ہیں۔ چودھری نثار اور دوسرے لوگوں کے بھی کھلم کھلا ان کا نام نہیں لیا تھا مجھے بھی یہ مسئلہ سمجھ نہیں آتا۔ میں نے کئی افراد سے اس کے بارے تحقیق بھی کی۔ لوگ سیاسی پارٹی چھورتے ہوئے ہزار مرتبہ سوچ رہے ہیں کہ 2018ءکا الیکشن انہوں نے کس پارٹی کی ٹکٹ پر لڑنا ہے۔ میاں محمد نوازشریف اگر بلوچستان اسمبلی کو بچانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو انہیں یقین کر لینا چاہئے کہ سینٹ کے الیکشن دور دور تک ہوتے نظر نہیں آ رہے سینٹ الیکشن مئی میں ہونے ہیں جبکہ جنرل الیکشن جولائی میں ہونے ہیں۔ اگر اپریل میں بھی کوئی اسمبلی سندھ یا کے پی کے توڑ دی جاتی ہے تو سینٹ الیکشن رک جائیں گے۔ آصف زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہی ہو سکتا ہے وہ آخری رات میاں نوازشریف کو بچانے کے لئے میدان میں آ جائیں اور سندھ اسمبلی نہ توڑیں۔ احسن اقبال پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ دو ماہ سے زیادہ چلتا ہوا سسٹم دکھائی نہیں دیتا وہ کہتے ہیں کہ سینٹ کا الیکشن بھی ہوتا ہوا دکھائی نہی دیتا۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ 9 جنوری کو کوئی بڑا دھماکہ نہیں ہونے جا رہا۔ دھرنوں کی تیاری کیلئے کم از کم ایک سے دو ہفتے درکر ہوتے ہیں۔ بڑے جلسے کرنے کیلئے بھی 7 دنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے 17 جنوری تک کچھ نہ کچھ ہلچل مچ جائے۔ طاہر القادری سے جا کر پوچھ لیتے ہیں کہ اگلا کیا پروگرام ہے؟ میں سب کی عزت اور احترام کرتا ہوں اور کسی سے ملنے میں کوئی عار نہیں۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain