لاہور (کورٹ رپورٹر) سپریم کورٹ نے زینب قتل کیس کے ازخود نوٹس کی سماعت میں عدالت کی معاونت کیلئے عامر محمود، ضیا شاہد، مجیب الرحمن شامی، عارف نظامی، نسیم زہرا، حامد میر، کاشف عباسی، عاصمہ شیرازی، چودھری غلام حسین، سہیل وڑائچ سمیت دیگر صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں کو طلب کیا۔ جہاں گفتگو کرتے ہوئے چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد نے کہا جہاں تک قاتل عمران علی کے بینک اکاﺅنٹس کے بارے میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزام کا تعلق ہے تو مجھے ملزم عمران کے اکاﺅنٹس کے بارے میں علم نہیں۔ اس سوال کا جواب تو ڈاکٹر شاہد مسعود دے سکتے ہیں اس کی تحقیقات ہونی چاہئے لیکن شک ہے کہ بچوںکے ساتھ زیادتی اور قتل کے پس پردہ ایک منظم گروہ ہے۔ شبہ ہے کہ زینب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ کی بھی ویڈیو فلم بنی ہو گی اور ممکن ہے کہ اسے ویب سائٹ پر لائیو دکھایا گیا ہو۔ دوسرا یہ کہ 300 بچوں سے زیادتی کی خبریں آئیں تو میں ذاتی طور پر قصور کیا تو اس وقت صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ یہ اراضی کا معمولی تنازعہ ہے ایسے کوئی واقعات رونما نہیں ہوئے۔ بچوں سے زیادتی کی فلمیں بنتی ہیں اور بکتی ہیں۔ ممبئی کی رادھا نامی لڑکی کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوا تھا۔ 4,3 سال بعد ہیکرز نے فلم تلاش کی۔ اسی طرح میرے پاس سرگودھا کے ایک بندے کا کیس ہے۔ ایف آئی اے لاہور نے کیس کی تفتیش کی ملزم نے تسلیم کیا کہ اس نے 6 سو بچوں سے زیادتی کی فلمیں بنائی تھیں اور ناروے کی ویب سائٹ کو بیچی تھیںاور فی فلم 300 یورو کمائے۔چونیاں میں ایک شخص کو لوگوں نے بتایا کہ تمہارے بیٹے کی یو ٹیوب پر فلم چل رہی ہے۔ دیکھا تو زیادتی کی فلم تھی۔ باپ نے بچے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ڈیڑھ سال سے میرے ساتھ ہو رہا ہے اب میں انکار کر دیا ہے تو فلم اپ لوڈ کر دی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بچوں سے زیادتی کی فلمیں بنتی ہیں اور خریدوفروخت ہوتی ہے جس میں منظم گروہ ملوث ہے جو بااثر بھی ہے۔ صوبائی وزیر قانون نے قصور میں احتجاج کے بعد پولیس فائرنگ سے دو افراد کی ہلاکت کی تردید کی اور کہا کہ وہاں نہ کوئی احتجاج ہوا نہ گولی چلی۔ میں نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو مشورہ دیا تھا کہ لوگوں سے غلطی ہوتی رہتی ہے آپ بھی تسلیم کر لو لیکن انہوں نے عدالت میں تسلیم نہیں کیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ ممبئی کی رادھا کی طرح زینب سے زیادتی کے بعد اس کے جسم کو کاٹا گیا، بازو کاٹے گئے اور لاش کو کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا گیا۔ رادھا کے واقعہ کا ہیکرز نے 4,3 سال بعد کھوج لگا لیا تو پتہ چلا کہ اس سارے واقعہ کی مکمل ویڈیو فلم بنی اور اس کو ڈارک ویب سیٹ پر لائیو بھی دکھایا گیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ دونوں واقعات کا سکرپٹ ایک جیسا ہے زیادتی کے بعد قتل، ہاتھ کاٹنے اور لاش کوڑے میں پھینکنے کے واقعات میں یکسانیت ہے لہٰذا انکوائری کرائی جائے کہ زینب کی فلم تو نہیں بنائی گئی اور لائیو چلائی تو نہیں گئی۔ میں ایک بار بچوں کے ساتھ زیادتی کی خبریں سامنے کے بعد قصور گیا اور ایک مذاکرہ میں تقریر میں کہا کہ قصور کے عوام متحد ہو جائیں اوراس کے خلاف مل کر مہم چلائیں۔ تقریر کے بعد میں گاڑی میں بیٹھا تو ہمارے نمائندے اور دو اور افراد نے مجھے کہا کہ آپ کے ایک طرف جو ایم پی اے بیٹھا تھا وہی ملزموں کی سفارش کر کے تھانے سے چھڑواتا ہے اور دوسری طرف جو وکلاءکا لیڈر بیٹھا تھا وہی زیادتی کے ملزموں کے کیس لڑتا ہے۔
