تازہ تر ین

پریس کانفرنس میں زینب کے والد کے سامنے سے مائیک اٹھانے کا معاملہ سوشل میڈیا پر آ گیا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ قصور فائرنگ واقعہ کے ملزموں کا پتہ نہیں بھی چلا تو بہر حال زینب واقعہ کے ملزم کی گرفتاری کا کریڈٹ تو پنجاب حکومت کو جاتا ہے۔ ایک ٹی وی چینل نے بار بار دکھایا کہ پریس کانفرنس میں زینب کے والد کے سامنے سے بار بار مائیک ہٹا لیا جاتا تھا، انہیں بولنے کا موقع دینا چاہئے تھا۔ بہتر ہو گا کہ شہباز شریف یا ترجمان پنجاب حکومت اس کی وضاحت کر دیں۔ کئی برسوں سے مختلف محکموں کے ترجمان مقرر کر کے اعلانات ہوتے لیکن جب انہیں فون کریں تو بند ہوتا ہے یا کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ مریم اورنگزیب سے درخواست ہے کہ اگر اطلاعات تک رسائی کا قانون بنایا ہے تو اس پر عملدرآمد بھی کروائیں۔ ذمہ داران لوگ فون پر آتے ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ قصور میں مجرمانہ حملے کا شکار ایک بچی جو قومہ میں ہے اورچلڈرن ہسپتال میں زیر علاج ہے اس کو چھپا کر رکھا ہوا ہے اور میڈیا کو اس تک رسائی نہیں دی جاتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے درخواست ہے کہ اس کی صحت سے متعلق آگاہ کیا جائے آخر اس کو چھپانے کی کیا وجہ ہے۔ کراچی سے پشاور تک بڑا احتجاج ہو اور وہ کہیں کہ رانا ثناءاللہ کو عہدے سے ہٹایا جائے تو شہباز شریف یہ کرنے کو تیار نہیں، ضرور ان کے پاس کوئی خفیہ راز ہوں گے جس کی بنا پر وہ اپنی نوکری پکی کروا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ زینب کا ملزم پکڑے جانے پر شہباز شریف کو مبارکباد بھی دی اور درخواست بھی کی کہ باقی بچیوں پر بھی توجہ فرمائیں۔ کوئی خصوصی کمیٹی مقرر کر دیں۔ پنجاب حکومت نے خیبرپختونخوا میں بچی زیادتی واقعہ پر تعاون فراہم کرنے کی پیش کش کی جو خوش آئند ہے۔ اگر یہ خبریں غلط ہیں تو آئی جی کے پی کے اس کی تردید کریں یا پھر بتائیں کہ وہاں کی پولیس نے اب تک کیا کارروائی کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کی دھمکیوں کے بعد پاکستان میں پہلا ڈرون حملہ ہوا ہے۔ امریکہ کی طرف سے آغاز ہو گیا ہے ہمیں امریکہ و بھارت کی طرف سے کسی بھی قسم کی کارروائی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ پہلے بھی کہا تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ بھارت غیر معمولی ہے۔ نیتن یاہو کا انڈیا جانا اور پھر دونوں ممالک کا پاکستان کو برا بھلا کہنا، اسرائیلی وزیراعظم بھارت کو پاکستان پر حملے کرنے کیلئے اکسا رہا ہے۔ سیالکوٹ کا بارڈر تو انٹرنیشنل باﺅنڈرنگ ہے، بھارت کا یہاں بھی گولے برسا کر معصوم پاکستانیوں کو شہید کرنا، یہ ایک سیریز ہے آئندہ بھی بھارت کی طرف سے ایسی حرکتیں ہوں گی۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ دوہری پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان میں یک طرفہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ امریکہ میں پاکتان کے خلاف بری طرح جارحیت شروع ہے، پہلے نیو یارک میں ٹیکسیوں پر فری بلوچستان لکھوایا گیا اور اب واشنگٹن میں فری کراچی کی موومنٹ ہے جو نیو یارک میں ایم کیو ایم کو اچھالا جا رہا ہے جو لندن کا انتہا پسند پہلو ہے۔ امریکہ کی مہربانیوں کو خوب جانتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل باجوہ نے 3 دفعہ احساس دلایا ہے کہ امریکہ و بھارت سے انہیں خود مختاری کے لئے مستعد ہیں اور کسی قسم کی شرارت نہیں ہونے دیں گے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے کہا ہے کہ راﺅ انوار ایک کرپٹ افسر آصف علی زرداری کا پسندیدہ پولیس آفیسر ہے اور پوری سندھ حکومت اس کے پیچھے کھری ہے۔ نقیب اللہ کے ماورائے قانون قتل کی جے آئی ٹی بنا کر غیر جانبدارانہ تحقیقات کروا کر اسے کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ مں گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ ان کی گفتگو سوالاً جواباً ملاحظہ کر
سوال:میڈیا میں شور برپا ہے پاکستان کے اندر و باہر راﺅ انوار کے بارے خبریں گرم ہیں۔ آپ ان کے اور نقیب اللہ قتل کے بارے کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب:یہ پہلا واقعہ نہیں ایک عرصے سے ایسا ہو رہا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان طویل عرصے سے اس کی نشاندہی کر رہی ہے کہ یہاں آئین کی بالادستی و قانون کی حکمرانی کا کوئی دخل نہیں۔ پیپلزپارٹی نے کراچی کو پولیس سٹیٹ بنایا ہوا ہے۔
سوال: پہلے خبریں آئیں کہ راﺅ انوار کا زرداری سے تعلق ہے پھر تردید آئی لیکن اب وہاں کے ایک وزیر نے تصدیق کی ہے کہ واقعی زرداری سے اس کا کوئی رشتہ ہے؟
جواب: راﺅ انوار کا آصف زرداری سے ایک خاص تعلق ہے۔ وہ ان کے پسندیدہ ترین افسروں میں سے ایک ہیں۔ جس طرح ماورائے آئین و قانون اقدام میں ان کی شہرت ہے اس طرح بہت سارے جرائم میں بھی ملوث ہے جہاں سے کروڑوں روپے کمائے جا رہے ہیں اور لوگ جانتے ہیں کہ یہ کما کر کس کو دیئے جاتے ہیں اور کن پر خرچ ہوتے ہیں۔ راﺅ انوار کی شہرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ان کو کیفر کردار تک پہنچنا چاہئے لیکن یہ علامت ہے اصل مرض وہ لوگ ہیں جو ایسے افسروں کے ماورائے آئین و قانون اقدام کو ہمیشہ نظر انداز کرتے ہیں اور ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔ راﺅ انوار کے پیچھے پوری سندھ حکومت، پیپلزپارٹی اور زرداری ہیں، غیر جانبدار جے آئی ٹی بننی چاہئے۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کے لوگ راﺅ انوار کے خلاف اس لئے ہیں کیونکہ انہوں نے متحدہ سے تعلق رکھنے والوں کو پکرا ہے جو کرائم مافیا سے تھے۔ ایک پریس کانفرنس میں راﺅ انوار نے کچھ ملزموں کو نقاب میں پیش کیا تھا جنہوں نے تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے را سے تربیت حاصل کی اور پھر انہیں کراچی بھیجا گیا تھا، کیا یہ ڈرامہ تھا، بے گناہو ںکو پیش کیا گیا تھا؟
جواب: یہ پریس کانفرنس غالباً 3 سال پہلے ہوئی تھی، اس کے بعد سے لے کر اب تک اس مقدمے کا کوئی منطقی انجام ہوا۔ خود جاننا چاہتا ہوں جو ماضی میں ایسے لوگ متحدہ میں رہے تھے تو ان کا مقدمہ اب تک کہاں پہنچا۔
سوال: جے آئی ٹیز تو بہت ساری بنیں۔ جب رینجرز کے سربراہ جنرل بلال تھے تو جے آئی ٹیز میں پیش ہونے والے کئی ملزموں نے بیان دیا تھا کہ لوٹ مار کا حصہ بلاول ہاﺅس پہنچاتے تھے۔ کیا وجہ ہے کہ ایسے ثبوتوں کے باوجود کبھی کسی نے بلاول ہاﺅس سے استفسار نہیں کیا، نہ ہی کوئی مقدمہ دیکھا جو جے آئی ٹی رپورٹ میں لگے الزامات پر قائم ہوا ہو۔ جے آئی ٹی رپورٹ کا کیا فائدہ جب اس پر عمل ہی نہیں ہونا؟
جواب: ریاستی اداروں کو کراچی آپریشن کا اختیار و مینڈیٹ دیا تھا جس کا مطالبہ خود ایم کیو ایم پاکستان نے کہا تھا۔ ہم یہ بھی جانتے تھے کہ سب سے زیادہ قیمت متحدہ پاکستان کو ہی چکانی پڑے گی۔ سب سے زیادہ شک متحدہ پر کیا جاتا ہے۔ ہمارا میڈیا ٹرائل بھی کہا جاتا ہے اس سے آگے بہت کم مقدمات و الزامات میں جن کو عدالت میں ثابت کیا گیا۔ عموماً یہ آپریشن یک طرفہ ثابت ہوتا ہے اس کا رونا شروع سے رو رہے ہیں۔ جنرل بلال اکبر کی توجہ اس جانب مبذول کرواتا تھا کہ نائن زیرو پر چھاپے مارے جاتے ہیں لیکن بلاول ہاﺅس پر کبھی چھاپہ نہیں مارا گیا۔ جنرل بلال چلے گئے لیکن ابھی تک وہ مقدمات پینڈنگ ہیں کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ عزیر بلوچ کو گرفتار کیا گیا اگر اس نے بڑے انکشافات کئے ہیں جس میں بڑی مچھلیوں کے نام آتے ہیں تو یہ کارروائی بھی آگے بڑھنی چاہئے۔ متحدہ کے لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے لیکن عزیر بلوچ کے انکشافات پر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آتی۔
سوال: بطور اخبار نویس پہلی بار دیکھا کہ کراچی سے تعلق رکھنے والی دو سیاسی جماعتیں جن کی بنیاد پرانے دور کی ایم کیو ایم تھی انہوں نے آپ کی اور مصطفی کمال کی سربراہی میں آپس میں اتحاد کا اعلان کیا اگلے ہی روز آپ نے بائیکاٹ کر دیا پھر خبریں شائع ہوئیں کہ یہ سٹیبلشمنٹ نے کروایا تھا اگر سٹیبلشمنٹ نے کروایا تھا تو کیا آپ ان کی بات پر عمل کرتے ہیں اگر نہیں کرتے تو پہلے دن رضا مندی اور پھر انکار کیوں کر دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ متحدہ لندن کی جانب سے اشارہ ہوا تھاکہ ان کے ساتھ نہیں ملنا؟
جواب: کس کے ساتھ ملنا یا نہیں ملنا اپنا فیصلہ، سٹیبلشمنٹ یا لندن کا نہیں۔ چاہتے ہیں کہ یہ زیادہ وقت کسی مناسبت اور فطری طور پر ہو۔ 5 نومبر جلسے سے پہلے انیس قائم خانی سے ایک ملاقات ہوئی تھی جس میں طے ہوا تھا کہ ہم پارٹی کا نام تبدیل کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ لندن سے علیحدگی عملی و نظریاتی طور پر کی ہے اس پر کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔ 35 سال ککی سیاسی جماعت کو بچایا اور لوگوں کو یکجا رکھا۔ پاکستان کے سیاسی جمہوری عمل میں ایک کردار رہا لیکن ہمیں کوئی سیاست میں جگہ نہیں دی جاتی۔ 23 اگست کے بعد بھی ہمیں سیاسی طور پر جگہ نہیں ملی۔ دوستوں کے مشورے ہوتے تھے کہ پی ایس پی کے ساتھ انضمام کے بغیر نئی جماععت نہیں بنائیں گے۔ ہم نے بات چیت کا ایک دروازے کھلا رکھا تھا۔
سوال: طاہر القادری کی اے پی سی میں متحدہ نے تجویز کردہ شرائط کے مطابق پروگرام پر دستخط کرنےے سے انکار کیا۔ آج آپ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہیں نہ ہی حکومت یا ان کے اتحادیوں کے ساتھ ہیں۔ اس وقت آپ کہاں کھڑے ہیں؟
جواب: ہم پاکستان اور عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ واضح کہا تھا کہ حکومت پنجاب کی ناکامی ہے کہ 4 سال میں ماڈل ٹاﺅن سانحہ کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کر سکی۔ یہی رویہ رہا تو گویا وہ خود دعوتت دے رہے ہیں کہ کوئی اور آ کر احتساب کرے جو کسی کیلئے بھی بہتر نہیں۔
نمائندہ خبریں قصور جاوید ملک نے کہا ہے کہ قصور میں گزشتہ برس فروری میں مدثر نامی ایک شخص کو مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا جو فیکٹری میں ملازم تھا۔ ان دنوں 6 سالہ ریحان فاطمہ اغوا ہوئی تھی، جس پر احتجاج شروع ہو گیا اور پولیس مدثر کو پکڑ کر لے گئی۔ اس کی اہلیہ نے بتایا تھا کہ ان کا خاوند فیکٹری سے واپس آیا تھا تو پولیس پکڑ کر لے گئی بعد میں مقابلے میں مار دیا۔ پولیس نے اس وقت ریحان فاطمہ اور اس سے پہلے کے واقعات کا ملبہ مدثر پر ڈال دیا تھا۔ زینب واقعہ کے بعد اب 8 ڈی این اے ٹیسٹ آئے ہیں جو ملزم عمران سے میچ ہوتے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ریحان فاطمہ کا ٹیسٹ بھی عمران سے میچ کرنا ہے۔ ترجمان پنجاب حکومت نے بیان جاری کیا ہے مدثر کے قتل کی دوبارہ تحقیقات شروع کر رہے ہیں۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain