تازہ تر ین

نیا وزیر اعلی بلوچستان کس جماعت سے ہو گا

کوئٹہ (بیورو رپورٹ) وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری نے پارٹی کے مرکزی قیادت اور اتحادیوں کے مشورے کے بعد وزارت اعلیٰ سے اپنا استعفیٰ دیدیا وزیراعلیٰ کے استعفیٰ دینے کے بعد صوبائی کا بینہ تحلیل اورمشیروں کو بھی فارغ کر دیا گیا وزیراعلیٰ کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد بھی پیش کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ نے تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان کو پیش کیا اور گورنر بلوچستان نے وزیراعلیٰ بلوچستان کا استعفیٰ منظور کر لیا وزیراعلیٰ کے مستعفی ہونے کے بعد اپوزیشن اور ن لیگی منحرف اراکین نے خوشی کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے روایات کی پاسداری کر تے ہوئے جمہوری اقدار کو فروغ دیا تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے مرکزی صدر میاں محمد نوازشریف اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کی ہدایت پر وزیراعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہو گئے اور گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی کو اپنا استعفیٰ پیش کیا اور گورنر بلوچستان نے وزیراعلیٰ کا استعفیٰ منظور کر لیا ان کے استعفیٰ کے منظور ہو تے ہوئے صوبائی کابینہ تحلیل ہو گئی اور مشیروں کو فارغ کر دیا گیا وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن ومنحرف اراکین نے جمع کیا تھا اور قرارداد جمع ہونے سے قبل ہی وزیراعلیٰ نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا وزیراعظم نے گزشتہ روز نواب ثنااللہ زہری سے ملاقات کی تھی اور انہیں مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا وزیراعظم نے صوبائی قیادت سے استفسار کیا تھا کہ سیاسی صورتحال کو اس نہج پر کیوں پہنچنے دیا گیا؟ انہوں نے مشورہ دیا کہ اسمبلی سے ووٹ کے ذریعے عدم اعتماد کے بجائے پہلے گھر چلے جانا بہتر ہے۔وزیراعظم نے صوبائی قیادت کو موجودہ صورتحال میں متحد رہنے اور صوبے میں حکومتی معاملات بہتر بنانے کی ہدایت کی ذرائع کے مطابق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی ثنااللہ زہری کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھاصوبے میں سیاسی بحران اور وزیراعظم کے مشورے کے بعد نواب ثنااللہ زہری نے مستعفی ہو گئے نوا ب ثنااللہ زہری سابق وزیراعلی بلوچستان عبدالمالک بلوچ کے ساتھ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی کے پاس پہنچے جہاں انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کیا نواب ثناءاللہ زہری انتہائی مختصر استعفیٰ لکھا جس میں استعفے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔گورنر بلوچستان نے نواب ثنااللہ زہری کا وزارت اعلی سے استعفیٰ قبول کرلیاگورنر بلوچستان نے استعفے کی صوبائی اسمبلی کے اسپیکر سمیت چیف سیکریٹری اور دیگر کو بھی بھجوادی ہے جس کے بعد وزیراعلی کے مستعفی ہونے کا نوٹی فکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ دوسری جانب بلوچستان اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں محرکین نے عدم اعتمادکی قرار داد واپس لے لی جس کے بعد اجلاس غیر معینہ تک کے لئے ملتوی کردیا گیا۔ بلوچستان اسمبلی کا مذکورہ خصوصی اجلاس ان 14اراکین کی درخواست پر طلب کیا گیا تھا جنہوں نے گزشتہ ہفتے 2جنوری کو سیکرٹری صوبائی اسمبلی کے توسط سے اپنے دستخطوں کے ساتھ عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی تھی تحریک عدم اعتماد کا اعلان ہوتے ہی بلوچستان کا سیاسی درجہ حرارت ایک دم سے بڑھنے لگا تھا اور دن بدن سیاسی بحران گہرا ہوتا گیا اس دوران اسمبلی کا اجلاس بھی منگل 9جنوری کو سہ پہر چار طلب کرلیا گیا جس میں اراکین نے قائد ایوان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنی تھی تاہم اس کی نوبت نہیں آئی اور منگل کی سہ پہر اسمبلی کے اجلاس سے کچھ دیر قبل وزیراعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری نے اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان کو ارسال کردیا۔ بلوچستان کے مستعفی ہونے والے وزیراعلیٰ و مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے صدر و چیف آف جھالاوان نواب ثناءاللہ خان زہری نے کہاہے کہ زبردستی اقتدار سے چمٹے رہنامیرا شیوہ نہیں مجھے طاقت اور اقتدار اسمبلی نے دیا ہے مجھے محسوس ہورہاہے کہ کافی تعداد میں اسمبلی کے اراکین میری قیادت سے مطمئن نہیں ہیں اس لئے میں ان پر زبردستی مسلط نہیں ہونا چاہتا اقتدار آنے جانے چیز ہے اللہ تعالی نے موقع دیا اور عوام نے مناسب سمجھا تو میں اپنے عوام کی خدمت جاری رکھوں گا ۔یہاں جاری ہونے والے اپنے ایک بیان میں نواب ثناءاللہ خان زہری نے کہا کہ دو ہفتے سے صوبے میں سیای حالات میں بہت تیزی آئی ہے اس میں خاص طور پر چند ساتھیوں کی جانب سے میرے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہم نے ہرممکن کوشش کی کہ انکے تحفظات کو دور کریں ہمارے ساتھیوں نے بھی بھر پور کوشش کی ہماری پارٹی کی مرکزی قیادت وزیراعظم پاکستان بھی کل کوئٹہ آئے لیکن بدقسمتی سے ہم کامیاب نہ ہوسکے ۔انہوں نے کہاکہ میں نے پچھلے دو سال کے عرصے کے دوران ہرممکن کوشش کی کہ نہ صرف اتحادی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلوں بلکہ اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی آن بورڈ رکھا اکثر سرکاری تقاریب میں اپوزیشن لیڈر بھی میرے ساتھ ہوا کرتے تھے جس پر میڈیا کو خوشگوار حیرت ہوا کرتی تھی ۔انہوں نے کہاکہ سیاسی عمل کیساتھ ساتھ اس دوران ہم نے بھر پور کوشش کی کہ صوبہ میں حکومتی عملداری قائم کریں اور صوبے میں امن بحال کریں اللہ کا شکرہے کہ آج صوبے میں امن وامان کی حالت بہت بہتر ہے اور اسکی گواہی آپ سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا میں تمام متعلقہ اداروں خاص طورپر بلوچستان پولیس ،فرنیٹئر کور بلوچستان ،لیویز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مشکور ہوں کہ انہوں نے دن رات محنت کی اور ہمارے بچوں کے مستقبل کو بچایا ۔انہوں نے کہاکہ ہم نے پہلی دفعہ اپنے ترقیاتی پروگرام میں اپنے شہروں خاص طورپر ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز کی بہتری پر توجہ دی اور اس کیلئے خطیر رقم مختص کی اور یہ رقم اپنے سیاسی دوستوں کی ترجیحات کی بجائے متعلقہ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو اس کا ذمہ دار مقرر کیا تاکہ ہم پر اور ہمارے سیاسی دوستوں پر یہ الزام نہ آئے کہ ہم ترقی مخالف ہے اور مجھے خوشی ہے کہ ان دوسالوں میں صوبے کے ہر ضلع میں ترقیاتی عمل نظر آرہاہے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا آپ خود متعلقہ اداروں سے اس دور کے ترقیاتی کاموں کی تفصیل معلوم کرسکتے ہیں ۔نواب ثناءاللہ زہر ی نے کہاکہ یقینا مخلوط حکومت چلانا اتنا آسان نہیں ہوتا اگر چہ ہم اکثریتی جماعت تھے لیکن پھر بھی ہم نے کوشش کی کہ سب کو ساتھ لیکر چلیں میں خاص طورپر اپنے کولیشن پارٹنزز کا شکر گزارہوں کہ انہوں نے میرا بھر پور ساتھ دیا ۔انہوں نے کہاکہ سیاست میں آپ کی طاقت اپنے ساتھی ہوتے ہیں اگر وہ ساتھ چھوڑ دیں تو پھر زبردستی اقتدار سے چمٹے رہنا میراشیوہ نہیں مجھے طاقت اور اقتدار اسمبلی نے دیا ہے مجھے محسوس ہورہاہے کہ کافی تعداد میں اسمبلی کے اراکین میری قیادت سے مطمئن نہیں ہیں اس لئے میں ان پر زبردستی مسلط نہیں ہونا چاہتا اقتدار آنے جانے چیز ہے اللہ تعالی نے موقع دیا اور عوام نے مناسب سمجھا تو میں اپنے عوام کی خدمت جاری رکھوں گا لیکن میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے صوبے کی سیاست خراب ہوں اس لئے میں وزارعت اعلی کے عہدہ سے مستعفی ہورہاہوں میری خواہش ہے کہ صوبے میں سیاسی عمل جاری رہے اور صوبہ آگے بڑھیں آپ سب کا شکر گزارہوں کہ آپ نے ہر مشکل میں میرا ساتھ دیاا للہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہوں ۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain