لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف مہم بازی کا منصوبہ بہت پرانا ہے۔ اس میں امریکی تھنک ٹینک کے علاوہ یورپ کے بعض ممالک بھی اس میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی طاقتوں کے فارن آفسز کی مدد سے دیگر تھنک ٹینکس یہ مہم چلا رہے ہیں کہ ایک وقت تھا جب کراچی میں جناح پور کا سلسلہ چلا تھا۔ اس زمانے میں ایم کیو ایم کے قائد کا کہنا تھا کہ یہ جھوٹ ہے۔ لیکن جنہوں نے اس کے کاغذات دیکھے ہیں وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کراچی کو ہانگ کانگ کی طرز کا ایک علیحدہ سا ملک بنایا جائے۔ الطاف کی یہ کوشش ناکام ہوئی ہے کراچی کے مہاجروں کو ساتھ ملا کر کراچی کو علیحدہ کرنے کی کوشش ناکام ہوئی۔ اسی طرح ”را“ کی مدد سے کراچی کو علیحدہ کرنے کے مشن میں بھی یہ ناکام ہوو گئے ہیں ندیم نصرت، الطاف کی طرف سے لوگوں کو ہدایات دیتے تھے۔ ان سب کی تہہ میں انڈین پیسہ موجود ہے۔ اور بھارت ان کو اکسا رہا ہے۔ اب ندیم نصرت نے ایک نیا وار کیا ہے جس طرح آزاد بلوچستان کے نعرے لگائے گئے انہوں نے ”فری کراچی“ کا سلوگن چلا دیا ہے۔ بے و قوف بنانے کے لئے اس نے کہہ دیا کہ ہم کرپشن فری کا سلوگن لگا رہے ہیں۔ یہ وہ منصوبہ ہے جو بھارت نے 1971ءمیں بنایا تھا کہ ارڈر پر لڑائی کرنے کی بجائے پاکستان کو اندر سے توڑنے کی کوشش کرو۔ افغانستان کی طرف سے پہلے روس آ گیا پھر امریکن آ گئے۔ اب افغانستان کا علاقہ ”بفن“ بن گیا ہے۔ بلوچستان کے لئے ”فری بلوچستان“ کا نعرہ لگوانے کے پیچھے بھی انڈیا تھا۔ اب ”فری کراچی“ کے پیچھے بھی انڈیا کا ہاتھ ہے۔ یہ وہی کام ہے جو الطاف سندھ میں ادھورا چھوڑ گیا تھا۔ ایم کیو ایم چاہتی تھی کہ کراچی کے علاوہ حیدرآباد اور کچھ دیگر شہری علاقوں کو ملا کر جہاں مہاجروں کی اکثریت ہے، ایک جغرافیائی طاقت پیدا کی جا سکے۔ چونکہ وہ اس منصوبے میں ناکام ہوئے لہٰذا اب آنے والے چند برسوں میں فری کراچی کی کوشش کی جائے گی۔ دنیا کی بڑی طاقتوں سے مدد لی جائے گی کہ یہاں ”فری ٹریڈ“ فری اکنامی، جیسی سہولتیں دی جائیں گی۔ اپنے نمائندہ سے امریکہ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ندیم نصرت، الطاف حسین سے الگ ہو گئے ہیں یا انہوں نے علیحدہ سے محاذ سنبھالا ہے کہ امریکہ میں یہ رائے ہموار کی جائے گی کراچی ایک الگ آزاد سٹی بن جائے؟ جو یہاں واحد بندرگاہ ہے؟ شیخ مجیب الرحمن سے جب میں نے انٹرویو کیا تو اس نے بھی یہی کہا تھا کہ کچھ لڑکے میرے پاس آئے۔ اور علیحدگی کی تحریک کیلئے مجبور کیا۔ یہ تو ایک ڈرامہ ہوتا ہے اسی طرح ایم کیو ایم کے ندیم نصرت نے بھی ڈرامہ رچایا ہو گا۔ امریکہ جیسے مہنگے ملک میں ایسے مہم چلانا آسان نہیں۔ ان کے کیا کاروبار ہیں جو یہ مہم چلا سکتے ہیں کیا ان کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ، کیش ہے؟ اور اگر ہے تو وہ کون سا ملک ہے؟ عمران خان نے پارلیمنٹ کے بارے جو الفاظ استعمال کئے ہیں۔ شاید اکثریت کی رائے یہی ہے۔ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ صفر ہے۔ جب سے پندرھویں ترمیم آئی ہے اس وقت سے پارلیمنٹ صفر ہو گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر موجود تمام سیاسی جماعتو ںکو اپنے لیڈر کے خلاف بولنے کا اختیار نہیں رہا۔ وہ کہتے ہیںکہ آپ مخالفت کر سکتے ہیں۔ ن لیگ کے ارکان کو کوئی بات کہنا ہے تو وہ جاتی عمرہ جا کر بات کریں۔ اسی طرح عمران خان کی پارٹی کو دیکھ لیجئے ان کی کور کمیٹی کے کتنے اجلاس ہوتے ہیں۔ اب قانون کے مطابق پارٹی ارکان ان پرائیویٹ میٹنگز میں مشورے دے سکتا ہے۔ جبکہ پارلیمنٹ میں یہ عضو معطل ہیں۔ ن لیگ کا فیصلہ نوازشریف، ق لیگ کا فیصلہ شجاعت، پی پی پی کا فیصلہ جو زرداری نے کر دیا وہی تسلیم کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ کا تقدس اس وقت ہوتا ہے جب ہر شخص وہاں اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کر سکے۔ جن لوگوں نے وزیراعظم کو چنا ہوتا ہے۔ اپنی پارٹی کے رکن بھی اٹھ کر اس وزیراعظم پر کھل کر تنقید کر سکتے ہیں۔ لندن میں بھی ایسا ہی ہے۔ ہمارا نیچے اسٹرکچر اس طرح کا ہے کہ حکومتی پارٹی کے رکن کو تو دو، دو، چار چار کروڑ روپے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد ترقیاتی فنڈ کے نام پر مل جاتے ہیں۔ جس میں سے 25، 30 فیصد نکال لینا ان کے لئے ممکن ہوتا ہے۔ جبکہ اپوزیشن والوں کو یہ فنڈز نہیں ملتے۔ پنجاب میں یہ حال ہے کہ ڈی سی او، ایم پی اے کو کوٹہ الاٹ کر رہا ہے کہ درجہ چہارم یعنی چپڑاسی بھرتی کرنے کیلئے تمہیں اتنا کوٹہ دیا جاتا ہے۔ جس کے انٹرویو ہوں گے۔ بہاولپور کے ضلع میں ڈی سی او کے پاس درجہ چہارم کی 551 سیٹیں موجود ہیں جس پر 17 ہزار افراد نے درخواستیں دی ہیں بے چارے 17 ہزار افراد بے و قوف بن کر آئیں گے جبکہ ڈی سی او، ایم پی ایز کی بھیجی ہوئی لسٹوں کو اوکے کر دے گا۔ عمران خان ہو یا شیخ رشید انہیں چاہئے تھا پارلیمنٹ کے بارے ایسے الفاظ نہ کہتے۔ اسلام آباد میں یہ تھیوری عام ہے کہ الیکشن کمیشن سو موٹو ایکشن لے گا۔ جو کوئی اپلائی کر دکے گا۔ جیسے پرویز رشید نے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کے بغیر الیکشن ہونا ممکن نہیں۔ حلقہ بندیوں کی لسٹوں کے لئے الیکشن کمیشن 5 سے 6 ماہ مانگتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ جولائی میں الیکشن ہو پائیں گے۔ کیونکہ نئی مردم شماری کے مطابق الیکشن نہیں ہو سکتے کوئی بھی سپریم کورٹ میں چلا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے نگران حکومت 90 دن کی مدت کو لے کر سپریم کورٹ جا سکتی ہے کہ الیکشن کمپین تیار ہی نہیں ہے۔ عمران خان اور بہت سے دوسرے لیڈروں کی یہ غلطی ہے۔ انہیں سسٹم کو ٹھیک کئے بغیر الیکشن میں جانا ہی نہیں چاہئے تھا۔ طاہر القادری اپنی ایک سیٹ چھوڑ کر چلا گیا تھا کہ اس سسٹم کے تحت الیکشن نہیں ہو سکتے۔ خورشید شاہ صاحب اسی سسٹم کے بینیفشری ہیں۔ میرا ان سے کوئی شکوہ نہیں۔ وزیراعظم کے بعد پروٹوکول کا حقدار لیڈر آف اپوزیشن ہوتا ہے۔ ان کا گھر ان کا آفس ان کی سہولتیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ وہ وزیر سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ مخالفین ان کے خلاف پلندے لئے پھرتے ہیں کہ جو شخص میٹر ریڈر ہوا کرتا تھا۔ اس کے پاس اتنی جائیدادیں۔ اتنی دولت کہاں سے آئی وہ بینیفشری ہیں۔ اس سسٹم کے وہ چاہیں گے کہ یہ اسمبلی 100 سال ہے۔ شیخ رشید ابھی نہیں چاہتا کہ وہ اس وقت استعفیٰ دیدے کیونکہ جنرل الیکشن سے قبل ابھی وہاں ضمنی الیکشن ہو سکتا ہے جو ان کے لئے فائدہ مند نہیں ہو گا۔ ہم اپنے قصور کے نمائندے سے پوچھ لیتے ہیں کہ زینب کیس میں ہونے والے ڈی این اے میں کتنا وقت درکار ہے۔ پولیس کی مرکزی ملزم والی تھیوری میری سمجھ میں نہیں آئی۔ اگر ملزمان کی ڈی این اے ٹیسٹ ہونا ہیں یا ہو چکے ہیں۔ 5 دنوں میں جتنے نام سامنے آئے ہیں ان کے ڈی این اے کو ٹیسٹ ہو سکتے تھے۔ زینب کا کیس ایک طرف رکھیں اب بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے روزانہ کی بنیاد پر نئے نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ نمائندہ خبریں نیویارک محسن ظہیر نے کہا ہے کہ فری کراچی کی مہم امریکن شہر واشنگٹن ڈی سی میں شروع کی گئی ہے۔ یہاں چلنے والی ٹیکسیوں کے اوپر اشتہار لگے ہوتے ہیں۔ تقریباً 100 ٹیکسیوں پر انہوں نے یہ اشتہارات لگوائے ہیں۔ اسی طرح امریکہ کے دو بڑے اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ اور ”واشنگٹن ٹائمز“ میں 4 صفحات کا خصوصی سپلیمنٹ شائع کرا دیا گیا ہے۔ ”فری کراچی“ کے نام سے شائع ہونے والے اس سپلیمنٹ میں تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ بلوچستان کی طرح کراچی کو بھی آزاد ہوناچ اہئے۔ ایم کیو ایم پاکستان مخالفت میں کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ وہ پہلے دبے لفظوں میں بات کرتے تھے۔ اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ ندیم نصرت کا پس منظر یہ ہے کہ جب الطاف حسین نے 1992ءمیں پاکستان چھوڑا تو یہ ان کے ساتھ چلا گیا۔ ندیم نصرت 92ءسے آج تک کبھی پاکستان نہیں گیا۔ اس کے پاس برطانیہ اور امریکہ کی شہریت ہے۔ اس کی کوئی اولاد نہیں۔ اس کی بیوی بھی یہاں ٹیچر ہے۔ الطاف حسین نے جو متنازعہ تقریر کی تھی۔ اس کے بعد سے ندیم نصرت سامنے آیا۔ اسے ایم کیو ایم لندن کا کنوینئر بنایا گیا۔ جب لندن میں اس کی بیماری کی وجہ سے عہدہ سے علیحدہ کیا گیا تو یہ امریکہ چلا گیا۔ اور نیو جرسی میں رہنے لگا۔ ایم کیو ایم امریکہ والے بھی جب ان کے بارے پوچھتے تو انہیں کہا جاتا کہ ندیم نصرت بیمار ہیں اور کسی کے رابطے میں نہیں رہتے۔ میں نے جب ندیم نصرت سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ”فری کراچی“ کی مہم اس نے شروع کی ہے۔ میرے پاس کچھ لڑکے آئے تھے۔ انہوں نے جب مجھے یہ مہم چلانے کو کہا تو میں نے انکار کر دیا۔ لیکن پروفیسر انتظار کے قتل کے بعد سے میں سامنے آنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ ردعمل ہے۔ پاکستان کے خلاف ایک منظم سازش، تیار کی جا رہی ہے۔ اس کا نوٹس ہمارے حکمرانو ںکو جلد لینا چاہئے۔ نوجوان جو بہت جلد گمراہ ہو جاتے ہیں۔ ایم کیو ایم امریکہ کے لوگ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ان کا طرز زندگی بھی مڈل سادہ کلاس ہے۔ وہ ہر گز اس قسم کی مہم کو ”افورڈ“ بھی نہیں کر سکتے۔ جن ہوٹل میں یہ میٹنگ وغیرہ کرتے ہیں وہ بہت مہنگے ہیں۔ میں نے ندیم نصرت سے بھی یہ پوچھا کہ ”فری بلوچستان“ کی مہم میں بھی 24 کروڑ پاکستانی روپے تک خرچ ہوا ہے اسی طرح واشنگٹن ٹائمز کا 4 صفحوں کا ضمیمہ کی کاسٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ندیم نصرت نے جواب نہیں دیا اور کہا کہ جب لڑکوں سے میٹنگ ہو جائے گی تو تفصیلات بتا دیں گے۔ نمائندہ خبریں قصور جاوید ملک نے کہا ہے کہ زینب کیس کو آج پندرہ دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی کسی بھی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ پولیس کی کارکردگی صفر ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں غم و غصہ دوبارہ اٹھ رہا ہے۔ بچی کے والد نے مجھے کہا ہے کہ ہمیں پولیس پر کوئی یقین نہیں ہے یہ ڈرامے بازی کر رہی ہے۔ پولیس نے لاہور بھٹہ چوک سے ایک ملزم پکڑا تھا۔ اس کا تعارف کروایا تھا کہ یہ مرکزی ملزم ہے۔ ڈی این اے کی رپورٹ آنے میں صرف دو دن لگتے ہیں۔ پولیس نے جس شخص کومرکزی ملزم کہہ کر پکڑا تھا۔ اس کا نام عمر فاروق ہے۔ اس کے بعد انہوں نے دو بندے اور پکڑے ایک بابا رانجھا اور دوسرا آصف جو قصور سے پکڑے ہیں۔ آج آئی جی، عارف نواز صاحب نے بات کی ہے کہ ہمیں اس پر یقین نہیں۔ اب تک انہوں نے 550 ڈی این اے کے نمونے اکٹھے کئے ہیں۔ مرکزی ملزم کا ڈی این اے اس سے میچ نہیں کر رہا۔